ہر ایک گتھی سلجھ جو جائے تو نیند آئے

عبدالکریم شاد شعروسخن

مقام بدلیں غموں کے سائے تو نیند آئے

کوئی ردائے سکوں اڑھائے تو نیند آئے


یہ بارِ ہستی، یہ ناتوانی، یہ فکرِ فردا

کوئی مرا سر جو تھپ تھپائے تو نیند آئے


بھری ہے تاروں سے رات لیکن کمی ہے کوئی

وہ چاند اپنی جھلک دکھائے تو نیند آئے


گزرتے رہتے ہیں میری آنکھوں سے خواب کتنے

کسی سے رشتہ قرار پائے تو نیند آئے


خلل کی زد میں ہوں اس کے گریے سے رات بھر مَیں

کوئی جو بستر کو چپ کرائے تو نیند آئے


کبھی تو چھت مجھ سے اپنی غم گیں نظر ہٹائے

کبھی یہ دیوار مسکرائے تو نیند آئے


کئی سوالوں نے میری نیندیں اڑا رکھیں ہیں

تمھارا کوئی جواب آئے تو نیند آئے


دماغ و دل میں چھڑی ہوئی ہیں ہزار بحثیں

ہر ایک گتھی سلجھ جو جائے تو نیند آئے


جگائے رکھتی ہے تیرے آنے کی آس مجھ کو

اب آس ٹوٹے کہ موت آئے تو نیند آئے


بدلتے رہتے ہیں کروٹیں ہم ہزار لیکن

دِوانہ دل کچھ قرار پائے تو نیند آئے


وہ جس کے پہلو کی یاد آتی ہے شام ڈھلتے

خیال اس کی طرف نہ جائے تو نیند آئے


وہ روشنی ہے کہ آنکھ میں تیر چبھ رہے ہیں

چراغِ ماضی کوئی بجھائے تو نیند آئے


یہ کیا خموشی نے شور برپا کیا ہوا ہے

جو شاد اپنی غزل سنائے تو نیند آئے

آپ کے تبصرے

3000