مولانا عبدالسلام مدنی

استاذِ گرامی کی یاد میں

صلاح الدین مقبول احمد مدنی شعروسخن

استاذِ گرامی شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام مدنی رحمہ اللہ کی یاد میں
(1944-2018)

محفلِ ہستی میں کس بندے کو حاصل ہے دوام

کوئی ادنی سا ہو، یا اس کا ہو اعلی تر مقام

روز مرہ ہے یہی سب کو پیامِ صبح و شام

حکم کی تعمیل میں آگے ہوئے ’’عبدالسلام‘‘

کیسے کیسے گل کھلائے ہیں یہ صبح و شام نے

کتنے محبوبوں کو چھینا گردش ایام نے

*
فائدہ ہرگز نہیں کچھ نالۂ و فریاد میں

کارنامے ثبت ان کے علم کی روداد میں

ابتدا سے آخری دم تک رہے افتاد میں

خوبیاں کتنی نہاں تھیں حضرتِ استاد میں

چشم پرنم، دل ہے افسردہ، قضا پر شاد ہیں

چل بسے ، پَر ان کے سارے کارنامے یاد ہیں

*
تربیت تعلیم میں ہیں اب کہاں سوز و گداز

زندگی بھر وہ رہے علم و عمل سے سرفراز

تھے وہ مصروف عمل، نا آشنائے سازباز

جہد پیہم میں ہی پنہاں سرفرازی کا ہے راز

بحث اور تحقیق میں ان کی تگ و تازی رہی

اور تنقیحِ مسائل میں بھی شہہ بازی رہی

*
مسئلوں میں کتنے تھے جو ان سے لڑ جاتے رہے

اپنی منوانے کو بھی ان سے اکڑ جاتے رہے

ہر طرح سے موشگافی میں بھی پڑ جاتے رہے

وہ نہ ہٹتے اپنے موقف سے جو اَڑ جاتے رہے

اپنی تحقیق مسائل پہ تھا ان کو اعتماد

اور اس موقف پہ دنیا کو کیا ہے خیر باد

*
ان کی تقریرں مدلل ان کی تحریروں میں دم

قید کر لیتا نکاتِ درس کو ان کا قلم

یہ وہ خوبی تھی نہیں تھی دوسرے کو جو بہم

ان کے اس طرز عمل پر شاداں و فرحاں ہیں ہم

شرح مشکاۃؔ و نسائیؔ ہیں اسی کی یادگار

سعیِ پیہم کی ہوا کرتی ہیں ایسی شاہ کار

*
اہل علم و فضل کی ہر وقت ہم راہی رہی

کوئی گمراہی رہی نہ کوئی بدخواہی رہی

زندگانی کے اصولوں سے بھی آگاہی رہی

مملکت اپنی تھی اور اپنی شہنشاہی رہی

علم و حکمت کے قریں ان کی سبھی اولاد ہیں

باہمہ شیر و شکر اور باہمہ فولاد ہیں

*
خوبیاں تھیں ان میں جو ہوتی ہیں اک انسان میں

زندگی گزری ہے علم و فضل کے ایوانؔ میں

نامِ مصلحؔ درج ہے استاد کے دیوانؔ میں

فرق کچھ آیا نہیں استادیت کی شان میں

آخری دم تک نہیں جانے دیا اپنا وقار

الوداع کہتے ہوئے ہم سب ہیں ان کو سوگوار

*
اب کہاں وہ سوز و ساز فرد میں تیزی رہی

حکمت و قول و عمل میں سحر انگیزی رہی

تربیت اور خیرخواہی کی نواخیزی رہی

رحم بھی رخصت ہوا ، باقی جو چنگیزی رہی

علم و حکمت گر نہ ہوں تو ہوں گی یہ گمراہیاں

ظلم و خونریزی کی ہر سو ہوں گی سب پرچھائیاں

*
اس جہانِ بے وفا سے دیر تک کس کی بنی

سب فنا کی زد میں ہر دم ہیں بجز ربِّ غنی

موت کے آغوش میں دیکھا، تھا مرد آہنی

مصلحؔ خستہ جگر حاضر تھا وقت جاں کنی

“ہے اسی قانون عالم گیر کا یہ سب اثر

بوئے گُل کا باغ سے گُل چیں کا دنیا سے سفر”

*
ابتدائے زندگی وہ ، یہ ہے انجامِ حیات

ہے نشانے پر ہمیشہ موت کے یہ کائنات

رونما ہوتے رہے، ہوتے رہیں گے حادثات

ہیں یہی دنیائے دوں کے روز مرہ واقعات

حضرت استاذ پر اللہ آسانی کرے

“آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے”

*

صلاح الدین مقبول احمد مصلح نوشہروی
18جولائی 2018

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالغفار سلفی

شعری قالب میں استاذ محترم کی زندگی اور ان کے محاسن بہت بہترین نقشہ کھینچا ہے شیخ صلاح نے، اللہ جزائے خیر دے