محو ہونے کو ہے آرزوئے سخن ساز گفتار یاراں بکھر جائے گا
ہجر کی دھوپ پڑتی رہے گی سدا مژدۂ ابر باراں بکھر جائے گا
رقص گاہ تمنا میں وحشت بھرے تھرتھراتے دیوں کی نگاہوں تلے
ہوش اڑ جائیں گے ساقیوں کے سبھی بادۂ بادہ خواراں بکھر جائے گا
زہر گھل جائے گا ہجر کا دل بہ دل، جاں بہ جاں موسم یاد رہ جائے گا
خشک ہو جائیں گے شیشۂ رنگ و بو جام شوق بہاراں بکھر جائے گا
دور تک پھیل جائے گی راہ الم کو بہ کو درد ہی درد ہوگا یہاں
محفل گریہ و زاری کے درمیاں گوشۂ غم گساراں بکھر جائے گا
سرد پڑ جائیں گے سلسلے شوق کے آہ تھم جائے گا محشر بے خودی
خواب ہو جائے گی شام دشت جنوں مجمع بے قراراں بکھر جائے گا
ہائے عجلت میں شام و سحر کٹ گئے وقت کے سارے روشن دیے بجھ گئے
اب یوں ہی ہاؤ ہو کے سفر میں کہیں رنگ نام فگاراں بکھر جائے گا
خواہش و جستجو اب کہاں میری جاں! سامنے ہے سراب تمنا، جہاں
ٹوٹ جائیں گے فن کے ستارے سبھی منظر خوش نگاراں بکھر جائے گا
آخری شب ہے بزم طرب میں تری پھر خدا لے کے آیا یہاں پر اگر
تیری خوشبو رہے گی ہمارا مگر قصۂ خوش گواراں بکھر جائے گا
جب وہی تشنہ کامی مقدر رہی پھر کسی کی حسٓن جستجو کیوں کریں
ہم کو معلوم ہے عشق کی راہ میں ذکر ایفا شعاراں بکھر جائے گا
آپ کے تبصرے