کل رات ایک صاحب سے راستے میں ملاقات ہوگئی پوچھنے لگے کہاں جارہے ہو؟ میں نے کہا ممبرا کے شاہین باغ ، کہنے لگے کہ بھیڑ بھاڑ اور رش والی جگہوں پہ جانے سے تھوڑا احتیاط برتیں ملک میں کرونا وائرس نے دستک دے دی ہے اور کئی لوگ اس متعدی بیماری کی چپیٹ میں آچکے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے آپ اس مرض سے محفوظ ہوجائیں گے اس کی کوئی گارنٹی ہے؟ تو وہ تھوڑا ناراض ہوگئے، میں نے کہا آپ ناراض مت ہوں میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ کچھ وائرس ایسے ہیں جس میں آپ چاہے جتنی تدبیریں کرلیں مگر ناکامی ہی ہاتھ آتی ہے۔ مثال کے طور پر، میں نے ان سے کہا کہ جب میں کوئی پانچ چھ سال کا تھا تو میرے گاؤں میں “ختنہ وائرس” پھیلا ہوا تھا اور اس میں صرف مسلم بچے ہی زد میں آتے تھے، کسی بھی وقت اچانک نائی نمودار ہوتا اور آنا فانا دو ایک کا ختنہ کرکے نکل لیتا۔ یہ خطرہ ہمارے سر پہ بھی منڈلا رہا تھا اس لیے احتیاطا اس سے بچنے کے لیے ایک منظم پلاننگ ہوئی اور اس کے لیے اپنی ہی عمر کے تین اور بچوں کا انتخاب عمل میں لایا گیا، حلقے کے اعتبار سے انھیں نگراں مقرر کیا گیا اور باہم یہ طے ہوا کہ اپنے اپنے علاقوں پہ کڑی نظر رکھی جائے اور جیسے ہی گاؤں میں کہیں نائی داخل ہوتا نظر آئے فورا اس کی جانکاری شئیر کی جائے تاکہ ہم چاروں ایک ساتھ گاؤں کی سرحد سے باہر نکل کر خود کو اس وائرس سے محفوظ کرسکیں۔
وقت گزرتا رہا اور ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمے داریوں کو بخوبی نبھاتا رہا۔ اس درمیان احتیاط اس حد تک برتا گیا کہ اگر نائی کسی دن بال بھی کاٹنے آیا تب بھی ہم گاؤں سے ندارد رہے لیکن ہماری اس چار رکنی کمیٹی کو کسی کی نظر لگ گئی اور گروپ کا ایک ممبر کسی وجہ سے ناراض ہوکر چلا گیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ جنوب کی طرف چوکیداری کرنے والا کوئی نہیں بچا اور یہ خطرہ بنا رہا کہ اگر کہیں نائی اسی سمت سے داخل ہوگیا تو ہم سب ختنہ وائرس سے نہیں بچ پائیں گے۔ اگلے دن اس خلا کو پر کرنے کے لیے ہم نے ایک دوسرے ساتھی کو اپنی کمیٹی میں شامل کیا اور خوشی خوشی اپنے گھر چلے گئے۔
ایک دن ہم گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک بھاگو بھاگو کا شور بلند ہوا اور یہ شور میرے گھر کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہا تھا، جیسے ہی میں بھاگنے کی پوزیشن میں ہوا گھر میں موجود بھائی نے صدر دروازے کی طرف بڑھ کر دورازہ بند کردیا لیکن اس عمل میں وہ اتنی جلد بازی میں دکھے کہ پَل بھر کے لیے مجھ سے ان کی نظر ہٹ گئی۔ میں نے اپنی فطانت اور صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے اسی قیمتی پَل کا فائدہ اٹھایا اور پلک جھپکتے ہی بغل میں موجود “ڈِیہری” میں گھس گیا اور اوپر سے ڈھکن بند کرلیا۔
واپس جب بھائی گھر میں گھسے تو مجھے اپنی جگہ نہ پاکر حیران رہ گئے اور بلا تاخیر گاؤں کی ساری ایجنسیوں کو تلاشی ابھیان پر لگا دیا، مرد حضرات نے ارہر کے کھیت سے لے کر گنے کے کھیت تک ڈھونڈا اور خواتین نے ہر ہر گھر پہ جاکر دبش دی لیکن میرا کوئی اتا پتا نہیں چلا۔ گاؤں کا گاؤں لگ گیا مگر کوئی سراغ نہیں ملا وہ اس بات پر پریشان تھے کہ پلک جھپکتے ہی یہ نظروں سے کہاں اوجھل ہوگیا؟ آخر زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟ (میری والدہ نے تو یہاں تک کہا کہ مجھے آسیب کا شبہ لگ رہا ہے اور اس بار جیسے ہی وہ ملے ریواں کے مولوی صاحب کے پاس لے کر چلے جاؤ اور دعا کروالو) اس تلاشی مہم کے دوران ایک بار مجھے محسوس ہوا کہ کوئی “ڈیہری” کے اوپر تک آچکا ہے اچانک مجھے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا جملہ یاد آگیا “لو أنّ أحدهم نظر تحت قدميه لأبصرنا” لیکن یہ خطرہ بھی جلد ہی ٹل گیا۔ در اصل میں نے جس جگہ کا انتخاب کیا تھا وہ لوگوں کے ذہنی اور فکری نیٹ ورک سے باہر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرب و جوار کے گاؤں تک کو تلاش میں شامل کیا گیا لیکن “ڈیہری” میں جھانکنے کا خیال کسی کو نہیں آیا۔ یہ گاؤں میں ڈیہری میں چھپنے کا پہلا واقعہ تھا اور یہ شرف میرے حصے میں آیا۔
ادھر خوف ودہشت کی وجہ سے میرا یہ حال تھا کہ پسینے سے شرابور ہوچکا تھا ایک تو ختنہ کا خوف، دوسرے ہوا سے محرومی اور تیسرے غیر ارادی طور پر رک رک کر پیشاب ہونا۔
سارے لوگ تھک ہار کر بیٹھ گئے نائی بھی انتظار کرکے چلا گیا اور جب مجھے یہ لگا کہ وہ اب اپنے گاؤں پہنچ گیا ہوگا تو میں نے “ڈیہری” سے نکل کر گھر والوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیا اور خود سپردگی کردی۔
گھر والے اپنی اس ناکامی پر تلملائے ہوئے تھے اور ہر حال میں وہ ختنہ کرانے پر بضد تھے لیکن میری ذہانت اور احتیاطی تدابیر کے سامنے ان کی ساری کی ساری حکمت عملی فیل ہو جارہی تھی اس لیے انھوں نے ایک نئی چال چلی اور بالآخر میں دام میں آ ہی گیا۔
ہوا یہ کہ رات کو جیسے ہی میں نیند کی آغوش میں گیا ایک آدمی کو بھیج کر نائی کو بلوالیا گیا اور گھر پہ ہی اس کے سونے کا بندوبست کیا گیا ادھر دوسری طرف میری نگرانی بڑھا دی گئی، صبح جیسے ہی میری آنکھ کھلی میں ختنہ وائرس دشمنوں کے نرغے میں تھا۔ بھاگنے کے سارے راستے مسدود ہوچکے تھے گھر سے باہر تک گھیرا بندی کردی گئی تھی گاؤں کے سارے اہم راستوں پر نوجوانوں کو بٹھا دیا گیا تھا جو سی سی ٹی وی کیمرہ کی طرح نگرانی کر رہے تھے ایسے میں باہر بھاگنا ممکن نہیں تھا۔ اب میرے پاس رونے کے سوا کوئی اور حق نہیں تھا میں نے اس کا بھی بخوبی استعمال کیا اور بہت زور زور سے اور زارو قطار رویا لیکن کسی ظالم کو ترس نہیں آیا اور نیا کرتا پہنا کر مجھے کرسی پر بٹھا دیا گیا، میں نے آخری بار بچنے کی ایک کوشش اور کی اور خون نکلنے سے پہلے ہی پیشاب سے کرسی کو گیلا کردیا لیکن پھر بھی ظالموں نے دبوچ کر میری چمڑی کو کٹوا دیا اور وہاں موجود لوگ ہنستے رہے اور تالی بجاتے رہے۔
آپ نے زخموں پر نمک چھڑکنا تو سنا ہی ہے لیکن اس ظالم نائی نے میرے زخم پر چونا تھوکا تھا اور میں اس چونے کی کاٹ کو بھول نہیں سکتا ہوں، درد میں مبتلا ہونے کے باجود میں نے حضرت نائی کو بر وقت کئی لیٹیسٹ گالیوں سے نوازا تھا۔
میں دوبارہ صاحب کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ بھلا بتایئے کہ ہمارے احتیاط یا تدابیر میں کوئی کمی آپ کو نظر آئی بڑے بڑوں کو ہم نے چھ سال کی عمر میں پانی پلادیا لیکن پھر بھی ہم ختنہ وائرس کے شکار ہوئے۔ انھوں نے میری طرف دیکھا اور “لا حول ولا قوة الا بالله” کا ورد کرتے ہوئے غصے سے چلے گئے۔ ان کے پلٹتے ہی میں بھی “اللهم إني اعوذبك من البرص والجنون والجذام ومن سئي الاسقام” پڑھا اور شاہین باغ کو روانہ ہوگیا۔
اس انشائیے سے ایک اہم اطلاع یہ ملی ہے کہ حضرت بیلن کا ختنہ پانچ چھ سال کی عمر میں ہوا، حالانکہ بیلن جس دور قدیم کے ہیں، اس عمر میں بیاہ ہو جاتا تھا، گَونا البتہ بعد میں لایا جاتا تھا😍ممم مٹھو کا کہنا ہے کہ پانچ چھ سال کی عمر میں جن کا ختنہ ہوتا ہے، وہ عاشق مزاج ہوتے ہیں، ویسے تم نے تو غزوان کی #_قا_نونی اکیس مہینے ہی میں کٹوا دی تھی لیکن عرفات کی چڑیا ابھی نہیں اڑی ہے، مرشد تو عرفات کا خصیہ دیکھ کر کہنے لگے کہ یہ تو منقی لگ رہا… Read more »
ماشاء اللہ چھے سال کی عمر میں آپ کو ابو بکر کا تاریخی جملہ یاد تھا یہ تو آپ کی بزرگی کی علامت ہے۔ بہ قول رشید ودود صاحب ایسی عمر میں بیاہ ہو جاتا تھا ایسے میں آپ کا ختنہ سے جان چھڑا کر بھاگنا فرض تھا۔