در و دیوار سمجھنے لگے دیوانہ مجھے
مرے آئینے نے بھی آج نہ پہچانا مجھے
ایک لمحے کے لیے حسن کا دیدار ہوا
عمر بھر بھرنا پڑا عشق کا جرمانہ مجھے
شہر سے لوٹ کے آؤں کہ کسی صحرا سے
تیرا پہلو ہی نظر آتا ہے کاشانہ مجھے
میں سمجھتا رہا ہر حال میں اپنا تم کو
تم سمجھتے رہے ہر رنگ میں بے گانہ مجھے
ہنسنا چاہوں تو کوئی اور ہنسے میرے ساتھ
رونا چاہوں تو میسر ہو کوئی شانہ مجھے
شہر کے شور میں مدفون کوئی خاموشی
بھیڑ کے بیچ نظر آتا ہے ویرانہ مجھے
اس طرح ختم ہوئی باہمی بحث و تکرار
میں نے لوگوں کو کہا لوگوں نے دیوانہ مجھے
میں نے کیا کیا نہ کیا شاد نبھانے کے لیے
یہ جہاں راس کسی طور بھی آیا نہ مجھے
آپ کے تبصرے