چاند رات آئی، خوشی کا لائی یہ پیغام ہے
جگمگائے بام و در، خوشیوں کا جلوہ عام ہے
میری خاطر غم کی تاریکی میں ڈوبی شام ہے
کم ہی ہوتے، پے بہ پے گر آتے مجھ پر حادثات
ہے قیامت، ناگہانی میرے ابو کی وفات
پھر مزید اس پر ستم، یہ رات بھی ہے چاند رات
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، دل نہیں کرتا یقیں
میرے ابو سو رہے ہیں، ان کا یہ لاشا نہیں
آنکھ کھولیں گے ابھی، چومیں گے وہ میری جبیں
میں تو ابو کے لیے تحفہ سجا کے لایا تھا
میرا دل قدموں سے پہلے گھر کو بڑھتا جاتا تھا
کیا خبر تھی، منظر ایسا آنکھوں میں بھر جانا تھا
ہاتھ میں لرزا ہوا، تحفہ زمیں پر گر پڑا
اشک جاری ہوگئے، ماضی کا منظر تھا کھڑا
اپنے بچپن سے تھا مجھ کو ناز ابو پر بڑا
ابو کا وہ عیدی دینا خوش وہ ہوجانا مرا
دوستوں کو عیدی دکھلا کر وہ اترانا مرا
بچپنے سے پھر لڑکپن تک پہنچ جانا مرا
تھوڑی سی عیدی سے اب مجھ کو تسلی تھی کہاں
بڑھ گئیں فرمائشیں، بڑھ بڑھ گئیں بے باکیاں
کب یہ سوچا، کس طرح ابو کھپاکر جسم و جاں
دھوپ میں جھلساکے خود کو، خواب اپنے بیچ کر
کچھ کماکر لوٹتے ہیں تب کہیں واپس وہ گھر
تب گزرتے ہیں خوشی سے اپنے یہ شام و سحر
وقت گزرا، رفتہ رفتہ عقل کے تالے کھلے
جب پسینے میں نہا دھوکر کمائے دو ٹکے
تب سمجھ آیا کماتے کیسے تھے ابو مرے
یہ کمانا تو نہیں ہے، خون دل کی ہے کشید
سو تہیہ کرلیا اس بار جو آئے گی عید
پیش ابو کو کروں گا میں کوئی تحفہ فرید
لیکن اب آئی جو عید ابو کی جاں ہی لے گئی
بھر نہیں سکتا کبھی، وہ زخم دل کو دے گئی
گھر ہے ویراں، گھر کی رونق، ہائے رے! گھر سے گئی
میرے ابو، کیا ہلال عید، کیا اس کی ہے دید
آپ ہی کی دید سے ہے عید، فرحت کی نوید
آپ ہی ہیں میری عیدی آپ ہی ہیں میری عید
آپ کے تبصرے