اور ہے ترک وفا اور وفا اور ہی ہے

حمود حسن فضل حق مبارکپوری شعروسخن

حسن کچھ اور ہے عاشق کی ادا اور ہی ہے

اور ہے ترک وفا اور وفا اور ہی ہے


پہلے آیا نہ رفو کاری وحشت کا خیال

اب تو تن پر دل وحشی کے قبا اور ہی ہے


ظلم کرتے ہوئے دنیا میں نہ شرماتے تھے

آج محشر میں تغافل کی ادا اور ہی ہے


پا بہ زنجیر ہیں عشاق بہ صد شوق و جنوں

کنج زندان میں چھن چھن کی صدا اور ہی ہے


ان کو شکوہ تھا سو لب سی لیے طوعا ہم نے

بول اٹھے ہیں تو پھر حشر بپا اور ہی ہے


اب نہ رکھنا کوئی امید ہمارے دل سے

پھول ہوتا تھا وہ یہ سنگ نما اور ہی ہے


شمع کو چھوڑ کے پروانے کہاں جاتے ہیں

ہست اسباب بقا پر بھی فنا اور ہی ہے


کچھ غنیمت تھے وہ جب تک نہ ملے تھے ہم سے

سادگی دیکھ لی، اب طرز جفا اور ہی ہے


غم کہ پاداش محبت میں نکھرتا ہی رہا

جرم تنہائئ ہجراں کی سزا اور ہی ہے


داغ فرقت کے جلو خانے میں تنہا تنہا

دھن پہ آہوں کی قضا نغمہ سرا اور ہی ہے


شعلۂ دل سے پرے سوز دروں سے آگے

تیرا سایہ ترے ہونے کا پتا اور ہی ہے


یوں تو ہر آہ پہ ہے ناخن ہو کا پہرہ

ماتم ہجر میں دل نالہ رسا اور ہی ہے


میرے ہاتھوں میں حسن رہتی ہے خوں کی سرخی

اچھی قسمت سے لکیروں کو حیا اور ہی ہے

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
محمد عمر سلفی حیدرآباد

ماشاءاللہ بہت خوب