رفیق گرامی مولانا عبدالوہاب خلجی کی یاد میں

رفیق گرامی مولانا عبدالوہاب خلجی رحمہ اللہ کی یاد میں

صلاح الدین مقبول احمد مدنی شعروسخن

رفیق گرامی مولانا عبدالوہاب خلجی رحمہ اللہ کی یاد میں
(۱۹۵۴۔۲۰۱۸ء)
(سابق ناظم اعلی مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند, رکن مجلس مشاورت، رکن مجلس شوری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ, نائب صدر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا)

(۱)

تھا اس کے پہلو میں ملت کا اک دلِ بے تاب

تعلقات کے ملحوظ تھے اسے آداب

وہ اپنے طور و طریقے میں بھی رہا نایاب

یہی تھا مردِ مثالی وہ بندۂ وہّاب

وہ شخصیت جو کسی کے ہلائے ہل نہ سکی

بہت تلاش کی اس کی مثال مل نہ سکی

(۲)

وہ آرزوئیں کہ دل پاش پاش کرتی ہیں

عجیب آنکھیں ہیں بحث و نقاش کرتی ہیں

وہ لوٹ آئیں ذرا کاش کاش کرتی ہیں

جو مل نہ پائے اسی کو تلاش کرتی ہیں

زباں ہے گنگ اِدھر، دل اُدھر ہے افسردہ

رضائے رب سے رضامند ، گو ہیں پژمردہ

(۳)

عجیب نازِ جماعت تھا نازِ جمعیت

ہر ایک سمت مسلّم تھی اس کی حیثیت

تھی اس کے ذہن میں تازہ سلف کی خیریّت

نگار خانہ ہستی کی کیا اہمِّیَّت

ہمیں تو چھوڑ کے تنہا چلا گیا لیکن

کریں گے کیا کہاں کب گُن بتا گیا لیکن

(۴)

جہاں رہا وہ رہا بن کے زینت محفل

وہ مجلسوں میں نہ دیکھا گیا کبھی بے دل

رواں دواں رہا ہر وقت رہ روِ منزل

سفر کی تاک میں ہر ایک دم رہا محمل

نشست ان کی مجالس میں پُر رہی ہردم

یہ ان کا شوقِ فراواں، یہ ان کا تھا دم خم

(۵)

ہر ایک بزم سے ان کی رہی وفاداری

مفادِ ملت بیضا میں تھی رواداری

ہمیشہ پا بہ رکابی سفر کی تیاری

نہ آڑے آئی سفر میں کبھی بھی بیماری

وہ اپنی طرز کا تھا جوہرِ گراں مایہ

جیا وہ بن کے بھی ملت کا ایک سرمایہ

(۶)

تھا مردِ حق وہ جماعت کے سورماؤں میں

پھرا وہ شہر میں بستی میں گاؤں گاؤں میں

رہا وہ ملک کے، ملت کے آشناؤں میں

شمار ہے صفِ اول کے رہنماؤں میں

ہے کون آج جو ملت کا ساتھ دے پائے

اب اس قماش کا کوئی ذرا نظر آئے

(۷)

زبان زد ہے جماعت میں رہبری اس کی

ہر ایک بزم میں شامل تھی ممبری اس کی

فلک نے دیکھا ہے مجلس میں برتری اس کی

روش تھی حق کے لیے بزم میں جری اس کی

وقار اس کا جماعات میں تھا پائندہ

وہ مجلسوں میں جماعت کا تھا نمائندہ

(۸)

صدائے ہمت و جرأت سلفؔ کی بے باکی

زوالِ فکر و عقیدہ سے تھی غضب ناکی

دفاعِ حق میں تھا شعلہ یہ بندۂ خاکی

ادائے فرض میں اس کو نہ آئی چالاکی

قرین علم و ہنر بھی قرینِ شکر و سپاس

رہا ہے بزم کو اس کے وجود کا احساس

(۹)

وسیع اس کے بہرسو تعلقات رہے

جہاں بھی جیسے بھی ملت کے واردات رہے

اِدھر اُدھر کے ہمیشہ جو حادثات رہے

وہ ان کے حل کے لیے مضطرب صفات رہے

اب ایسے کام کو بندہ کوئی کہاں خالی؟

بنی ہے خیر سگالی بھی ایک دلّالی

(۱۰)

سفر حضر میں بھی صحبت رہی رفاقت بھی

قریب و دور سے دیکھی ہے وہ لیاقت بھی

تھی آتی ان کو تمدن بھی اور سیاست بھی

وہ تاڑ لیتے سدا وقت کی نزاکت بھی

شریک رہتے وہ ملت کے سارے کاموں میں

وہ نامِ نامی گرامی بہت سے ناموں میں

(۱۱)

وقار و حلم و شکیب و عمل میں سنجیدہ

شعارِ مسلکِ اسلاف کا تھا گرویدہ

تعلقات میں اپنوں کا تھا پسندیدہ

اگر رہا بھی تو اپنوں سے ہی تھا رنجیدہ

معاصرت کے نشانے پہ بندۂ آہن

کبھی نہ چھوڑا ہے صبر و شکیب کا دامن

(۱۲)

وہ جوہروں میں تھا اک جوہرِ گراں مایہ

اٹھا جماعتِ اہل حدیث کا سایہ

جیا وہ بن کے بھی ملت کا ایک سرمایہ

نظر میں ہے نہیں اب اس کا کوئی ہم پایہ

وہ اپنے وقت کا سالارِ کارواں نہ رہا

رواں دوواں جو تھا وہ اب رواں دواں نہ رہا

(۱۳)

ہے گزری عمر جماعت کی رہ نمائی میں

دفاعِ حق میں بھی، الزام کی صفائی میں

رہے کبھی نہیں باطل کی ہم نوائی میں

یہ مندرج ہے جماعت کی کاروائی میں

سلف کی، بزم میں، وہ یادگار ہوتا تھا

سپر وہ بنتا جو مسلک پہ وار ہوتا تھا

(۱۴)

مفادِ مسلک و ملت میں دور بینی تھی

ہنروروں سے ملاقات و خوشہ چینی تھی

بہت سے شاہوں، وزیروں سے ہم نشینی تھی

مگر جو طرز تھی ان کی وہ خود زمینی تھی

تکلفاتِ زمانہ سے یوں تو خالی تھا

وہ اپنے مسلک و منہج میں پر مثالی تھا

(۱۵)

شعور نظم جماعت شعور تنظیمی

امور دعوت دینی، امور تعلیمی

ہو تربیت میں جو فرزندیِ براہیمی

رضائے رب دوعالم بہ طرز تسلیمی

شعور ان کا تھا بیدار تربیت کے لیے

مرا قلم ہے گہربار تہنیت کے لیے

(۱۶)

ہے باقی صحن جماعت میں ان کی گل کاری

ابھی تلک ہیں کئی ان کی سنتیں جاری

انہی کی پود تھا یہ جذبۂ رواداری

الٰہا! کر تو جماعت پہ پھر ضیاباری

پیامِ حق جو کوئی آکے اس سے سُن جائے

جو جائے لوٹ کے تو پھر اسی کا گُن گائے

(۱۷)

رہا بلند جماعت میں حوصلہ ان کا

صداقتوں پہ تھا مبنی معاملہ ان کا

جماعتوں سے برابر مبادلہ ان کا

نہیں کسی سے ہے کوئی مقابلہ ان کا

تھی بود و باش و ملاقات میں شہنشاہی

تھی گفتگو میں وہی لذت و خود آگاہی

(۱۸)

کسی جماعت و منہج کی جو ہو سالاری

رضا و صبر و قناعت بھی ، ہو رواداری

اصول و نظم و قوانین سے وفاداری

نہیں ہے زیبا کسی کا بنے ’’کرم چاری‘‘

وظیفہ خوار کسی کا ہو کب گوارہ تھا

عجیب غیرتِ خلجیؔ کا یہ اشارہ تھا

(۱۹)

تھا جیسا ویسے ابھی تک ہے ان کا کاشانہ

عجب قناعت و صبر و رضا کا پیمانہ

جسے ہو شوق یا کوئی ہو ایسا دیوانہ

وہ جاکے دیکھے فقیروں کی شانِ شاہانہ

خودی کا علم بخوبی ہے ہم نشینوں کو

کوئی بتا دے جماعت کے آب گینوں کو

(۲۰)

بہت سی باتوں کو سب خیر باد کرتے ہیں

حقیقتوں پہ خوشی سے وہ صاد کرتے ہیں

یہ وصف جان کے سب دل کو شاد کرتے ہیں

دعائے خیر میں خلجیؔ کو یاد کرتے ہیں

فتن کے دور میں ایسی جو سروری کی ہے

وہ اپنے بندے کی خالق نے یاوری کی ہے

(۲۱)

صحت کا دور تھا یا تھی مرض کی بے حالی

کسی بھی حال میں آئی نہ ان کو نقالی

کوئی بھی وقت نہ ان کا رہا کبھی خالی

اسی عمل میں رہی پیری و جواں سالی

حیات و روح کی بندش تھی عارضی گزری

مگر جو گزری وہ بھرپور زندگی گزری

(۲۲)

اجڑ گئے تھے وہ باغ و بہار یارائی

نہیں رہے، رہی مجلس کی جن سے زیبائی

بغیر حلقۂ یاراں کہاں کی رعنائی

کسی سے رہ نہ گئی گویا جب شناسائی

ہمارے کندھوں پہ اپنا بھی بار چھوڑا ہے

اور اک جہان کو بھی سوگوار چھوڑا ہے

(۲۳)

عیال و اہل کو مشکل میں پرسکوں دیکھا

شکیب و صبر و قناعت کو بھی فزوں دیکھا

غموں کو سامنے ان سب کے سرنگوں دیکھا

مگر محبت والد میں اک جنوں دیکھا

سبھوں کی حاضری کچھ ایسی تربیت کی ہے

کبھی جو ان کی عیادت کی ، تعزیت کی ہے

(۲۴)

مرض کے بعد تھا بندے کا بس یہی دستور

دعا و ذکر و وظائف سے دل رہا معمور

وہ قیل و قال زمانہ سے گور رہے رنجور

مگر وہ زہد و عبادت میں ہوگئے مشہور

مرض بھی آیا تو آداب بندگی لایا

دعا و ذکر و عبادت کی زندگی لایا

(۲۵)

سجیں گی اب کہاں دنیا میں بزم کی راتیں

سنیں گے ہم کہاں اب قسم قسم کی باتیں

نہ ہوں گی اب کہیں ان سے یہاں ملاقاتیں

لگی ہیں رستوں پہ اپنے بھی موت کی گھاتیں

فنا کے بعد تو جنت کی جستجو بھی ہے

یہی دعا یہی امید و آرزو بھی ہے

(۲۶)

الٰہا! حشر میں خلجیؔ کی ہو نگہ بانی

ترے حضور ہے حاضر یہ بندۂ فانی

قدم قدم پہ ہو تیری طرف سے آسانی

ترے کرم سے ہو خلدِ بریں میں مہمانی

ترے خزانۂ رحمت میں کچھ کمی کیا ہے

ہے بندہ در پہ ترے آج برہمی کیا ہے

(۲۷)

خطائیں ہیں تو ادھر باب عفو بھی وا ہے

قبول توبہ کا وعدہ غفور ہی کا ہے

یہ بندہ بندہ ہے رب کا اسے دلاسا ہے

شعارِ بندہ و رب یہ ہمیں بتاتا ہے

شعورِ حشر سے بڑھتی ہے جتنی بے تابی

ہے اس سے بڑھ کے کہیں زیادہ رب کی توابی

(۲۸)

نہ کام آئے گی بندے کو قبر کی تختی

نہ جھیل پائے گی دولت ہی حشر کی سختی

مدد میں ہوگی تو بس لاالہ کی یک لختی

یہی ہے مردِ مسلماں کا راز خوش بختی

سلف کی طرز کا داعی تھا نام نامی تھا

بنائے سنت و توحید میں مقامی تھا

(۲۹)

سمجھ میں آہی گیا آج رازِ سربستہ

تھا ان کا طور و طریقہ سلف سے وابستہ

یہ راستہ جو ہے جنت کا ہی تو ہے رستہ

رحیم رب سے طلب گار مصلحِؔ خستہ

الٰہی راہ میں رحمت کی کاروائی ہو

سفر میں منزل مقصود تک رسائی ہو

صلاح الدین مقبول احمد مصلحؔ نوشہروی

آپ کے تبصرے

3000