بقلم: الشيخ إرشاد الحق الأثري
تعريب: راشد حسن المباركفوري
[أردنا تقديم نماذج من التعريب مع النص المتـرجم عنه في هذه الصفحة حينا لآخر توفيـرًا مجال التدريب والاستفادة للطلبة الدارسين، سائلا التوفيق والسداد. (الإدارة)].
النص الأردي:
نحمده ونصلي على رسوله الكريم وعلى آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، وبعد!
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم ایک ایسی مقدس ومحترم جماعت کا نام ہے جو اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پوری امت کے درمیان اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا واسطہ ہیں، جس کے بغیر نہ قرآن پاک ہاتھ آسکتا ہے اور نہ ہی قرآن کا بیان، جسے ہم سنت و حدیث سے تعبیر کرتے ہیں، اللہ سبحانہ وتعالی نے اول وہلہ میں انہیں”خیر امت“ اور” امت وسط“ کے لقب سے نوازا. اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کو یہ ڈیوٹی اور ذمہ داری سونپ دی «بلِّغُوا عني ولو آية» کہ میری طرف سے امت کو پہونچا دو، اگرچہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو. آیت سے مراد قرآن پاک کی آیت بھی ہے، آپ کی حدیث وسنت بھی، اگرچہ وہ مختصر جملہ ہی کیوں نہ ہو، اور آپ کا معجزہ بھی، جو آپ کی نبوت ورسالت کی بین دلیل وبرہان ہے، بلکہ حجہ الوداع کے عظیم اجتماع میں اس جماعت سے مخاطب ہو کر فرمایا :«فليبلغ الشاهد الغائب» کہ حاضرين میری باتیں غائبین تک پہنچا دیں. اس کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی تمام تر تعلیمات کو پوری دنیا میں پھیلایا، اور جو ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ذمہ لگائی تھی اسے بکمال وتمام پورا کیا.
ادھر دشمنانِ دین نے بھی سب سے پہلے صحابہ کرام کو ہی ہدف تنقید بنایا، انہیں بدنام کرنے اور ان کے مقدس کردار کو داغدار کرنے کے لیے ہر قسم کے حربے اختیار کیے، تاکہ امت اور اس کے نبی کے درمیان کا یہ واسطہ کمزور پڑ جایے، اور یونہی بلا کسی کدوکاوش کے اسلام کا دینی سرمایہ خود بخود زمیں بوس ہوجاے، آنحضرت صلی لہ علیہ وسلم سے بغض وعناد کے اظہار اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے بھی ان دشنمان دین نے صحابہ کرام کو ہی ہدف تنقید بنایا، چنانچہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے علامہ الدینوری رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ کچھ زندیق جمع ہوے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کے نبی کو برا بھلا کہا جایے مگر ان کے بڑے نے کہا کہ اگر تم نے ایسا کیا تو تمھیں قتل کردیا جایے گا پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ نبی کے صحابہ کو برا کہو اور ان کی برائیاں بیان کرو، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جب کسی پڑوسی کوتکلیف دینا مقصود ہو تو اس کے کتے کو مارو۔انہیں لوگوں نے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب؛صحابہ جہنمی ہیں اور یہ بھی کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی نبی ہیں، جبریل علیہ السلام سے وحی پہونچانے میں غلطی ہو گئ.(مفتاح الجنةص 127)معاذاللہ۔
مدینہ طیبہ کے گورنر عبداللہ ابن مصعب فرماتے ہیں کہ خلیفہ مہندی نے مجھ سے پوچھا کہ جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص کرتے ہیں ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے! میں نے کہا وہ زندیق ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص کی تو ان میں ہمت نہ تھی۔انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص بیان کرنا شروع کردی وہ یوں گویا یہ کہتے ہیں محمد صل اللہ علیہ وسلم برے لوگوں کے ساتھ رہتا تھا(تعجیل المنفعة ص235) خطیب بغدادی نے یہی واقعہ کچھ تفصیل سے تاریخ بغداد میں بھی بیان کیا ہے۔
اس تفصیل سے بغض صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے بارے میں لب کشائی کا پس منظر واضح ہو جاتا ہے۔مگر دشمنان اسلام اپنی تمام تر تدبیروں کے باوجود اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔اور اللہ تعالی کے مقرر کردہ اس واسطہ کی اطاعت و صداقت کو داغدار نہ کرے، محدثین عظام اور فقہائے کرام نے {الصحابة كلهم عدول} کا ایسا صور پھونکا کہ اس کے مقابلے میں تمام کوششیں ہیچ ثابت ہوئیں، والحمد للہ علی ذلک.
اوائل میں اسلام دشمنی کے اس محاذ پر ابن سبا کی ذریت تھی، رفتہ رفتہ اسمیں بدعی وکلامی فرقوں نے بھی حصہ لیا، آخری دور میں مستشرقین اور ان کی معنوی اولاد نے بھی اس میں بھر پور کردار ادا کیا، ادھر علماء حق نے ہر دور میں اس فتنہ کا تعاقب کیا، اور دفاع صحابہ کا حق ادا کر دیا فجزاھم اللہ أحسن الجزاء.
مگر انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو اہل السنہ والجماعہ کہنے والے کئی حضرات نے بھی اپنی تحقیق وریسرچ کا ایک عنوان اسی کو بنایا، جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل وکردار کو داغدار کرنے کی سعی نا مشکور کی گئی، ان کے آپس کے منازعات ومشاجرات کو موضوع سخن بنا کر ان کی شخصیت واہمیت کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی اور بڑے تسلسل اور چابکدستی سے یہ باور کرایا گیا کہ ان کی تمام تر کوششیں دین اسلام کے لیے ہی نہیں، بلکہ خود غرضی اور جاہ پسندی پر مبنی تھی، وہ آپس میں اسی طرح لڑتے جھگڑتے تھے جس طرح بادشاہت کے طلبگار باہم دست و گریباں رہتے ہیں.
حالانکہ تمام اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے، کہ صحابہ کرام کے ان باہمی معاملات واختلافات کا فیصلہ کوئی تاریخی مسئلہ نہیں، بلکہ ایمان وعقیدہ کا مسئلہ ہے کہ وہ ان مشاجرات کے باوجود عادل وصادق ہیں اور اس امت کے حدی خواں ہیں، تمام سلف کا یہی موقف ہے، کتب عقائد میں تمام ذمہ دار حضرات نے اس مسئلہ کو خوب مبرہن کیا ہے، جس کی ضروری تفصیل ہم اس رسالہ میں قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں، ہم نے اس میں مقام صحابہ، عدالت صحابہ اور سب صحابہ کے متعلقات ومباحث پر قصدا بحث نہیں کی، اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں مجرمانہ کردار ادا کرنے والوں کی شرعی پوزیشن پر بحث کی ہے، ورنہ اس کا حجم سہ چند ہوجاتا، ہم نے صرف یہ عرض کرنے کی کوشش کی ہے کہ تمام اہل سنت اور سلف امت کے نزدیک مشاجرات صحابہ کا کیا حکم ہے، تاکہ عامہ الناس اسے پڑھ کر صحابہ کرام کے بارے میں اپنے عقیدہ کی اصلاح کر سکیں، اور مباحث کو زیر بحث لانے سے گریز کریں. کیونکہ ان واقعات کو بیان کرنے یا دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے، اس سے صحابہ کرام کے بارے میں ایک عام انسان ناسمجھی کی بنا پر سوء ظن کا شکار ہوجاتا ہے اور ان سے وہ عقیدت ومحبت کھو بیٹھتا ہے جو ایک مومن صادق سے ان کے بارے میں مطلوب ومقصود ہے، آج سے تقریبا تیس سال قبل عدالت صحابہ کے عنوان سے ادارہ العلوم الاثریہ ایک رسالہ شائع کر چکا یے، جس میں اس موضوع پر مختصرا بڑی نفیس بحث ہے، مگر افسوس کہ ایک عرصہ سے وہ بھی دستیاب نہیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے توفیق بخشی تو ان شاء اللہ دوبارہ اسے حک و اضافہ کے ساتھ شائع کیا جاے گا.
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دفاع صحابہ کی اس حقیر کوشش کو قبولیت سے نوازے، اور اس کار خیر میں حصّہ لینے والوں اور ادارہ کی دامے درمے خدمت و اعانت کرنے والوں کی مساعی حسنہ کو قبول فرمایے.
النص العربي:
نحمده ونصلي على رسوله الكريم وعلى آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، وبعد!
إنَّ الصحابة الكرام رضوان الله عليهم أجمعين جماعة مباركة طيبة أخرجها الله تعالى كواسطة بين الرسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أمته، وبغيرها يستحيل التمسك بالقرآن الكريم، وموضح القـرآن وشـارحه وهو الذي نسمِّيه بالحــديث والسنّـة، وقد وصفها الله تعـــالى بـ”خيـرأمة ووسطها”، وهي أول مخاطبة لهما، وكلَّفَهَا النبيُّ صلى الله عليه وسلم بمسؤولية إبلاغ الرسالة قائلًا: {بلِّغوا عني ولو آية} والمراد بالآيـة آيـةُ القرآن الكريم والحديثُ والسنةُ النبوية – على صاحبها أفضل الصلاة وأزكى التسليم-، كما تَشْمَلُ معجزتَه صلى الله عليه وسلم التي هى دليلٌ قاطعٌ وبرهانٌ ساطعٌ لنبوته ورسالته؛ بل قال صلى الله عليه وسلم في مشهدٍ عظيمٍ يومَ الحج الأكبـر يخاطب هذه الجماعة المباركة: "فلْيبلِّغ الشاهدُ الغائبَ”. فبفضل هذا الإعلان تصدَّى جميع الصحابة الكرام لنشـر تعاليمه الفاضلة في أقطار العالم كله، ولم يدَّخــروا وسعًا في حمل الـرسـالة وأداء الأمانة على أحسن مايُرام.
وفي جانب آخر حاول أعداء الإسلام قبل كل شيء قدح الرعيل الأول من الصحابة وجرحهم، واختاروا شتى الوسائل الممكنة للنيل من أعراضهم الزكية وتشويه جمالها، وبه استطاعوا إيهان الواسطة وتفكيكها بين النبي وأمته، وهكذا يمكن نسف قواعـد قيم الإسلام وتراثه من غيـر أي لأيٍ وتعب، هؤلاء الأعداء جعلوا أنفسهم سيوفًا مسلولةً على الصحابة الكـرام أيضًا لإظهار بُغضهم وعدائهم وتسكين أرواحهم الحاقدة.
ذكـر السيوطي في المفتاح: "أخرج الدينَوَرِي فِي المجالسة عَن عبد الرَّحْمَن بن عبد الله الْخرقِيّ قَالَ: "كَانَ بَدْء الرافضة أَن قوما من الزَّنَادِقَة اجْتَمعُوا فَقَالُوا: نشتم نَبِيّهم، فَقَالَ كَبِيرهمْ: إِذا نقْتل، فَقَالُوا: نشتم أحباءه، فَإِنَّهُ يُقَال إِذا أردْت أَن تؤذي جَارك فَاضْرب كَلْبه، ثمَّ نَعْتَزِل فنكفرهم. فَقَالُوا: الصَّحَابَة كلهم فِي النَّار إِلَّا عَليّ، ثمَّ قَالَ: كَانَ عَليّ هُوَ النَّبِي فَأَخْطَأَ جِبْرِيل”.
[مفتاح الجنة في الاحتجاج بالسنة للسيوطي(1/74)].
وفي التعجيل :”ذكره الزبير بن بكار فِي النّسَب فَقَالَ حَدثنِي عمي مُصعب عَن أَبِيه قَالَ قَالَ الْمهْدي مَا تَقول فِيمَن تنقص الصَّحَابَة فَقلت زنادقة لأَنهم مَا اسْتَطَاعُوا أَن يصرحوا بِنَقص رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فتنقصوا أَصْحَابه فكأنهم قَالُوا كَانَ يصحب صحابة السوء”. [تعجيل المنفعة لابن حجر(1/776)].
ذكرهذه القصة الخطيب البغدادي في تاريخه بقدر من التفصيل، انظر: تاريخ بغداد أو مدينة السلام (10/175)”.
وبهذا التفصيل تتبين خلفية التعرض لسبِّ الصحابة والبغض فيهم؛ لكن أعداء السنة لم ينجحوا في ذلك مع جميع حيلهم مكايدهم، ولم يستطيعوا تشويهَ جمال عدالة هذه الواسطة المقررة من الله تعالى وصدقها، وجميع المحدثين الكبار والفقهاء الكرام نفخوا كلمة "الصَّحَابةُ كلُّهُمْ عُدوْلٌ” في الصور دفعة واحدة بكلمة واحدة؛ حتى ذهبت كل محاولاتهم سدى ……. والحمد لله على ذلك.
وفي بداية العهود عملتْ ذريةُ ابنِ ســــبا على هذه الجبـهة من عداوة الإسلام ؛ ثم تدرَّجتْ فيها الفرقُ المبتدعةُ وأهلُ الكلام، وفي العصـور المتأخــرة أسـهم فيها بشكلٍ كبيـرٍ المستشـرقونَ وأفـراخهم، وفي جانب آخر تصدَّىَ علماءُ الحق للردِّ على هذه الفتـن، وأدَّوا حقَّهم في الذَّب عن الصحابة الكرام. فجزاهم الله أحسن الجزاء.
لكن الأسف على الذين يعُـدُّون أنفسهم من أهل السنة جعلوا موضوعَ دراستهم وبحثهم ما حاولوا فيه تشـويه سمعة الصــحابة الكــرام (رضوان الله عليهم أجمعين) الطيبةِ، وتعـرَّضَوا فيه لمنـازعاتهم ومشـاجراتهم فيما بينهم بغيةَ القضاء على مكانتهم وشخصيتهم. وحاولوا إقناع الناس بكل حيلة أنَّ جهودهم كلها لم تكن خالصة للدين الحنيف بل للمـصالح الـذاتية وحبّ المناصـب والكـراسي، وكانوا يتخاصمون ويتناحــرون فيما بينهم كما يتقاتل محب الحُكم والسيادة. (العياذ بالله).
بيد أن أهل السنة والجماعة مُجمِعون على أن مشاجرات الصحابة وخلافاتهم ليست مسألةً تاريخيةً؛ بل هي مسألة الإيمان والعقيدة، وهم عدول وصدوق رغم هذه المشاجرات، وهُداة الأمة المحمدية، هذا موقف سلف الأمة قاطبة منهم، وبرهن عليه جميع الأثبات من العلماء في كتب العقائد، وفي هذه الرسالة نسعد بتقديم تفاصيل المسألة بإذن الله وتوفيقه.
ولم نتعـرَّضْ فيـها عمدًا للمباحث المتصلة بـ مكانة الصحابة، وعدالتهم، وخطورة سبهم وشتمهم، ولم نتكلمْ عن المواقف المجرمة الآثمة من الصحابة الكرام (رضوان الله عليهم أجمعين) ومدى خطورة جرائمهم بالمنظور الشـرعي، ولو ذهبنا إلى نقل هذه التفاصيل لأصبح حجم الكتاب ثلاثة أضعاف، وحاولنا فقط إيراد موقف أهل السنة وسلف الأمة من الصحابة الكرام، ليُصلح الناسُ ما فسد من معتقَداتهم في هذا الشأن، ويمتنعوا عن الخوض فيه؛ لأنَّ الخوض فيه والكلام عنه لا يعود إليهم إلا بالمضـرة من غيـر جدوى، والعــامة من النـاس يصبحون فريســة سـوء الظن بالصحابة الكرام لجهلهم وقلة علمهم، ويفقدون تلك المحبة والتوقيـر والاحتـرام تجاه الصحابة التي هي ضالة المؤمن الصادق.
وقد قـامت "إدارة العــلوم الأثــريــة”، (فيصل آباد – باكستان) بطبع رسـالة عن "عدالة الصحابة” قبل ثلاثين سنة، وفيها كلام نفيس عن هذا الموضـوع؛ لكنها نفدت منذ مدة من الزمن، نسأل الله سبحانه وتعالى أن يوفِّقنا طبعها مع مراجعة وتحقيق مزيد، كما نسأله أن يتقبلَ هذا العمل المتواضع في الذبِّ عن الصحابة الكرام (رضوان الله عليهم أجمعين) ويشكرَ سعى هذه المؤسَّـسة وكل من ســاهـم في هذا الخـــــير. اللهم آمين.
[مقدمة كتاب مشاجرات صحابة اور سلف كا موقف: موقف الأسلاف مما شجر بين الصحابة من الخلاف].