ہمارے بارے میں


 ہم نے قلم کاغذ کو کبھی بریڈ بٹرنہیں بنایا۔

(ولااسئلکم علیہ من اجر) 

اور ا ب جب کہ انگلیوں سے روشنی نکلنے لگی ہے اور چھوٹا سا موبائل فون لامحدود بیاضوں میں تبدیل ہوگیا ہے اس کاروبار کی حساسیت اور بڑھ گئی ہے۔ پہلے مہنگا تھا یہ اب بہت سستا ہوگیا ہے۔ جب قلم کاغذ کا دور تھا تو کسی ٹوپی میں آگ لگانے کے لیے ایک عدد ماچس (قلم) اور بہت سے ایندھن (کاغذ) کی ضرورت پڑتی تھی، اب ڈیجیٹل بیاض کا زمانہ آیا ہے تو بڑی سی پگڑی میں بھی اتنی آسانی سے آگ لگ جاتی ہے کہ سوکھے جنگل کی طرح کئی دن تک جلتی رہتی ہے۔ 
یعنی سہولتیں اب زیادہ ہوگئی ہیں۔ وسائل ہی عام نہیں ہوئے ہیں عزتیں بھی بہت سستی ہوگئی ہیں۔ بنتے دیر لگتی ہے نہ بگڑتے۔ ساری دنیا شیئر بازار ہوگئی ہے، رشتے بھی اب اسی دنیا کے اصول پر جیتے مرتے ہیں۔ 
فری لانسر جب کاغذ پر چھپتا تھا پڑھا جاتا تھا۔ مضامین کے انتخاب کا معیار ہی ایسا تھا۔ 
اور اب جب کہ فری لانسر ویب پورٹل بن چکا ہے امید ہے کہ پہلے سے زیادہ پڑھا جائے گا کیونکہ اس کی رسائی رسالے سے کئی گنا زیادہ ہوگی۔ مضامین کے انتخاب کا معیار بھی وہی ہوگا بلکہ آسان وسائل اشاعت کی وجہ سے یہ ذمہ داری اور بڑی ہوگئی ہے۔ 
بدلتے زمانے کے مطابق فری لانسر کا یہ اسٹیج بدلا ہوا ہے مگر ہم وہی ہیں، ہماری ٹیم وہی ہے، ہمارا نقطہ نظر وہی ہے، ہم دین اسلام کے داعی ہیں، کتاب وسنت کے پرچارک ہیں، ہم سب سے ہم کلام ہوتے ہیں، معاصر زبان میں بات کرتے ہیں، ہم احتیاط کے نام پر جمود وتعطل کو رد کرتے ہیں، ہم بے جا اندیشوں کی بنیاد پر کسی کا رستہ نہیں روکتے ، ہم قابل قدر اقدامات کا اعتراف کرتے ہیں، گراں قدر خدمات کی تعریف کرتے ہیں، جب ضرورت ہو ہم تعدیل کے ساتھ ساتھ جرح (نقد) بھی کرتے ہیں۔اور یہ نقد فری لانسر کامابہ الامتیاز ہے۔ وہ اس طور کہ ہمارے سماج میں تعارف اعتراف سے ہوتا ہوا تعریف تک تو پہنچ جاتا ہے مگر اس سے آگے نہیں بڑھتا۔ اس کلچر کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک ہی موضوع پر کئی کتابوں کی تکرار، ایک ہی خصوصی شمارے میں ایک جیسے کئی مضامین دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسے اسراف پر کوئی منہ نہیں کھولتا ، زبردستی کھلوایا جائے تو ’’اچھا ہے‘‘ کہہ کر وہ بھی اس جرم میں برابر کا شریک ہوجاتا ہے۔ ہم ایسی بدنظمی پر بات کرنے کو وقت کی بہت بڑی ضرورت سمجھتے ہیں۔ 
اللہ رب العالمین سے دعا ہے و ہ ہمیں درست بات کرنے کی توفیق دے۔آمین