بنجارے

کاشف شکیل شعروسخن

دل کی بازی ہر میداں میں ہارے ہیں

عشق میں خود کے جوتے سر پر مارے ہیں


اس کے ستم نے سینہ چھلنی کر ڈالا

سانسیں ہیں یا خون کے یہ پھوّارے ہیں


روح کی گٹھری جسم پہ بھاری پڑتی ہے

اس پر شاہد بہتے اشک ہمارے ہیں


اس کی پیشانی تو روشن ہے لیکن

قسمت میں مایوسی کے اندھیارے ہیں


جس کی زباں سے ہر پل جھوٹ نکلتا ہے

اس سے سچ کی آس میں کچھ بیچارے ہیں


اس‌‌ کے ہونٹ تو پہلی شب کے چاند سے ہیں

مسکائے تو دانت چمکتے تارے ہیں


وہ محلوں کی آوارہ شہزادی ہے

کاشف ہم فرہاد صفت بنجارے ہیں

آپ کے تبصرے

3000