کمبخت یہ فریبِ نظر کون دے گیا

مختار تلہری ثقلینی شعروسخن

دل سوگوار، دیدہءِ تر، کون دے گیا

بے کیف زندگی کا سفر کون دے گیا


شیشہ گری میں نام تمھارا بہت سنا

پتھر تراشنے کا ہنر کون دے گیا


خوابوں پہ اعتماد کیے جا رہا ہوں میں

کمبخت یہ فریبِ نظر کون دے گیا


دل جاگنے کی ضد پہ رہا رات بھر مگر

آنکھوں کو نیند وقتِ سحر کون دے گیا


دن رات جگمگاتے ہیں پلکوں پہ آج کل

کیسے بتاؤں شمس و قمر کون دے گیا


ان کے سوا دکھائی نہیں دیتا ہے کوئی

میری نظر کو ایسی نظر کون دے گیا


ہونٹوں پہ اب ہنسی نہیں آتی ہے مدتوں

مختار آنسوؤں کا اثر کون دے گیا

آپ کے تبصرے

3000