دل کے ویرانے میں پھر ہنگامۂ خاموش ہے
زندگی سے خوبصورت موت کی آغوش ہے
ہر نفس موج تألم کی سحرکاری میں ہے
خیریت آنکھوں کی اس لمحہ گہرباری میں ہے
رنگ و بو کے درمیاں میں سایۂ کہرام ہے
عشرتِ ایام پر تشویش حزن عام ہے
دہر بے خوابی کے عالم میں ہے محو اضطراب
آب و گل سے اٹھ رہا ہے شور ماتم کا خطاب
چڑھ رہا ہے آسماں پر احمریں رنگ سحاب
فرط حیرت کھینچتی ہے سوزش انکار تاب
نور و نکہت ڈھونڈتے ہیں کیف و مستی کا سراغ
اٹھ گیا گویا جہاں سے راز ہستی کا سراغ
چوٹ کرتی ہیں سماعت پر دھنیں مضراب کی
خوشنما نظارے لگتے ہیں بلا گرداب کی
مشرق و مغرب ہیں رمز بے قراری کے نقیب
ہر طرف برپا ہے حشر بے ثباتئ نصیب
کچھ سمجھ آتا نہیں دام اجل کا انتخاب
زندگی رہ جاتی ہے بن کر فقط مثل حباب
عرصۂ بے خواب دنیا کمتر و کوتاہ ہے
کہکشاں اس کارخانے کی غبار راہ ہے
زندگانی کا تصور نالہ سامانی میں ہے
اک ترے جانے سے کیا کیا کچھ پریشانی میں ہے
تیرا دنیاوی سفر تھا محمل کار ارم
تجھ کو پیارا تھا مدینہ، تو تھا آہوئے حرم
نسبتیں اللہ والوں سے تری پہچان تھیں
ان کے حق میں تیری باتیں گوہر عرفان تھیں
لالہ کارئ تبسم خو گرفتہ تھی تری
ضوفشانئ جبیں ہر آن حصہ تھی تری
تیرے دم سے پاس ناموس محبت عام تھا
سوئے میخانہ وفاؤں کا تری ہی جام تھا
جام و مینا کہہ رہے ہیں آکے پھر ہم کو سجا
تجھ کو ہم خم خانہ آرا ڈھونڈتے ہیں جا بجا
آہ تیری صحبتیں اب قصۂ پارینہ ہیں
گلشن ہستی میں خاموشی کا اک سازینہ ہیں
موت کے سائے سے بچ کر کوئی جا سکتا نہیں
یادیں آسکتی ہیں جانے والا آسکتا نہیں
آسمان علم و حکمت پر وہ تابانی کہاں
دوش شب پر شمع سوزاں کی نگہبانی کہاں
رو بہ رو قندیل عقل و ہوش کے گفتار تھی
لب پہ ہم آوازئ آگاہی جوئے بار تھی
ساز توحید و رسالت کا قرین جاوداں
سینۂ کہسار میں آباد کی جس نے اذاں
جس نے بانگ حق سے مارا کلبۂ ناقوس پر
روشنی ہی روشنی پھوٹی در فانوس پر
جس کی بے تابی نے برپا کردیا شور یقیں
جگمگا اٹھی چراغ نیم کشتہ کی جبیں
جس نے صحرائے کہن میں سلسلے پیدا کیے
شوق سے لبریز کتنے قافلے پیدا کیے
آہ وہ ناموس سحری حاصل فرقت ہوا
جادہ پیما گنبد افلاک کا، رخصت ہوا
درد کا کوہ گراں سر قضا میں گھل گیا
سوسنِ پژمردہ جوئے شبنمی میں دھل گیا
سوز غم سے دل پہ بارِ رقصِ بے تابی نہ پوچھ
قالب خاکی میں خوں کی جوئے سیمابی نہ پوچھ
کتنی آسانی سے بجھ جاتا ہے خواب زندگی
دفعتا ہو جاتی ہے سادہ کتاب زندگی
منبر و محراب روتے ہیں خلوص آرائی کو
طاق حرمت میں طلسم روح کی برنائی کو
سجدہ گاہیں ڈھونڈتی ہیں تیری پیشانی کی تاب
قطرۂ اشک سحر گاہی و در مشک ناب
کھینچ لیتا تھا شبستاں سے جسے خوف خدا
لگ گئی اس بندۂ عباد پر مہر قضا
کنج تنہائی میں باد آہِ و گریہ مشکبار
سامنے اللہ کے روتا تھا وہ زار و قطار
آہ تصویرِ دعا سے خانہ خالی ہوگیا
دستہائے ہستی سے لعل بدخشاں کھو گیا
کتنی ویرانی جہاں کے اس جلو خانے میں ہے
بندۂ مومن خدا کا خاکی کاشانے میں ہے
زور سینہ سوزی ہے خانہ فراموشی کے بعد
چھڑ گیا ساز یتیمی تیری روپوشی کے بعد
خواب دیرینہ نگاہِ جوئے خوں سے بہہ گیا
سینۂ گیتی میں نوکِ نشترِ غم رہ گیا
آہ نفسِ مطمئنہ وہ سراپائے سکوں
جیسے بھر لے گود میں باغ عدن کا رہنموں
بوسۂ رخصت جبیں پر ہم سر و ہم دوش تھا
مرد مومن جستجو میں ہجر کی خاموش تھا
موت کیا ہے زندگئ تازہ کا آغاز ہے
رخصت ہونے والے کا اپنا الگ انداز ہے
کوکب و انجم کو تجھ سے رشک تابانی رہا
نسخۂ ہستی مثال لعل رمانی رہا
مرقد خاکی میں تیرے نور ربانی رہے
مژدۂ خلد بریں کی عطر افشانی رہے
اوجِ خوشبو ہو لحد کی تیری ہر مہرِ گیاہ
شبنمہائے مشک بو میں تربتر ہو خواب گاہ
رب العالمین درجات بلند فرمائے آمین