ہر تعلق میں دو لیئر ہوتے ہیں، قربت ہوتی ہے فاصلے ہوتے ہیں۔ قربت کے ابعاد میں فاصلے کی لکیریں ہوتی بھی ہیں اور دکھائی بھی دیتی ہیں۔ فاصلوں کی جہات میں قربتوں کے تار ہوتے بھی ہیں اور دکھائی بھی دیتے ہیں۔
یہ دونوں لیئر جس تعلق میں اپنی اپنی جگہ پر ہوتے ہیں وہ تعلق بڑا خوشگوار ہوتا ہے۔ انھیں جگہ پر رکھنے کے لیے کوئی بٹن نہیں ہے، جذبات پر بٹن کہاں چلتے ہیں۔
حسن نیت اور توفیق الٰہی کے بنا کسی تعلق میں قربت کا بیلنس بنا رہ سکتا ہے نہ فاصلے میں توازن ممکن ہے، حالات یکساں نہیں رہتے نہ ضرورتیں دیر تک ٹھہرتی ہیں۔ تعلقات میں قرار کے لیے طبیعتوں میں وفا ضروری ہے۔
وفا ہی ریموٹ ہے وفا ہی بٹن، مگر تعلق کنٹرول کرنے کی چیز نہیں ہے، قربت لازمی ہے تو فاصلے (اسپیس) بھی ضروری ہیں۔ خارجی احتیاجات کے ساتھ ساتھ داخلی تشفی کے اسباب و آثار بھی ضروری ہیں۔
ایک گھر میں رہنے والے یا ایک کام سے جڑے لوگوں کے تعلق میں جو بات بڑی مشکل سے پیدا ہوتی ہے وہ ایک استاد اور شاگرد کے تعلق میں دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی۔
اس تعلق کا بیان زیر نظر مضمون میں ہے۔ بظاہر یہ بیان تو ایک دل کے واردات ہیں مگر بیانیے میں جو فطری نشیب و فراز ہیں وہ تعلق کے حصار سے باہر نہیں نکلتے، قربت اور اسپیس دونوں کے امتزاج سے پورے دورانیے کو قابل رشک بنادیتے ہیں۔
ڈاکٹر وسیم المحمدی صاحب نے اپنے ایک استاد کو یاد کرتے ہوئے جو جذبات خرچ کیے ہیں وہ آمد لگتے ہیں، اسی لیے قاری کے حواس پر جو کیفیت طاری ہوتی ہے وہ منتشر نہیں لگتی۔ اس تذکرے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ دونوں کردار، استاد اور شاگرد دوسرے پلانیٹ کے نہیں لگتے، لگتا ہے ہم نے بھی دیکھا تھا مگر ہمیں وہ دکھائی نہیں دیا جو ڈاکٹر صاحب نے دکھایا ہے۔ یہی کمال ہے زیر نظر تحریر کا۔ استاد کے نقش قدم کو سینت کر سجا دیا ہے شاگرد نے۔
اللہ رب العالمین ایسے استاد ہر شاگرد کو نصیب کرے اور ایسے شاگرد ہر استاد کو دے۔ آمین (ایڈیٹر)
یہ میری خوش نصیبی ہی تھی کہ مولانا 1997م میں جب پہلی بار جامعہ محمدیہ تشریف لائے اس وقت فضیلت کا میرا پہلا سال تھا۔ مولانا دو سال رہے، پھر واپس خیر العلوم ڈومریا گنج چلے گئے۔ کئی سالوں کے بعد دوبارہ جامعہ محمدیہ واپس آئے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔
مولانا سے 1997م میں میرا تعلق جو قائم ہوا تو پھر آپ کی وفات تک باقی رہا۔ ہماری آخری ملاقات آپ کی وفات سے تقریبا ڈیڑھ ماہ قبل 15 / اگست 2022م کی شام پونہ میں ہوئی۔ اس وقت آپ کا علاج چل رہا تھا اور آپ مکمل ہوش وحواس میں تھے۔ چونکہ آپ بیمار تھے اس لیے ملاقات مختصر رہی اور آپ سے بہت زیادہ باتیں نہیں ہو سکیں۔
مجھے آپ کی شاگردی کے دو سال (فضیلت اول اور فضیلت ثانی ) نصیب ہوئے۔ ان دو سالوں میں آپ نے مجھے صحیح بخاری اور صحیح مسلم جیسی اہم کتابیں پڑھائیں۔ علاوہ ازیں فضیلت ثانی میں آپ میری بحث کے مشرف بھی رہے۔ آپ ہی کی نگرانی میں “الأمثال العربیۃ ولطائفہا” کے موضوع پر میں نے عربی زبان میں مقالہ لکھا۔
جامعہ محمدیہ سے نکلنے کے بعد جامعہ اسلامیہ کی پوری زندگی آپ سے رابطے میں رہا۔ ہمیشہ گفتگو ہوتی۔ وہ موبائل کے زمانے میں بھی اکثر خط لکھتے۔ پہلے نصیحتیں کرتے، پھرسبب کتابت ذکر فرماتے۔مدینہ کے بعد جب میں دوبارہ جامعہ محمدیہ واپس آیا ہمارے بہت اچھے تعلقات رہے۔ ہر مرحلہ پر میں نے آپ سے بھر پور استفادہ کیا۔ پھر جب واپس دوبارہ سعودی عرب آگیا تب بھی ویسے ہی تعلقات برقرار رہے۔ تین سال بعد پہلی بار جب سالانہ چھٹی میں بھارت گیا تو سفر اس طرح ترتیب دیا کہ واپسی پر پونہ میں آپ سے ضرور ملاقات ہوجائے۔
آپ جب جامعہ محمدیہ آئے میں سادس سے فضلیت اول میں منتقل ہو چکا تھا۔ مزاج میں لا ابالی پن تھا۔نمبرات اگرچہ بہت اچھے آتے تھے مگر اس سنجیدگی سے تعلیم وتعلم کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تھا جو ایک اچھے طالب علم کے اندر ہونا چاہیے۔
مولانا کی نظر عنایت مجھ پر پڑی۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی طرح مجھ پر کرم کیا۔ میری تعلیم کے علاوہ مجھے مطالعہ کرنے پر ابھارا۔ لکھنے کا شوق مجھے ضرور تھا، مگر صلاحیت نہیں تھى۔ وہ سیکھنے کا مرحلہ تھا۔ میری خواہش تھی کہ کوئی استاذ اگر خصوصی توجہ کردیتا تو میں کچھ سیکھ لیتا۔ بعض اساتذہ کے پیچھے لگا، مگر کامیاب نہیں ہوسکا۔ مولانا کے آتے ہی میری یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ آپ نے میرے لکھنے پر خصوصی توجہ دی۔ مشورہ دیتے، لکھواتے اور پھر اسے چیک کرکے اصلاح فرماتے۔ یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا یہاں تک کہ میں کسی حد تک اچھا لکھنے لگا اور نقل کے مرحلہ سے بہت حد تک باہر نکل آیا۔
یہی محنت انھوں نے میرے اندر مطالعہ کا شوق پیدا کرنے کے لیے بھی کیا۔ اچھی کتابوں کی طرف رہنمائی کرتے۔ جو بھی نئی کتاب ان کے پاس کہیں سے آتی اور میرے لائق ہوتی مجھے ضرور دیتے اور پڑھنے کی تلقین کرتے۔ جب پڑھ کر واپس کرنے جاتا تو تبصرہ کے انداز میں کچھ سوالات کرتے تاکہ جان لیں کہ میں نے پڑھی بھی ہے کہ نہیں؟ ادبی کتابوں پر ان کا دھیان زیادہ رہتا تھا تاکہ لکھنے اور بولنے کا ملکہ اچھا ہوجائے۔ کرنل محمد خان کی بسلامت روی، بجنگ آمد اور بزم آرائیاں میں نے آپ ہی کی عنایت سے پڑھی تھیں۔
اسی سال چھٹیوں میں جب گاؤں گیا تو آپ نے طیب پور اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ وہاں بھی آپ کے پاس ایک چھوٹی سی لائبریری تھی۔ چند بہترین کتابیں اور مغلیہ سلطنت پر ایک خصوصی نمبر بطور خاص عنایت کیں۔ پڑھ کر دوبارہ پھر آنے کی تاکید کی۔ الحمد للہ آپ کی عنایتوں کا یہ سلسلہ دونوں سال بحسن وخوبی جاری رہا۔
مولانا تمام طلبہ سے بڑا ہی مشفقانہ اور خیرخواہانہ تعلق رکھتے تھے۔ تاہم حوصلہ مند طلبہ پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ مجھے انھوں نے اپنی اولاد کی طرح جانا۔ مجھ پر خصوصی عنایت کی۔ فضیلت اول اور ثانی میں مجھے جس محبت وعنایت کی ضرورت تھی آپ سے بھرپور انداز میں ملی۔ ان کی نگاہ میری تعلیم سے لے کر میری صحت، میرے لباس، میرا اٹھنا بیٹھنا، سب پر رہتی۔ کبھی طبیعت ذرا بھی مکدر لگتی تو فورا پوچھتے۔ کسی قابل ذکر مجلس سے غائب پاتے تو بعد میں ضرور استفسار کرتے۔ کوئی لباس نہیں جچتا تو اس پر بھی تبصرہ کرتے۔ کوئی ڈریس بہت اچھا لگتا تو اس پر بھی کمنٹ کردیتے۔
میرے تئیں مولانا کی محبت بہت ہی مثالی اور خیرخواہی پر مبنی تھی۔ وہ ایک فاصلہ بنا کر نہایت باریکی سے میری نگرانی کرتے اور میرا بھرپور خیال رکھتے۔ حوصلہ افزائی تو کرتے ہی تھے، کوئی کوتاہی دیکھ لیتےتو تنبیہ بھی کرتے۔ کوئی حرکت قابل گرفت ہوتی تو اس پر مواخذہ بھی کرتے۔ کوئی غلطی لائق سرزنش ہوتی تو سرزنش بھی کرتے۔ تاہم ہر جگہ آپ کی محبت ہی غالب رہتی۔
انسان کسی کی محبت کا عادی ہوجائے تو اس کی خاموشی بھی بہت گراں گزرتی ہے۔ کسی کی عنایت کا خوگر ہوجائے تو اس کا متغیر لہجہ ہی اذیت کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ایسے شخص کا بدلا ہوا تیور ہی تنبیہ کرنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ مولانا زیادہ ناراض ہوتے تو بالکل خاموش ہوجاتے۔ پھر زبان سے زیادہ ان کی نگاہ بولتی تھی۔ گویائی سے زیادہ ان کی خاموشی سرزنش کرتی تھی۔ تکلم سے زیادہ ان کا سکوت زجر وتوبیخ کرتا تھا۔ وہ مار دھاڑ کے قطعا قائل نہیں تھے۔ کسی پر ہاتھ اٹھانا، اسے زدو کوب کرنا ان کے کول مائنڈ اور ٹھنڈے مزاج کو بالکل سوٹ نہیں کرتاتھا۔ نادر ہی کسی نے انھیں کسی کو مارتے پیٹتے دیکھا ہوگا۔ شاید بہت شاذ حالات میں ہی ان کا ہاتھ اٹھتا تھا۔ وہ پہلے مرحلہ میں افہام وتفہیم پر یقین رکھتے تھے۔ پھر سرزنش کرتے۔ زجر وتوبیخ سے کام لیتے۔ پھر چپ ہوجاتے۔ سکوت ان کی تنبیہ کا آخری درجہ اور خاموشی ان کی ناراضگی کا آخری مقام ہوتا تھا۔
ایک ہی علاقے کا ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ سفر کرنے کا بھی اتفاق ہوا۔ آپ کے ساتھ سفر مزید پر لطف اور فوائد سے بھرپور ہوتا۔ مسافت طویل ہوتی مگر اکتاہٹ کا احساس نہ ہوتا۔ مولانا سفر میں بالکل ساتھی اور دوست بن جاتے۔ کھل کر گفتگو کرتے۔ تجربات ومشاہدات شیئر کرتے۔ واقعات سناتے۔ نہ تو سفر کو رسمی پند ونصائح سے بوجھل کرتے نہ ہی استاذ اور شاگرد کا فرق بالکل مٹنے دیتے۔
فضیلت اول اور ثانی کا زمانہ بہت ہی مثالی رہا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کود کھانا پینا رہنا سہنا سب بہت شاندار تھا۔ طلبہ کے دلوں میں اداروں سے محبت ویسے نہیں پیدا ہوتی۔ بہت ساری چیزوں کے ساتھ ساتھ ایسے مشفق اساتذہ اور بہترین انتظامیہ کا بھرپور کردار ہوتا ہے۔ بسا اوقات کسی استاذ کا کوئی ایک نامناسب رویہ یا کسی ذمہ دار کی کوئی ایک غلطی طالب علم کے دل میں زندگی بھر کے لیےنفرت پیدا کر دیتی ہے۔ ادارہ اس کے لیے یاد ماضی کا ایسا عذاب اور ناقابل فراموش حادثہ بن جاتا ہے جو رہ رہ کر اس کی یادوں کے زخم سے مختلف انداز میں ٹپکتا اور موقع بموقع اس کی یادداشت کے ناسور سے متعدد شکلوں میں رستا رہتا ہے۔
فضیلت اول میں نئے اور باصلاحیت ساتھیوں کے آجانے سے بڑی سخت کمپٹیشن تھی۔ میری تیسری پوزیشن آ گئی۔ میں بہت دلبرداشتہ تھا۔ ایک طرح سے انہزامی کیفیت کا شکار تھا۔مدینہ یونیورسٹی میں پڑھنے کی شدید خواہش تھی۔ اس وقت پورے ہندوستان سے مشکل سے بیس طلبہ کا داخلہ ہوتا تھا۔ میں کافی پریشان تھا۔ مولانا سے ذکر کیا تو بہت ہمت بندھائی۔ میرے نمبرات پوچھے۔ پھر سادس کے نمبرات پوچھے اور کہا: دیکھو آپ کے نمبرات گزشتہ سال سے بھی زیادہ ہیں، مگر آپ کے ساتھیوں کے نمبرات اور زیادہ ہیں۔ اس کا مطلب آپ اپنے ساتھیوں کی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکے۔اب اندازہ لگ گیا ہے۔ اس بار اسی انداز میں محنت کریں۔اس بات کی طرف میرا دھیان بالکل نہیں گیا تھا۔میں نے کوشش کی کہ کما حقہ محنت کروں۔ اللہ کے فضل، پھر مولانا کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے میں نے فضیلت ثانی میں پورے جامعہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ جب تک رزلٹ نہیں آیا تھا، بڑی بے چینی تھی۔ جن دنوں رزلٹ پر کام ہو رہا تھا ایک دن میں پہلی بلڈنگ میں داخل ہورہا تھا اور مولانا نکل رہے تھے۔ میں نے آپ کو سلام کیا پھر پوچھا شیخ رزلٹ کیسا ہے؟ مولانا نے چلتے چلتے یوں ہی سرسری انداز میں جواب دیا: “کل خیر یرجع إلیک” اور آگے بڑھ گئے۔
اللہ کا مزید فضل ہوا اور پہلے ہی مرحلہ میں مدینہ یونیورسٹی میں مجھے داخلہ بھی مل گیا۔ مولانا نے ادبی کتابوں سے جو دلچسپی اور رغبت پیدا کر دی تھی وہ سلسلہ یہاں بھی دراز رہا۔ جب باذوق ساتھیوں کی رفاقت نصیب ہوئی تو کرنل محمد خان کے ساتھ ساتھ مشتاق یوسفی ، قدرت اللہ شہاب اور دیگر مشہور مصنفین سمیت پڑوس کے ادبی ڈائجسٹوں تک پر دل کھول کر ہاتھ صاف کیے۔ الحمد للہ یہ سلسلہ کبھی کم کبھی زیادہ پی ایچ ڈی تک دراز رہا۔ کرنل محمد خان کی جن مزاحیہ تحریروں نے بہت ہنسایا وہ بدیسی مزاح کا مترجم مجموعہ تھا۔اس کے آخر میں کرنل محمد خان نے ایک دیسی مزاح خود لکھا تھا۔ واقعی وہ ایسی مزاحیہ تحریر ہے کہ اکیلے میں پڑھتے پڑھتے قہقہہ نکل جائے اور ساتھیوں کے ساتھ پڑھیں تو دم نکل جائے۔ ویسی شاندار مزاحیہ تحریر میں نے کبھی نہیں پڑھی۔ بلا شبہ پڑھنے کا یہ وہی سلسلہ تھا جس کی بنیاد مولانا نے جامعہ محمدیہ میں ڈالی تھی۔
جب بی اے کے پہلے سال میں تھا بوسینیا سے متعلق ایک عربی مضمون کا ترجمہ کیا، آپ کو بھیجا تو آپ نے اسے رد کردیا۔ چھٹیوں میں ملاقات ہوئی تو کہنے لگے ترجمہ اس طرح نہیں کیا جاتا ہے۔ پھر فن ترجمہ پر ایک مفصل درس دیا ۔اس کے اہم اصول بتائے۔ خلاصہ یہ کیا کہ ایسے مضامین ومقالات کا ترجمہ اس طرح ہونا چاہیے کہ پہلے آپ مضمون یا مقالہ پڑھ کر اسے ہضم کر لیں۔ پھر اسے اپنے الفاظ میں تحریر کریں۔ ایک ساتھ پورے مضمون کے ساتھ ایسا نہ کر سکیں تو ایک ایک فقرہ کے ساتھ ایسا ہی کریں۔ آخر میں باریک بینی سے مراجعہ کرکے یہ یقین کرلیں کہ کوئی اہم بات یا کوئی اہم فکر چھوٹ تو نہیں گئی ہے۔ ترجمہ ایسا ہو کہ ترجمہ کے بجائے مستقل تحریر لگے۔
مدینہ منورہ کی پوری زندگی میں آپ سے رابطہ رہا۔ جب بھی چھٹیوں میں گھر جاتا اکثر آپ سے ملاقات کرتا۔ آپ ہمیشہ تعلیم کے تئیں استفسار کرتے۔ رزلٹ کے بارے میں پوچھتے۔ حوصلہ افزائی کرتے۔ اچھا مشورہ دیتے۔ مدینہ منورہ میں ہوتا تو مختلف مناسبتوں سے خط لکھتے۔ آپ کے خطوط نصیحت سے پر ہوتے تھے۔ اصل مدعا دو چار سطر میں ہوتا باقی نصیحتیں ہوتیں۔ میری عادت تھی اپنے اساتذہ کرام کو وقتا فوقتا کال کرلیا کرتا تھا۔ آپ کو بھی خصوصی طور سے کال کرتا تو کبھی کبھی بات لمبی ہوجاتی۔ بسا اوقات کہتے: یار تم بہت لمبی بات کرتے ہو، کان دکھنے لگتا ہے۔
مدینہ منورہ سے واپسی ہوئی تو ایک بار پھر جامعہ محمدیہ آگیا۔ اس بار وہاں دو سال کا پڑاؤ رہا۔ اس دو سال کے قیام میں بھی آپ سے بہترین تعلق رہا۔ جو محبت وخیرخواہی آپ نےزمانہ طالب علمی میں دکھائی تھی، وہی اس مرحلہ میں بھی دکھائی۔ حساس سے حساس مسئلہ میں آپ سے بلا جھجھک مشورہ کرلیا کرتا تھا۔
آپ کی شخصیت کے عظمت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپ بھی کبھی کبھار مجھ سے مشورہ طلب کرتے۔ کوئی نئی کتاب لکھتے تو بسا اوقات اسے مراجعہ کے لیے بھی دیتے۔ وہ اس کے قطعا محتاج نہ تھے۔ مجھ سے بھی باصلاحیت اور تجربہ کار اساتذہ موجود تھے۔ یہ محض ان کی محبت اورحوصلہ افزائی تھی۔ تعلیم و تربیت کا ایک بہترین اسلوب تھا۔
مولانا کی عادت تھی کہ الدین النصیحہ اور ابراء للذمہ کے تحت بسا اوقات ذمہ داروں کو لکھ کر نصیحت کیا کرتے تھے۔ مشورے دیتے تھے۔ ایک دفعہ لفافہ میں بند ایک تحریر لے کر میرے گھر آئے۔کہا یہ کچھ مشورے اور نصیحتیں ہیں، فلاں ذمہ دار کو دینی ہیں، آپ کا کیا خیال ہے؟ اگر مناسب لگے تو پہنچا دیں۔ میں نے ان مشوروں کو پڑھا۔ ذرا غور کیا پھر کہا کہ سوچ کر بتاتا ہوں ۔ دوسرے دن مولانا نے استفسار کیا تو میں نے کہا آپ اسے میری ذمہ داری میں رکھ کر بھول جائیں۔ پھر ہماری بات ہوگی۔ تقریبا دو ہفتہ کے بعد میں نے مولانا سے کہا کہ آپ کے وہ مشورے مطلوبہ ذمہ دار تک پہنچا دوں؟ یا رہنے دوں؟ مولانا نے کہا رہنے دیں، نہ دیں۔ میں نے تقریبا ایک ہفتہ کے بعد پھر احتیاطا آپ سے دوبارہ پوچھا، آپ نے کہا ضائع کردیں، پھر میں نے اسے ضائع کردیا۔ چاہتا تو اسے پہلی فرصت میں منزل مقصود تک پہنچا دیتا۔ مگر “درء المفاسدأولى من جلب المصالح” کی رعایت کرکے رک گیا۔ میں قطعا نہیں چاہتا تھا کہ اس اخلاص کے بدلے آپ کو کوئی ضرر پہنچے۔ نہ ہی میری یہ خواہش تھی کہ جامعہ آپ کی خدمات سے دوبارہ محروم ہوجائے۔
مولانا نے بچوں کی تربیت کے کچھ نہایت اہم اور مفید اصول مرتب کیے تھے۔ ایک دن میرے پاس لے کر آئے، کہنے لگے اسے دیکھ لو، کچھ اصول ذہن میں ہوں تو اضافہ کردینا۔ میں نے کہا بھلا میں اس میں کیا اضافہ کر سکتا ہوں؟ بہت اصرار کرنے لگے اور تعاون سے جی چرانے کا طعنہ بھی دینے لگے تو میں نے حامی بھر لی ، کچھ اضافہ کیا تو پھر کچھ تبصرہ کرنے کو کہا۔ مجھے بہت شرم آئی۔ جب میں نے بڑی ہی شدت سے معذرت کی تو خاموش ہوگئے۔
استاذ مخلص ہو، طالب علم سے بے غرض محبت کرتا ہو، اس کا حقیقی خیرخواہ ہو، تو ایسی صورت میں استاذ صرف استاذ نہیں رہ جاتا، باپ کے درجہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ پھر وہ ایک باپ کی طرح اپنے تلامذہ کے چہروں اور ان کے پیچھے چھپے جذبات کو ایسے پڑھتا اور شرح وتحلیل کرتا ہے جیسے اپنے فن کی کسی کتاب کی دوران تدریس تشریح کرتا ہے۔ جامعہ محمدیہ میں تدریس کا کل دورانیہ تقریبا دو سال رہا۔ ان دو یعقوبی سالوں میں اللہ کے فضل وکرم اور اس کی خصوصی عنایت کے بعد جن لوگوں کا مجھےسہارا ملا، جنھوں نے کبھی حوصلہ نہ ہارنے اور ہر حال میں آگے بڑھنے کی تلقین کی ان میں آپ سر فہرست تھے۔
مولانا میری طبیعت اچھى طرح جانتے تھے۔ مجھے کبھی پریشان یا بے چین دیکھتے تو روک لیتے۔ بسااوقات چلتے چلتے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے، سمجھاتے، حوصلہ دیتے، ہمت بندھاتے۔ وہ اکثر مجھ سے کہتے: زندگی کہیں ختم نہیں ہوتی، نہ موت تک رکتی ہے۔ اسی کا نام زندگی ہے۔ ہر حال میں جیے جاؤ اور حوصلہ مت ہارو۔
ایک دفعہ مجھے بہت پریشان دیکھا تو اپنے گھر بلا لے گئے۔ دیر تک سمجھاتے اور حوصلہ دیتے رہے۔ آپ کی کچھ باتیں سن کر میری آنکھیں ٹپکنے لگیں۔ آنسو گرتا دیکھ کر کھڑے ہوگئے، شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا: میں تمھیں ایسا بالکل نہیں سمجھتا تھا۔ تم بہت کمزور ہوگئے ہو۔ اب پہلے والے وسیم نہیں رہے۔ پھر بہت سمجھایا۔ بہت ساری حوصلہ افزا باتیں کیں۔ کچھ اپنى زندگی کے نشیب وفراز سنائے۔ ہمت بندھائی اور دعائیں دیں۔
مولانا کی محبت کبھی ڈانٹنے اور سرزنش کرنے میں رکاوٹ نہیں بنی۔ وہ پیٹھ پیچھے غیبت کرنے اور عدم موجودگی میں دل کی کدورت نکالنے کے قائل نہیں تھے۔ اس مرحلہ میں بھی بسا اوقات ٹوکتے۔ اپنے اسی مخصوص لہجہ میں بقدر ضرورت سرزنش بھی کرتے۔ ایک سے زائد دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی چیز ناگوار لگی تو نہ صرف ٹوکا بلکہ اسی پیار بھرے اسلوب و انداز میں سرزنش بھی کی جیسے کبھی طالب علمی کے دور میں کیا کرتے تھے۔
اللہ کے فضل وکرم سے دو سال بعد میری تقرری حائل یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر ہوگئی۔ممبئی پہنچ کر آپ کو فون کیا تو پہلے تو شکایت کی کہ بنا بتائے اچانک کیوں چلے گئے، پھر ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ میری اس تقرری کو اپنے لیے باعث فخر واعتزازگردانا، پھر کہنے لگےکہ اب تم اپنى شایان شان جگہ پہنچ گئے ہو۔ اس چانس کو ضائع مت کرنا۔ بھرپور فائدہ اٹھانا۔ تدریس کے ساتھ ساتھ پڑھنے لکھنے کا عمل مسلسل جاری رکھنا۔
سعودی عرب آکر آپ سے رابطہ منقطع نہیں ہوا۔ تاہم کرونا کی وجہ سے کم ضرورہوگیا۔ کرونا کے بعد جب سالانہ چھٹی میں گھر گیا تو آپ کی علالت کی خبر ملی۔ مولانا بہت صحت مند تھے۔ یہ توقع کبھی نہیں تھی کہ آپ اتنی جلدی ہم سے رخصت ہو جائیں گے۔ 15 / اگست 2022م کی شام پونہ میں آپ سے آخری ملاقات ہوئی اور 2 – 3 اکتوبر 2022م کی درمیانی شب آپ ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔
مولانا مثبت فکر، مثبت سوچ اور مثبت عمل کے حامل تھے۔ آپ کی تعلیم وتربیت، آپ کی تدریس ودعوت, آپ کی طلبہ سے خیر خواہی ومحبت، آپ کے ہر حسن عمل کا نقطہ انطلاق یہی مثبت سوچ تھی۔ اسی کی برکت تھی کہ تعلیم وتربیت اور اصلاح ودعوت کے میدان میں پڑنے والا آپ کا ہر قدم اپنا نقش چھوڑ جاتا تھا۔ آپ کا دل ودماغ منفیت سے بہت دور اور سلبیت سے بعید تر تھا۔ آپ کے فکری نقوش کے بارز خطوط ایجابیت ہی کے لطیف اوزاروں سے عیاں کیے گئے تھے۔ آپ کی تحریریں، آپ کی تقریریں،آپ کی گفتگو سب پر یہ نقوش ایسے ظاہر وباہر تھے جیسے گیلی مٹی پر پڑنے والے بھاری بھرکم قدموں کے نشانات ۔ یہ نشانات ایسے پختہ اور انمٹ تھے جیسے عہد قدیم کےحجری نقوش۔
جامعہ محمدیہ ہی کی زندگی میں مولانا مجھ سے دھیرے دھیرے بہت بے تکلف ہوگئے تھے۔ اکیلے میں اکثر یار اور توں (غنہ کے ساتھ) کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ محبت سے لبریز یہ طرز تخاطب اور بے تکلفی سے مزین ان کا یہ اسلوب مجھے بہت بھاتا تھا۔ خطاب کا یہ اسلوب اس وقت تک باقی رہا جب تک میں طالب علم رہا۔ جب مدینہ منورہ سے فارغ ہوکر واپس جامعہ محمدیہ آگیا تو آپ کا یہ انداز بدل سا گیا۔ میں اس غیر مرغوب تبدیلی کو اچھی طرح محسوس کرتا۔ اب اکثر مولانا مجھے آپ یا یا ڈاکٹر صاحب کہہ کر بلانے لگے تھے۔ مجھے لگتا جیسے تعلقات میں ایک طرح کا تکلف در آیا ہو۔ تاہم جب کبھی موڈ میں ہوتے تو بے تکلفی میں پھر وہی توں، تم اور یار کہہ کر دل خوش کردیتے۔
مولانااب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ہم سے جدا ہو کر بہت دور چلےگئے۔ مگر آپ کا وہ مسکراتا روشن چہرہ نگاہوں میں گھومتا، توں تم اور یار کا پیار بھرا وہ طرز تخاطب کانوں میں گونجتا رہے گا۔
اللہ تعالى مولانا کی مغفرت کرے۔ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرتا رہے۔ انھیں بلا حساب وعذاب جنت الفردوس میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت عطا کرے۔ آمین!
*****************
نوٹ: یہ مضمون مولانا پر لکھی گئی میری مفصل تحریر “سراغ زندگی” کا ایک ٹکڑا ہے۔
آپ کے تبصرے