ماضی تمنائی کی بات

حاتم اسفرازی شعروسخن

عشق پر چھائی ہوئی وہ ایک پرچھائی کی بات

یعنی آ مل کر کریں ہم قیس لیلائی کی بات


خون کے رشتے کی سچائی کا اندازہ ہوا

ایک بھائی سے سنی جب دوسرے بھائی کی بات


آبلہ پائی کے شکوے پر کہا نادان ہو؟

اور پھر کرنے لگے وہ قیس صحرائی کی بات


حال و مستقبل تھے لیکن بے بسی کے جرم میں

ہم ہوئے اُن کے لیے ماضی تمنائی کی بات


آج کل بس اِس طرح تم یاد آتے ہو ہمیں

موسمِ سرما میں جیسے جون، جولائی کی بات


ہجر کی صورت ملی حاتؔم کتابِ عشق میں

مزرعِ غم، اشکِ باراں، تخمِ تنہائی کی بات

آپ کے تبصرے

3000