گو دل تقسیم نہیں ہوئے، لیکن دیواریں بہت اونچی ہو گئی ہیں – اب تو آواز بھی بہت دیر سے آتی ہے –
گلشن میں کہیں بوے دمساز نہیں آتی
اللہ رے سناٹا ——– آواز نہیں آتی
اللہ بھلا کرے مجلہ “الاعتصام ” والوں کا کہ جنہوں نے ہندستان کے بھائیوں سے ربط قائم رکھا، اور یوں کبھی کبھی کوئی خبر آجاتی، کوئی آواز آجاتی – اور پھر وہی سناٹا مقدر ہوجاتا –
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
سوشل میڈیا، رحمت کا ایک سبب بنا – کہ آواز کیا تصویریں بھی دکھائی دینے لگیں –
خوشی غمی کی خبر معلوم ہونے لگی … ورنہ تو کبھی کبھی لگتا تھا کہ بھائی ہم سے بہت ناراض ہو گئے ہیں، ہاں ہم ان کو چھوڑ جو بھاگے تھے
آج اس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا
کل رشید ودود کی وال سے خبر نشر ہوئی کہ شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ بنارس
“مولانا عبدالسلام مدنی رحمہ اللہ ہو گئے”
آج صبح تڑکے برادر ہلال احمد کا نشر کردہ مضمون پڑھا، جو ابوالقاسم فاروقی صاحب کا لکھا تھا – حالات سے آگاہی ہوئی –
مولانا عبدالسلام مدنی جامعہ رحمانیہ کے آخری طلبا میں سے تھے – یہ جامعہ رحمانیہ بنارس میں ہے اور دلی کے مرحوم جامعہ رحمانیہ سے قدیم ہے – جب دلی کا جامعہ رحمانیہ تقسیم کے سبب ختم ہو گیا تو مولانا نذیر احمد املوی اسی جامعہ میں آ گئے –
دلی کا جامعہ رحمانیہ وہی ہے جو ہماری جماعت کے اکابرین نے بہت محنت سے قائم کیا تھا ، ہندستان بھر کے جید علماء نے یہاں خدمات سرانجام دیں – جب کبھی اس کی بارے میں پڑھتا ہوں تو دل دماغ میں تلخی اتر جاتی ہے ، ہاں تلخی ان فیصلوں کی تلخی جنہوں نے ایسے نہ جانے کتنے ادارے برباد کیے – تقسیم کے نقصانات جو ہوئے سو ہوئے لیکن جس طرح مساجد اور مدارس برباد ہوئے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، نہ ازالہ ممکن – میں جب جامعہ رحمانیہ کو سوچتا ہوں مجھے مسجد قرطبہ یاد آجاتی ہے – اقبال کا یہ شعر نہیں، نوحہ ہے کہ جیسے اس پر آسمان سے اترا تھا
مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں
لیکن اس بے کلی کا یہاں بھلا کیا علاج، یہاں تو ابھی بھی کسی کو سود و زیاں کا شعور نہیں – کون ہے جو ہمارے دکھ جانے ، کون اس دل کو تسلی دے –
غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے و لیکن
تسکین مسافر نہ سفر میں نہ حضر میں
دیکھا بھی دکھایا بھی، سنایا بھی سنا بھی
ہے دل کی تسلی نہ نظر میں، نہ خبر میں!
….. آپ مدینہ یونیورسٹی سے ساٹھ کی دہائی کے اخیر میں فارغ ہو کر آئے تھے- فاروقی صاحب نے لکھا ہے کہ آپ مولانا ان ابتدائی چار طلبہ میں سے تھے جن کا جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ ہوا ، ان میں مولانا عبدالحمید رحمانی بھی شامل تھے – یہ وہ دن تھے کہ پاکستان سے علامہ احسان الہی ظہیر بھی وہاں تعلیم کے آخری مراحل طے کر رہے تھے – مولانا رحمانی نے ان دنوں کی یادیں ایک مفصل مضمون کی صورت میں رقم کی ہیں – خاص طور پر وہ قصہ خاصا دلچسپ ہے جب علامہ سال بھر اپنی دو کتابوں “القادیانیہ ” اور “البابیہ” کی تالیف میں مصروف رہے – یہ دونوں کتب زمانہ طالب علمی میں لکھی گئیں – “القادنیه” کا قصہ تو مشھور تھا .. لیکن دوسری کتاب بھی زمانہ طالب عملی میں لکھی گئی، یہ کسی کو معلوم نہ تھا –
مولانا عبدالسلام مدنی جب مدینہ یونورسٹی سے فارغ ہو کر آئے تو آ کے جامعہ سلفیہ میں تدریس شروع کر دی – اور پھر
حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے
اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے
حضرت مولانا نے پھر پلٹ کے نہیں دیکھا اور چالیس برس اسی جامعہ میں گزار دیے – میں پڑھ رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا کہ یہ عمر کا نصف سے زیادہ حصہ بنتا ہے – ڈیڑھ سو ماہوار سے شروع ہونے والی یہ نوکری نہ تھی ، محض محبت تھی – اور محبت کو پیسوں میں نہیں تولا جاتا –
سو مولانا نے بھی اسے محبت ہی بنا رکھا، اپنے وطن سے دور ، اس بستی میں چالیس برس گذار دیے – اس بیچ ہزاروں طلبا آپ کے چشمہ علم سے سیراب ہوئے –
اب انہیں ڈھونڈھ چراغ رخ زیبا لے کر
……..
یہ مختصر مضمون لکھ چکا تو احباب نے اصلاح کی کہ مولانا مدنی ، جامعہ رحمانیہ دلی کے طالب علم نہ تھے بلکہ بنارس کے جامعہ رحمانیہ سے پڑھے تھے ….لیکن جی نہ چاہا کہ “رحمانیه مرحوم دلی” کا تذکرہ حذف کیا جائے ، سو احباب اس کی تصحیح انہی لفظوں کو جان لیں –
آپ کے تبصرے