تحریر: سوربھ باجپئی
ترجمہ: ایم ۔ای انصاری
‘ہندوتو دہشت گردی’ لفظ سنتے ہی ہندوؤں کے کان کھڑے ہوجانے چاہئے۔ گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے سناتن سنستھا کے جن کارکنوں کے پاس سے آٹھ زندہ بم اور بم بنانے کے سبھی سازوسامان پکڑے ہیں، وہ ہندوؤں کے لیے ایک اور انتباہ ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے جب ‘ہندوتو دہشت گردی’ کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ شہید ہیمنت کرکرے نے پہلی بار 2008 کے مالیگاؤں دھماکے کی جانچ پڑتال کے دوران ہی یہ پہچان لیا تھا کہ ان وسفوٹوں کے پیچھے مسلمان نہیں بلکہ ہندو دہشت گردوں کا ہاتھ ہے۔ کرکرے نے اس جرأت کے لیے ایک بڑی قیمت ادا کی تھی۔ ممبئی حملوں میں ان کی شہادت کے باوجود، نہ صرف ان کے خلاف بلکہ ان کی بیوی کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر بہت زیادہ زہر اگلا گیا تھا۔
2010 میں اس وقت کے وزیر داخلہ پی چدمبرم نے دہشت گرد دراندازی کے ساتھ ساتھ “بھگوا دہشت گردی” سے بھی محتاط رہنے کی ہدایت دی تو سیاسی حلقوں میں بھونچال سا آ گیا تھا۔ یہ اعتراض درج کرایا گیا تھا کہ یہ ‘لبرل اور پرامن ہندو مذہب’ کوبدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔
ظاہر ہے، سب سے تلخ اعتراض بی جے پی کی طرف سے آیا، جو ہندوتو سیاسی منصوبے کی انتخابی ونگ ہے۔ آر ایس ایس-بی جے پی ہندوؤں سے بھی یہ چھپانا چاہتے ہیں کہ وہ ملک میں ممکنہ دہشت گردوں کی ایک کھیپ تیار کررہے ہیں۔
لیکن اس طرح کے واقعات میں ان کی رضامندی اس بات سے پتہ چلتی ہے کہ 2014 میں حکومت بنتے ہی نہ صرف اندریش کمار جیسے لوگوں کو انتہائی طاقتور بنا دیا گیا بلکہ اسیمانند، پرگیہ سنگھ اور سری کانت پروہت جیسے لوگوں کے خلاف ثبوت مٹا کر ، انھیں جیل سے باہر بھی نکالا گیا۔
تاہم ‘ہندوتو دہشت گردی’ کو “بھگوا دہشت گردی” کے نام سے پکارنا الفاظ کی غلط انتخاب کی ایک مثال تھی۔ سیاسی اصطلاحات میں ‘سلیکشن آف ٹرم’ یعنی اصطلاح کا انتخاب، سمجھداری کا پیمانہ مانا جاتا ہے۔ ہندو فرقہ واریت کو ‘بھگوا’ کہہ کراس کی کھِلی اڑانا انجانے طور پر فرقہ واریت کے پروپیگنڈے کو اور مضبوط بناتا ہے۔
ہندو فرقہ واریت کا نظریہ ہندؤں کے دل میں یہ خوف بٹھاتا ہے کہ باقی تمام _ مسلم، عیسائی، کانگریسی، بائیں بازو اور سیکولر دانشوران _ مل کر ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ ہندوتو دہشت گردی کوبھگوا دہشت گردی کہنے سے ہندؤوں کے من میں اس کے خلاف کوئی جذبہ نہیں پیدا ہوتا۔
عام مذہبی ہندو چاہے وہ فرقہ واریت کے اثرات میں ہو یا نہیں- کے لیے کسی بھی چیز کا بھگوا کرن فوری مذمت کا موضوع نہیں ہوسکتا۔ اس کی اپنی مذہبی عقیدے سے جڑی تمام چیزیں جیسے افسانوی رشی منی اور دیوی دیوتاؤں کے کپڑے سے لے کر رام چرتمانس کو محفوظ کرنے والے کپڑے تک کا رنگ عام طور پربھگوا ہوتا ہے۔ رام کی سمرتی اور خود رام کا لباس بھی بھگوا ہوتا ہے۔ اس طرح بھگوا رنگ بنیادی طور پر ایک عام ہندو کے مذہبی شعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ غرض یہ کہ بھگوا رنگ پر اعتراض کرکے ہم لوگوں کو فرقہ واریت کے معنی نہیں سمجھا سکتے۔
الفاظ کےسٹیک انتخاب کے ذریعے، مشکل سے مشکل بات لوگوں کو آسانی سے سمجھائی جا سکتی ہے،اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ جیسے این ڈی اے(اول) کے دوران تعلیم کی فرقہ واریت کی وضاحت کے لیے ویر سنگھوی نے ایک درست لفظ ایجاد کیا، وہ لفظ تھا- تعلیم کا طالبانی کرن۔
یہ فرقہ وارانہ منصوبے پر درست چوٹ تھی۔ اس نے ایک تیر سے دو نشانے سادھے۔ یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں طالبان دہشت گرد اسلام کی ‘شہرت’ اور شریعت قانون لاگو کرنے کے لیے لوگوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھا رہے تھے۔ دنیا بھر میں طالبانی بنیاد پرستی کی شدیدمذمت کی جارہی تھی۔ کہا جا رہا تھا کہ اسلام کے بھلے کے نام پر طالبان کی طرف سے جو بھی کیا جا رہا ہے، اس کا سب سے زیادہ خمیازہ خود اسلام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
اسکولی نصابی کتابوں کا فرقہ وارانہ رنگ میں رنگنے کو ‘طالبانی کرن’ کہنے کا صاف مطلب تھا کہ طالبانی کرن ایک کٹر وادی رجحان ہے جو کسی بھی مذہب کے اندر پنپ سکتی ہے۔ اور یہ بھی کہ آر ایس ایس- بھاجپا بظاہر کتنے ہی طالبان مخالف کیوں نہ لگتے ہوں، اصل میں دونوں ایک ہی طرح کے مذہبی بنیاد پرستی کے پجاری ہیں اورسب سے بڑھ کر یہ کہ ہندو مذہب اور ہندوؤں کے بھلے کے نام پر جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے، اس کا سب سے زیادہ نقصان دراصل خود ہندومت کو ہوگا۔
حقیقت میں، کسی بھی قسم کا نظریہ لوگوں کے رضامندی کے بغیر طویل عرصہ تک ٹِک نہیں سکتا۔ فرقہ پرست اور بنیاد پرست عناصر لوگوں کی ہمدردی بٹورنے اور ان سے جڑنےکے لیے ایک خاص مذہب کی مقدس علامات کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں، وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا مقصد ہندودھرم کی بھلائی اور اس کی فوقیت کو ثابت کرنا ہے۔
سناتن سنستھا، ابھینو بھارت یا آر ایس ایس کی فروعی تنظیمیں جس طرح بھگوا کا استعمال کرتے ہیں، وہ ویسا ہی ہے جیسے حافظ سعید مولانا کا بھیس دھارن كر لوگوں کو مذہب کے نام پر ٹھگنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لوگ بھگوا یا سبز دہشت گرد ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ دہشت گرد ہیں جو کہ بھگوا یا سبز کو اپنے فرقہ پرستانہ اور دہشت گردانہ ایجنڈےکے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
ڈی آر گویل جو آر ایس ایس پر لکھی گئی سب سے زیادہ مستند کتاب “آر ایس ایس” کے نامور مصنف ہیں، “ہندو دہشت گردی” کی اصطلاح سے متفق نہیں تھے،وہ اسےدہشت گردی کی سرگرمیوں میں کچھ ہندووں کی شمولیت کایونیور سلائزیشن مانتے تھے۔ ان کے مطابق اسے “ہندوتو دہشت گردی” کہنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ ہندو ایک مذہب کا نام ہے، جبکہ ‘ہندوتو’ ہندو مذہب کا سہارا لینے والے فرقہ وارانہ تصور کا مظہر ہے۔
یہی بات ان دہشت گردوں پر بھی لاگو ہوتی ہے، جو اسلام کا نام لے کر اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ یہ بہتر ہے کہ انھیں اسلامی دہشت گرد کے بجائے اسلامسٹ دہشت گرد بلایا جائے۔ اسلامسٹ کہنے سے یہ واضح ہے کہ اسلام کا نام استعمال کیا جا رہا ہے، جب کہ اسلامی دہشت گردی کہنے سے ایسا لگتا ہے یہ اسلام کا فطری رجحان ہے۔
ٹھیک اسی طرح نامور مؤرخ بپن چندر، مردلا مکھرجی، آدتیہ مکھرجی اور سچیتا مہاجن اپنی کتاب ‘آر ایس ایس، اسکولی نصابی کتابیں اور مہاتما گاندھی کا قتل ‘ میں یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ آر ایس ایس کو “سنگھ پریوار” کہنے کی بجائے “سنگھ گٹھ جوڑ” کہنا زیادہ صحیح ہو گا۔ کیونکہ’ پریوار’ایک معزز سماجی یونٹ ہے اور ‘سنگھ گٹھ جوڑ’ کو ‘سنگھ پریوار’ کہنا آر ایس ایس کو قانونی جواز فراہم کرنا ہے۔
بہر حال، سناتن سنستھا کے ‘ویبھو راوت’ کےپکڑے جاتے ہی سنستھا نے اپنے آپ کو اس سے الگ کر لیا ہے۔ ایک سرکاری بیان میں سنستھا نے کہا ہے کہ ‘ویبھو راوت’ سنستھا کارکن نہیں بلکہ سنستھا کے ایک رکن کا ساتھی ہے۔ لیکن دوسری طرف، یہی سناتن سنستھا ‘ویبھو راوت’ کا مقدمہ لڑنے کی تیاری بھی کر رہی ہے۔ یاد رہے یہ وہی سناتن سنستھا ہے جسے گوری لنکیش، گووند پنسارے، نریندر دابھولكر اور ایم ایم كلبرگی کی ہلاکتوں کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔
بہت سے ہندوؤں کے لیے یہ قبول کرنا مشکل ہے کہ ان کے بیچ سے دہشت گرد پیدا ہورہے ہیں۔نفرت اور تشدد – یہ دو چیزیں مل کر دہشت گردی کو جنم دیتی ہیں۔ جب یہ دونوں مل کر کسی ایک نظریے کی بنیاد رکھتے ہیں تو دہشت گردی کا کوئی خاص ازم پیدا ہوجاتا ہے۔ لوگوں کو اپنے سے جوڑنے کے لیےاکثر ایسے ازم مذہب کا سہارا لیتے ہیں ۔ مذہب کا یہ سہارا اسلامک بھی ہوسکتا ہے، سکھ بھی اور ہندو بھی۔
یعنی دہشت گردی کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ جو مذہبی برادری اپنے اندر سے ابھرنے والے کٹر واد کو مؤثر طریقے سے روک نہیں پاتی، دہشت گردی کی طرف پھسل جاتی ہے۔ ایسے ممالک جہاں مسلمانوں کے درمیان اسلامسٹ دہشت گردی مضبوط ہوئی،وہاں اعتدال پسند طبقوں نے تاریخی طور پر اپنی ناکامی قبول کی ہے۔
اسلام کے انسانیت نواز احکام اور رواداری کی روایات کو کچل کر ہی اسلامسٹ کٹر پرستی کامیاب ہوئی ہے۔لہذا، اگر کوئی کہے کہ ہندوؤں میں دہشت گردی پیدا ہو رہی ہے تو ہندوؤں کو ناراض ہونے کی نہیں محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ محتاط اس لیے کیونکہ یہ ہندوؤں کے لیے اپنے مذہب کی روادار اور انسانیت نواز روایات کو بچانے کے لیے ایک چیلنج کی طرح ہے۔
گزشتہ چار دہائیوں سے، ہندو دھرم کا زبردست فرقہ وارانہ کرن پروجیکٹ چل رہا ہے۔ ہند دھرم کے مذہبی علامات کے لبرل مظاہر کو مٹا کر انھیں سخت گیر اور پرتشدد طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے۔ بھگوان رام کی مریادا پروشوتم والی نرم تصویر کی جگہ غصے، تشدد اور جنگجویانہ تصویر رام مندر تحریک کی علامت بن چکی ہے۔
حالیہ مثال گاڑیوں کی ونڈ سکرین پر لگی اینگری ہنومان کی تصویر ہے جس میں اپنی ابرو تانے بھگوان جانے کس پر اپنا غضب دکھا رہے ہیں۔ مذہبی تہواروں میں ہتھیاروں کی كھلم كھلا نمائش، اشتعال انگیز گیت اور سہرا دینے والا سنگيت- یہ سب ہندو مذہب کی لچک دار اور لبرل روایات کے خلاف فرقہ پرستانہ- بنیاد پرستانہ پروجیکٹ ہے۔
پہلے مرحلے میں، ہندوتو کٹر وادی فرقہ وارانہ فسادات میں اپنے غیر انسانی مظاہر میں سامنے آتا رہا۔ جہاں ہندوؤں کو متحد کرنےکے نام پر ان کو ہتھیار بند کیا گیا، انھیں اپنے دشمنوں کے خلاف سنگدل ہونے کی تربیت دی گئی اور مذہب کی حفاظت کے نام پر ہتھیار اٹھانے کے لیے ابھارا گیا۔
ظاہر ہے، یہ ایک بہت بڑے سیاسی منصوبے کا حصہ ہے جس کی قیادت سناتن سنستھا اور ابھینو بھارت جیسے مستثنیات کے ساتھ آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے۔نقلی ناموں سے چل رہی اس کی تمام تنظیمیں اور دیگر ہندوتو تنظیموں کے ذریعہ چلنے والے تمام ادارے دو کاموں کو بخوبی انجام دیتے رہے ہیں: مسلم کمیونٹی کے خلاف ہندؤوں کے اندر لامحدود نفرت پیدا کرنا اور ان کا دماغ ‘ٹھکانے’ لگانے کے لیے ہندؤوں کو ہتھیار چلانے کی ٹریننگ دینا۔
یہی وجہ ہے کہ گوڈسے کے ملزم ساتھی ‘ناراین آپٹے’ نے پاکستانی رہنماؤں کو قتل، پاکستان جانے والی ایک ٹرین میں دھماکہ اور پاکستان قانون ساز اسمبلی کو اڑانے جیسے منصوبے بنائے تھے۔ آج کی حالات کے حساب سے دیکھیں تو یہ خالص دہشت گردانہ منصوبے ہیں۔
منجو کا کہنا تھا کہ تشدد کو سائنسی طور پر ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ رام مندر تنازعات کے دوران، VHPاوربجرنگ دل نے سستی شرحوں پر دیسی طمنچے اور کٹے کھلے عام فروخت کیے تھے۔ ہتھیاروں کی عبادت اور ترشول دکشا جیسے پروگرام سنگھ کے تشدد میں یقین کی سیاست کا حصہ ہیں۔ بجرنگ دل کے پاس تو بڑی تعداد میں بندوق، تلوار اور دیگر مہلک ہتھیار ہمہ وقت دستیاب رہتے ہیں۔
بجرل دنگ کے سابق کوآرڈینیٹراور پھر بعد میں بی جے پی سے ایم ایل اے رہے ہریش بھٹ کے مطابق احمدآباد میں فسادات کے دوران استعمال ہونے والے بم ان کی اپنی بم ساز فیکٹری میں بنائے گئے تھے اور ان کے پاس راکٹ لانچر تک موجود تھے۔
گاندھی جی اور قومی تحریک کی عظیم وراثت جب تک مضبوط رہی، ہندوؤں کے درمیان فرقہ واریت کا یہ پروجیکٹ ہندؤوں کے بیچ حاشیے پر پڑا رہا۔ گاندھی جی کے پاس ہندو راشٹر کے برعکس رام راجیہ کا ایسا خواب تھا جو لبرل، انسانیت نواز اور روادار قدروں کا حامل تھا۔
لہذا، ہندو اس بات کو بخوبی سمجھتے رہے کہ مسلم لیگ کی راہ چل کر تو ہم ہندوستان کو بھی پاکستان بنا دیں گے، کیونکہ ہمارے قومی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ان کے اثرات کے تحت رہنے والے ہندو بھی بخوبی جانتے تھے کہ کٹرواد ایک پھسلن بھری راہ ہے۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان سمیت دنیا کے انتہا پسند ممالک کو کس طرح دیکھا جاتاہے جب کہ بھارت کی عزت پوری دنیا میں اس لیے ہے کہ وہ خود تنقیدی کے ذریعے اپنے کو بہتر بنانے کی طرف لگاتار رواں دواں رہنے والا ملک ہے۔
آج اگر ہم بھارت کو پاکستان بننے سے روکنا چاہتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی ذمہ داری ہندوؤں کو اپنے کندھوں پر برداشت کرنی پڑے گی۔ ورنہ سننے میں بھلے ہی کتنا برا کیوں نہ لگے، ہندو پاکستان ہندوؤں کے سامنے ایک چیلنج بن کر منہ بائے کھڑا ہے۔
(مصنف نیشنل موومنٹ فرنٹ کے کوآرڈی نیٹر اور دلی یونیورسٹی میں استاد ہیں)
آپ کے تبصرے