چند دن قبل سوشل میڈیا پر ایک تحریر وائرل ہوئی جس کا عنوان تھا(سلفی تحریک کو عالمی سطح پر درپیش فکر اور شناخت کا شدید بحران) جس میں کاتب أبوالأعلی سبحانی صاحب نے سلفی دعوت کے ساتھ ظلم وناانصافی کی حدیں پارکردی ہیں۔ تحریر پڑھ کر پہلا تأثرتو یہی ابھرا کہ چھوٹا منہ بڑی بات ہے اور یہی سوچا کہ جانے دیں کہ ہمارے اپنے ملک کا یہ معمول ہے کہ روزانہ چائے کی دکان پرچائے کی چسکیاں لیتے ہوئے عالمی سیاست سے لے کر گلی محلے کے ادنی واقعہ تک سب پرتبصرے کرنا اور مشورے دینا ہندوستانی ”گپ بازوں“ کا شیوہ ہے، اس پر مستزاد سبحانی صاحب کا تانا بانا جہاں سے جڑا ہے اس حلقہ کا مشغلہ ہی یہی ہے کہ وہ عالم اسلام کے تمام حکمرانوں کے نام ہدایات جاری کرنا اپنا فریضہ اور ان کی کہی سننا ان حکمرانوں کا فرض مانتا ہے ایسے جیسے یہ حکمران چاہے اپنی مجلس شوری رکھتے ہوں جب تک ان حضرات سے مشورہ لے کر فیصلہ نہ کریں ان حکمرانوں کا کوئی فیصلہ ”اسلامی‘‘ نہیں ہوسکتا۔
گرچہ حکمرانوں کو دیے جانے والے مشوروں کی طرح یہ تحریر بھی زمینی حقائق جانے بنامحض ایک ہوائی مشورہ سے زیادہ کچھ نہیں تھی، تاہم جب بغور پڑ ھ کردیکھا تو پتہ چلا کہ اس زہریلی تحریر کو ایسے ہی جانے دینا کسی جرم سے کم نہیں۔کیونکہ یہ صرف کسی فرد کی رائے نہیں بلکہ اس حلقہ کے بہت سارے افراد کے دماغ میں سمایا فتور ہے جوایک طرف خود ان حضرات کے سلفی دعوت کو سمجھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور دوسری طرف یہ حضرات یہی باتیں گاہے بگاہے سلفی دعوت سے بدظن کرنے کے لیے لوگوں میں بیان کرتے رہتے ہیں۔ماضی قریب میں غالبا اسی حلقہ سے وابستہ ایک اور نمائندہ شخصیت کی اسی قسم کی ایک اور مشورہ دیتی تحریرسوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ زیر نظر تحریر میں اسی مبنی بر جھوٹ تحریر کا مختصرجائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔
سبحانی صاحب نے دعوی کیا ہے کہ عصر ِحاضر میں سلفی دعوت ایک بے سمت قافلہ بن کررہ گئی ہے اورشناخت کے شدید بحران سے دوچار ہے، اوراسی کے نتیجے میں یہ دعوت پہلے دودھڑوں میں بٹ گئی، ایک دھڑا تکفیری وفسادی تنظیموں کے ہتھے چڑھ گیا اوردوسرا دھڑا حکمرانوں کے قدموں میں جابیٹھا اور کاسہ لیسی کو اپنی شناخت بنا بیٹھا ہے اور بالآخر اب یہ دعوت بربادی کے اس دہانے پر کھڑی ہے جہاں سے بروقت اسے بچایا نہ جائے تو یہ نیست ونابود ہوجائےگی۔
سب سے پہلی بات تو یہ عرض کرنی ہے کہ سلفی دعو ت ہر دور کی طرح آج بھی اپنے بنیادی اور ٹھوس مقاصد سے وابستہ ایک ایسی زندہ دعوت ہے جونبی امی ﷺ کی اس حدیث کا مصداق ہے (لاتزال طائفۃ من أمتي علی الحق ظاھرین لایضرھم من خذلھم ولا من خالفھم حتی ےأتي أمر اللہ وھم کذلک)(متفق علیہ بألفاظ مختلفۃ)پرائے تو پرائے ہیں خود اس دعوت سے تعلق رکھنے والے بھی بفرض محال اپنا ہاتھ کھینچ لیں تب بھی یہ دعوت نہ ختم ہوگی نہ راہ سے بھٹکے گی، یہ دعوت مقصد سے بھٹک جائے یہ ناممکن ہے۔
چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی
اس دعوت کے حاملین کمزور پڑ سکتے ہیں، وقتی طور پرسست روی کا شکار ہوسکتے ہیں، حتی کہ ان میں سے بعض لڑکھڑا بھی سکتے ہیں لیکن یہ دعوت کلی طورپر بے سمت قافلہ بن جائے ایسا نہیں ہوسکتا۔
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
یہی وجہ ہے کہ لاکھ منفی پروپیگنڈوں او رکئی طرح کی سازشوں کے باوجود اس وقت ملکی وبین الأقوامی سطح پر یہ دعوت سب سے تیزی سے ترقی پذیر ہے، جس کا اقرار آپ کے اپنے حلقے کے کئی جہاندیدہ افراد کرچکے ہیں۔ اس دعوت کی بنیاد اتباع کتاب وسنت پر ہے ا ور اس کا جامع پیغام پوری انسانیت کے لیے ایک ہی ہے اور وہ ہے ” تحقیق العبودیۃ للہ عزوجل“ سادہ الفاظ میں کہیں تو”ہر پل بندگی اور ہر عمل بندگی“اور اس بندگی میں روزافزوں ترقی کے مدارج طے کرنا اس دعوت کا خلاصہ ونچوڑ ہے۔عملی میدان میں اس دعوت کے بنیادی موضوعات توحید، اتباع اورتزکیہ نفس ہیں۔ اس سلفی دعوت کے ذریعے ملک وبیرون ملک ہر سطح پر توحید اور متعلقات توحید پر، شرک کی وضاحت اورتردید پر، سنت کی تعلیم اور اس کی اتباع کی ترغیب پر، عقائد کی اصلاح اور تفہیم پر، رد بدعات اورباطل مناہج کی گرفت پر، عمل بالحدیث کی دعوت، خدمت حدیث اور حدیث کی آئنیی اور تشریعی حیثیت کے دفاع پر،معاملات کی اصلاح او ردرستگی پر اور اخلاق وکردار کے سنوارنے کی تعلیم پر جس قدر مستند اور معتبر علمی وعملی کام تحریر وتقریر کے راستے سے انجام پا رہا ہے ملکی وعالمی سطح پر کوئی جماعت اور تنظیم یا تحریک اس کی نظیر نہیں پیش کرسکتی۔ صرف یہ دیکھ لیا جائے کہ ملت کے مختلف طبقات اور دینی جماعتوں میں سے ہر جمعہ خطبات ِجمعہ میں کون کس موضوع پر بات کرتا ہے۔ ایک طرف کتاب وسنت کے دلائل کی روشنی میں دین اسلام میں ان موضوعات کا درجہ ومقام جان لیں اوردوسری طرف اس سلفی آئینہ میں خود کا اور اپنے حلقہ کا چہرہ دیکھ لیں، نگاہوں میں حیا باقی ہوتو ضرور جھک جائیں گی اور سمجھ میں آجائے گا کہ دین کے حقیقی مقصد سے کما حقہ جڑا کون ہے؟
معاملہ دراصل یہ ہے کہ سبحانی صاحب جس جماعت سے وابستہ ہیں اس سے جڑے حضرات کا ایک مخصوص نظریہ دین اور زاویہ نظر ہے، و ہ بات تو مکمل نظامِ حیات کی کرتے ہیں لیکن ان کی کل محنت اور کوشش کا محورغلبہ اسلام کے نام پر اسلام کا سیاسی ورژن ”الإسلام السیاسي“ہے جسے وہ عصر حاضر میں توحید کا سب سے بڑا مظہر قراردیتے ہیں جس کی بنیاد پراپنی مخصوص تعبیر اورتفسیر کے مطابق سیاسی ”شرک“ یا ”طاغوت“ کے خلاف برسرپیکار رہنے ہی کو وہ مقصد سمجھتے ہیں، ا ن کی نظر میں جو علماء اور جماعتیں اور جمعیتیں اس مخصوص انقلابی نظریہ سے نہ جڑیں وہ ایک بے سمت قافلہ ہیں، وہ اسی چشمے سے سب کو دیکھتے ہیں اور اسی میزان پر تولتے ہیں،لوگوں کو اسی فکر سے جوڑنا چاہتے ہیں اور جب تک لوگ اس مزاج میں نہ ڈھل جائیں وہ سب کے سب ان کی نظر میں گم گشتہ راہ ہیں، بے سمت قافلہ ہیں، بکریوں کا ریوڑ ہیں جن کا کوئی چرواہا نہیں ہے۔اسلام کی اس مخصوص تعبیر وتفسیرکو وہ بانئ جماعت اسلامی مولانا مودودی کی تجدیدی دریافت مانتے ہیں اور اس کی صحت پر ان کے یقین کے نتیجے میں دوسرے مکاتب فکر کی دعوت کو اکثر سمجھنے سے قاصرہوتے ہیں اور ان کی ترجیحات سے بھی انھیں اختلاف ہوتا ہے اور اپنے اسی مخصوص زاویہ نظر کی وجہ سے انھیں دوسروں کی ترجیحات بے وزن بھی لگتی ہیں۔ فکر اسلامی کے نام پر ان کی سیاسی فکر، ترجیحات او ران کی میدانی کشمکش سے سلفی مکتب فکر کے علماء ودعات کوخالص علمی ومنہجی بنیادوں پر اختلاف ہے تو ان کو لگتا ہے کہ یہ بے سمت قافلہ ہے جو اپنی شناخت کے بحران سے دوچار ہے۔اسی تناظر میں سبحانی صاحب نے بھی سلفی تحریک کو شناخت کے بحران سے دوچارقراردیا ہے۔
سلفی مکتب فکر کادین کی اس تفسیر وتعبیر کے سلسلے میں ایک واضح موقف ہے وہ اس فکری جدت کوتجدیدکے بجائے ایک بدعت مانتے ہیں، وہ حاکمیت الہ کے اس مخصوص تصور کو اللہ کی حاکمیت کے باب میں غلو سمجھتے ہیں او رتوحید کے باب میں ایک ایسی فکر مانتے ہیں جس کی بنیاد شریعت کا ایک اہم مسئلہ ہے لیکن اس کی انتہاء انتہاپسندی کا مظہر ہے۔
سلفی مکتب فکر سے جڑے علماء واہل نظرکے پاس سیاست کے سلسلے میں ایک واضح اور دوٹوک موقف ہے، ان کی نظر میں وہ دین کا ایک اہم باب اور خدمت کا ایک میدان ضرور ہے لیکن وہ نہ دین کا سب سے اہم میدان ہے اور نہ ہی خدمت کا اصل میدان،یہی وجہ ہے کہ جب کبھی امت کے مفادات کی تکمیل وتحصیل کے لیے صحیح اصولوں پر سیاست کا میدان سجا یا میدان کارزار گرم ہوا منہج سلف سے وابستگی رکھنے والے علماء وعوام سب نے دل وجان سے اس میں حصہ لیا چاہے تحریک شہیدین ہو کہ اس ملک کی جنگ آزادی یا روس کے خلاف افغان جہاد وغیرہ۔لیکن یہ حصہ داری بھی ان کی نظر میں ایک فرض کی ادائیگی کی بات تھی اصل مشن تو تحقیق العبودیۃ للہ تھی، ان کی نظر میں نظام اسلام اور نفاذاسلام کا معاملہ ایک سنگ میل ہے منزل مقصود نہیں، ان کے نزدیک اقامت دین کی اصطلاح اورعبادت یعنی اللہ کی بندگی اپنے آپ میں بہت وسیع مفہوم رکھتی ہے، اورکم از کم اسلامی حکومت کا قیام اس بندگی کے مفہوم کا مرکزی موضوع نہیں ہے، اس کا مرکزی موضوع توحید ہے لیکن توحید کا مفہوم حاکمیت الہ کے اس مفہوم سے بہت دور ہے جو تحریک اسلامی کے منسوبین کے نزدیک توحید کا خلاصہ ہے جو کہ شریعت مطہرہ کی نظر میں حاکمیت الہ کے مفہوم میں غلو پر مبنی ہے۔سلفی علماء کے نزدیک اس تحریکی غلو سے پاک حاکمیت الہ کا حقیقی مفہوم بھی کل توحید نہیں ہے،یہی وہ بنیادی اختلاف ہے جو سلفی دعوت اور تحریک اسلامی کی دعوت کے درمیان خط امتیاز کھینچتا ہے اور ساتھ ہی سوچ کے زاویے بدلنے اور نظریات ورائے قائم کرنے کی اساس بن جاتا ہے۔ اسی مبنی بر غلوحاکمیت کے عقیدہ اور سیاسی تصور نے سارے تحریکی حلقہ کی نظر میں اکثر یاسبھی مسلم حکمرانوں کو طاغوت بنا دیا ہے اور ان کے خلاف سیاسی اکھاڑے میں جمے رہنے کو مقصد وجود اور زندگی کا مشن جبکہ سلفی دعوت کے حاملین کی نظر میں یہ حکمران یا ان میں سے بہت سارے عاصی وخاطی تو ہیں مگروہ طاغوت یا کافر نہیں جن کے خلاف ”جد وجہد“ کو عین اسلام قراردیا جائے، بلکہ مسلم ممالک کے اکثر حکمران شرعا ولي الأمر کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے خلاف خروج شرعا درست نہیں جب تک کہ وہ مسلمان ہوں۔ تحریکی حلقہ کے احباب اس مسئلہ پر خالص علمی اور منہجی بنیادوں پر گفتگو کا حق تو رکھتے ہیں جس کی روشنی میں ان حکمرانوں کی شرعی حیثیت متعین کی جائے اور ان کے تئیں مواقف کے درست یا غلط ہونے کو طے کیا جائے لیکن اس کا جواز کہیں سے نہیں رکھتے کہ اپنے خود ساختہ مبنی بر غلو تصورِ طاغوت کو ساری امت پر تھوپ دیں اور اسی کے تناظر میں سب کے مواقف کو تول دیں۔
سبحانی صاحب کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ ان کی نظر میں ان حکمرانوں سے دو دو ہاتھ کرنا وقت کا سب سے بڑا کا م ہے، ان کے حلقہ کی نظر میں ”شرک القبور“ کی نہیں ”شرک القصور“ کی بات کرنا ہی اصل مشن ہے اور ان کے مطابق یہی قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیربھی ہے (فمن یکفر بالطاغوت ویؤمن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی)(البقرۃ:۶۵۲)اور یہی سبحانی صاحب کے تجزیہ کا اصل جھول اور بنیادی غلطی ہے، گویا خلل ان کے اس تجزیہ سے پہلے اس فکر میں ہے جس نے انھیں اس تجزیہ پر آمادہ کیا۔
سبحانی صاحب نے سلفی دعوت سے نسبت رکھنے والے بعض مشاہیر کا حوالہ دے کربزعم ِخودمعاصر سلفی دعوت کو یا اس کے حاملین ومنسوبین کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے،یہ مشاہیر دعوت وعزیمت کے وہ روشن ستارے ہیں جنھوں نے اپنے بے لاگ مواقف سے تا ریخ اسلام کے ساتھ ساتھ سلفی دعوت کی تاریخ کے اوراق کوبھی روشن کیا ہے۔لیکن معاملہ یہ ہے کہ سبحانی صاحب کے حلقہ سے وابستہ افراد اکثر ان مشاہیر کی زندگیوں کا صرف ایک پہلو لے لیتے ہیں اور وہ پہلو یہ ہے کہ وقت کے حکمرانوں نے حق اور انصاف کی بات سے پھیرنے کی کوشش کی تو وہ جم گئے اوراپنے پائے ثبات میں ذرہ برابر بھی لرزش آنے نہ دی لیکن یہ حضرات اسی تصویر کے دوسرے رخ کو نہ کبھی خوددیکھ پاتے ہیں اور نہ امت کو دکھاپاتے ہیں کہ حق سے پھیرنے کی کوشش کرنے والے ان حکمرانوں کے سلسلے میں ان علماء ربانیین کا موقف کیا تھا؟ کیا انھوں نے سبحانی صاحب کے حلقہ کی طرح پوری امت کو ان حکمرانوں کے خلاف برانگیختہ کیا؟ یا ایسا کرنے کو عین دین قراردیا؟ تصویر کا یہ رخ وہ آئینہ ہے جس میں سبحانی صاحب اور ان کے ہم خیال حضرات کو یہ دیکھنا چاہیے کہ راہ عزیمت کے جن شہسواروں کا وہ نام جابجا لیتے ہیں حقیقت میں ان سے رشتہ اتفاق کا ہے کہ اختلاف کا۔
حق تو یہ ہے کہ ان بزرگوں کے نزدیک ان ظالم اوربہکے حکمرانوں کے ساتھ تعامل کاضابطہ قرآن مجید کی یہ آیت رہی (وإن جاھداک علی أن تشرک بي مالیس لک بہ علم فلاتطعہما وصاحبہما في الدنیا معروفا واتبع سبیل من أناب إلي)اور اگر دونوں (والدین) تم پر زور دیں کہ تم میرے ساتھ شرک کروجس کا تمھیں علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کرنا، ہاں دنیا کے دیگر معاملات میں ان کے ساتھ بہتر طریقہ سے پیش آنا(لقمان:۵۱) نبیﷺ کی یہ رہنمائی ہمیشہ ان کے پیش نظر رہی (عن ابن مسعود رضي اللہ عنہ مرفوعا قال: إنھا ستکون أثرۃ وأمور تنکرونھا قالوا یارسول اللہ! فما تأمرنا؟ قال: تؤدون الحق الذي علیکم وتسألون اللہ الذيلکم)بہت جلد تم دیکھوگے کہ حق تلفی ہوگی اور ایسے معاملات دیکھوگے جو شرعا منکرات کی قبیل سے ہیں، صحابہ نے پوچھا اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں اس صورت میں کیا حکم دیں گے؟ فرمایا: تم پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں انھیں ادا کرتے رہو اور اپنے حقوق کے لیے اللہ تعالی سے دعا کیا کرو۔(متفق علیہ)
نبی ﷺ کی یہ واضح ہدایت ان کی رہنما رہی۔ عوف بن مالک رضي اللہ عنہ راوی ہیں فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا ﷺ(خیار أئمتکم الذین تحبونھم ویحبونکم وتصلون علیہم ویصلون علیکم وشرار أئمتکم الذین تبغضونھم ویبغضونکم وتلعنونھم ویلعنونکم قیل یار سول اللہ! أفلاننابذھم بالسیف؟ فقال: لا.ما أقاموا فیکم الصلاۃ۔ وإذا رأیتم من ولاتکم شیئا تکرھونہ فاکرھوا عملہ ولاتنزعوا یدا من طاعۃ)تمھارے حکمرانوں میں سب سے اچھے وہ ہیں جن سے تم محبت کروا ور وہ تم سے محبت کریں تم ان کے لیے دعا کرووہ تمھارے لیے دعا کریں او رتمھارے حکمرانوں میں سب سے برے وہ حکمران ہیں جن سے تم نفرت کرو وہ تم سے نفرت کریں تم ان پر لعنت بھیجو وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ پوچھا گیا اے اللہ کے رسول! کیا ہم ان (برے حکمرانوں)کے خلاف تلوار لے کر برسرپیکار نہ ہوجائیں؟ فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز قائم کریں۔اور جب تم اپنے حکمرانوں میں کوئی ایسی بات دیکھو جو تمھیں ناگوار گزرے توتم ان کے عمل کو ناپسند کرو لیکن ان کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچو۔(مسلم:۵۵۸۱)
اور ہردور کی طرح سلفی دعوت آج بھی قرآن وسنت کی اسی واضح رہنمائی اور اپنے اسلاف کے انھی نقوش قدم پر جمی ہوئی ہے، وہ نہ ان حکمرانوں کے منکر ات کی مؤید ہے اور نہ کاسہ لیسی ان کا مقصد ہے، وہ نبی ﷺ کی اس حدیث (من أطاعني فقد أطاع اللہ ومن أطاع أمیري فقد أطاعني) جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی (مسلم: ۵۳۸۱) کے بموجب ان حکمرانوں کی اطاعت میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے پہلو تلاش کرتے ہیں جب تک کہ ان کی اطاعت بموجب شرع مطلوب ومشروع ہو۔واضح رہے کہ حدیث میں ”أمیري“ سے مراد صرف نبی ﷺ کے متعین کردہ امراء مراد نہیں ہیں بلکہ ہر دور کے مسلم حکمران مراد ہیں۔ تفصیل کے لیے اس حدیث کی شرح میں امام نووی وغیرہ کی تصریحات ملا حظہ فرمالیں۔
سبحانی صاحب نے امام احمد بن حنبل کا نام لیا ہے، یہ حق ہے کہ خلق قرآن کے معاملہ میں خلیفہ وقت نے بلکہ تین تین خلفاء وقت نے امام احمد پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے او رانھیں اپنا ہمنوا بنانا چاہا مگر امام احمد ڈٹ گئے اور حق سے دستبردار نہ ہوئے۔ سبحانی صاحب کو یہ بات یاد ہے(گرچہ یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ امام احمد کا یہ موقف حکمران سے ٹکراجانے کا نہیں تھا اور نہ ان کے خلاف اپنی طرف سے پہل کرنے کا جیسا کہ سبحانی صاحب باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں)تاہم مان بھی لیں کہ”حکمران کے خلاف“ ڈٹ گئے تھے تب بھی کیا انھیں یہ معلوم اور یاد ہے کہ فتنہ خلق قرآن جو خود امام احمد کے بقول کفریہ قول تھا اور حاکم وقت بعض علماء سوء کے ورغلانے پراس عقیدہ کوبزور بازو ساری امت اور علماء سے منوانے کے درپے تھاتو امام احمد نے متعین طور پر ان علماء سوء کی تکفیر کی نہ ان حکمرانوں کو طاغوت قراردے کر ان کے خلاف ”جہاد“ کی دعوت دی، الٹا یہ ہوا کہ بغداد کے علماء امام احمد کے پاس آئے اور اکٹھا بیک آواز کہنے لگے کہ پانی سرسے اونچا ہوچکا ہے اور خلیفہ وقت واثق باللہ کی خلافت سے ہم راضی نہیں ہیں اور اس کی امارت سے دستبردار ہوجانا چاہتے ہیں تب امام احمد نے خود ان علماء سے بحث کی اور ان سے کہا:(علیکم بالنکرۃبقلوبکم ولاتخلعوا یدا من طاعۃ)اپنے دل سے ان سب چیزوں کا انکار کرو اور ناپسند کرولیکن اس حکمران کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچو..اس واقعہ کے راوی حنبل بن اسحاق بن حنبل جو امام احمد کے بھتیجے ہیں کہتے ہیں بہت دیر تک امام احمد انھیں سمجھاتے رہے پھران حضرات کے چلے جانے کے بعد میرے والد نے امام احمد سے کہا کہ اے ابوعبداللہ! یہ آپ کی رائے ہوگی اور اپنی صوابدید کے مطابق آپ ایسا سمجھتے ہوں گے تو امام احمد نے کہا: (لا۔ ھذا خلاف الآثار التي أمرنا فیھا بالصبر)نہیں یہ میری رائے کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ان احادیث کی مخالفت ہے جن میں ہمیں ایسی صورت حال میں صبر کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر امام احمد نے اس سلسلے کی حدیث سنائی۔(السنۃ للخلال:90)
سبحانی صاحب اور ان کا حلقہ درج ذیل دونوں حقیقتوں کو سمجھنے سے قاصر ہے یا سمجھ کر منکر ہے،ایک یہ کہ وقت آنے پرحکومت کا قیام بندگی کا ایک باب ہے جس کے ذریعے دراصل حدود وغیرہ جیسی بہت ساری تعلیمات کی تنفیذ عمل میں آسکے، تاہم قیامِ ِحکومت کے بغیرانجام پانے والی اللہ کی بندگی بھی بندگی ہے اور اقامت ِدین ہے۔اور دوسری حقیقت یہ کہ حکمرانوں کی اطاعت دراصل اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے مقصد سے کی جاتی ہے اور لوگ کاسہ لیسی سے دور ہوکر بھی حکمران کے خیرخواہ ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ نظریاتی فرق ہے جو جماعت اسلامی اور الإخوان المسلمون سے وابستگی رکھنے والے حضرات اور سلفی نقطہ نظر کے حاملین کے درمیان حد فاصل کا درجہ رکھتی ہے۔
سلفی دعوت کے حاملین ومنسوبین قرآن وسنت کے انھی اصولوں کی روشنی میں اور دعوت وعزیمت کے انھی روشن چراغوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان حکمرانوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں، یہ اہل حدیث ہیں اور محدثین کے انھی اصولوں پر قائم ہیں جو کتب حدیث میں پچھلے چودہ سوسال سے مدون ومحفوظ ہیں۔اب سبحانی صاحب اور ان کے ہمنوا دیکھ لیں سمت کس کی بگڑی ہوئی ہے اور قبلہ کس کو درست کرنا ہے؟سبحانی صاحب کی یہی فکری ومنہجی کج فہمی ہے جس کے نتیجے میں تحقیق العبودیۃ کو اپنا نصب العین بنا کرجی جان سے محنت کرنے والے شناخت کے بحران سے دوچار نظر آتے ہیں اور حکمرانوں کی اطاعت کرنے والے ان حکمرانوں کے غلام۔
یاد آیا کہ سوشل میڈیا پر چند سال قبل حکمرانوں کے ساتھ تعامل کے اسی موضوع پر بحث چھڑی، سبحانی صاحب ہی کے حلقہ کے ایک نمائندہ شخص نے کہا قرآن وسنت میں حکم صرف اللہ ورسول کی اطاعت کا ہے، جواب میں ان کے سامنے سورہ نساء کی یہ آیت پیش کی گئی (یا أیھاا لذین آمنوا أطیعوا اللہ وأطیعوا الرسول وأولي الأمر منکم) جس میں أولواالأمر یعنی ایک تفسیر کے مطابق حکمران کی اطاعت کا صریح حکم ہے۔حیرت کی انتہا کہ آیت کے پیش کرنے کے بعد بھی وہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔یہی حال ہوتا ہے جب کسی مخصوص فکر کا نشہ چڑھ جائے تو پھرآنکھیں سامنے کی حقیقت دیکھنے سے بھی قاصر رہتی ہیں۔
آپ قارئین بھی جان لیں کہ قرآنی آیت کی اس صراحت کے سامنے اس جرأت کے پیچھے بھی ایک مخصوص نظریہ ہے، ان حضرات کے نزدیک اس قسم کی آیتوں کا انطباق ابوبکر وعمر پر یا خلافت علی منہاج النبوۃ کے علمبرداروں پر ہوسکتا ہے۔ ان کی نظر میں خلافت راشدہ کے بعد ہی سے خلافت پٹری سے اتر چکی ہے تو اطاعت کا معاملہ پٹری پر کہاں رہ سکتا ہے، جبکہ نبی ﷺ کی احادیث صریح ہیں کہ اطاعت کا معاملہ حد درجہ عاصی وخاطی حکمرانوں کے سلسلے میں بھی ہے جب تک کہ وہ مسلمان ہوں۔عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں (بایعنا علی السمع والطاعۃ في منشطنا ومکرھناوعسرنا ویسرناوأثرۃ علیناوأن لاننازع الأمر أھلہ إلا أن تروا کفرا بواحا عندکم من اللہ فیہ برھان) رسول اکرم ﷺ نے ہم سے بیعت واقرار لیا کہ ہم حکمرانوں کے فرمانبردار رہیں گے چاہے ہمارے نفس آمادہ ہوں کہ نہ ہوں، ان کی اطاعت میں ہمارے لیے آسانی ہو کہ مشکل ہو، چاہے وہ ہمارا حق مار کر دوسروں کو دے رہے ہوں۔ اور اس بات کا بھی اقرار لیا کہ ہم صاحب اختیار سے اس کا اختیار چھیننے کی کوشش نہیں کریں گے الا اینکہ تم ان میں کھلا کفر دیکھوجس کے سلسلے میں تمھارے پاس اللہ کی طرف سے کھلی دلیل ہو۔(متفق علیہ)
حکمرانوں کے ساتھ تعامل والی سوشل میڈیا کی جس بحث کا ابھی حوالہ دیا ہے اسی دور میں ایک سلفی صاحب ِقلم نے مسئلہ کی نزاکت کا احساس دلانے کے لیے چند سطری تحریر لکھی اور ایسی ہی بعض احادیث ذکر کرتے ہوئے یاد دہانی کروائی کہ سلفی علماء کی حکمران کے تئیں بغاوت کی روش کے بجائے ان کے ساتھ چلنے کی پالیسی نہ کاسہ لیسی ہے نہ ایمانی کمزوری بلکہ عین اسلامی تعلیمات کی پیروی ہے تو تحریکی حلقہ کے نمائندہ قلمکار ایک ڈاکٹر صاحب نے ایک مضمون لکھا ”غلاموں کے غلام“ یعنی یہ مسلم حکمران یورپ وامریکہ کے غلام ہیں اور یہ سلفی حضرات ان غلاموں کے غلام۔ مسلم حکمرانوں کے ساتھ تعامل کے منہج کا یہی فرق ہے جسے سبحانی صاحب جیسے حضرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ طے ہو کون کس کے ہتھے چڑھ گیاہے۔
چلتے چلتے ایک دعوت یہ بھی دے دوں کہ جن علماء کا حوالہ دیا ہے ان کی زندگی کے بعض مواقف کو لے کر یہ باور کروانے کے بجائے کہ آپ انھی کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں ذرا یہ بھی دیکھ لیں کہ حاکمیت، طاغوت اور مقصد وجود وغیرہ کا جو تصور آپ حضرات نے پال رکھا ہے ان مذکورہ علماء کے فرمودات کی روشنی میں وہ تصورات کس حدتک درست ہیں؟؟ سردست صرف اتنا ذکر کردوں کہ مولانا مودودی نے خود ان تصورات کو اپنی دریافت قراردیا ہے، اب آپ کیا کہیں گے؟ آپ کا ناطہ اپنے ان مخصوص افکار میں ان اساطین علم سے جڑا ہے یا پھر بانئ جماعت مولانا مودودی سے؟
سبحانی صاحب نے اس تحریر میں دوسرا بڑا ظلم یہ کیا ہے کہ بڑ ی ہی چالاکی سے تکفیری فکر کا رشتہ سلفی دعوت سے جوڑدیا (رمتني بدائھا وانسلت) ڈھٹائی کی یہ انتہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ کریڈ ٹ پوری طرح اخوانی فکر کو جاتا ہے۔ سلفی دعوت عقیدہ کے موضوع کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے اور توحید کے موضوع پر گفتگوکی وجہ سے اس دعوت کے حاملین شرک اور مشرکین کا حکم سب سے زیادہ بیان کرتے ہیں لیکن افرادپر متعین طور پر حکم لگانا ان کا شیوہ نہیں ہے، یہ ”سعادت“ یا تو بریلی مکتب فکر کو حاصل ہے جو وہابی کے پیچھے نماز جنازہ پڑھ لینے والے کا تجدید نکاح کرواتے ہیں یا پھر اسی اخوانی فکر کوجو متعین طور پر مسلم حکمرانوں کو منافق وطاغوت اور مسلم معاشرہ کو جاہلی معاشرہ قرار دیتے ہیں۔ اخوانی فکر کا تکفیری فکر سے جو رشتہ ہے وہ ماں بیٹے کا ہے، سر دست اس نکتہ پرمفصل گفتگو نہیں کروں گا لیکن تاریخی طور پر یہ ضرور بتانا چاہوں گا کہ سبحانی صاحب نے یہ جو لکھا ہے ”ماضی کے افکار اور عزیمت بھری داستانوں سے وابستہ افراد جو موجودہ زمانے میں مطلوبہ رہنمائی سے محروم تھے وہ الگ الگ جہادی تنظیموں کا حصہ بنتے چلے گئے اور ان کے اندر موجود تکفیری رجحانات کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود امت کے خلاف ایک خطرناک محاذکھول کر بیٹھ گئے“ یہ سو فیصد الإخوان المسلون کا تعارف ہے جو سبحانی صاحب کے روحانی بھائی ہیں جسے بڑی ہی چالاکی سے سلفی دعوت کے کھاتے میں ڈال کراپنا داغدار دامن صاف کرنے کی کوشش میں لگے ہیں اور بری طرح ناکام ہیں۔ سبحانی صاحب زیادہ دور نہ جائیں صرف قرضاوی صاحب کے اس اعتراف کوسن لیں جس میں انھوں نے صاف لفظوں میں اعتراف کیا ہے کہ داعش کے رہنما دراصل الإخوان المسلمون کے سرگرم رکن تھے پھر بقول قرضاوی صاحب عہدہ کے لالچ میں آگے بڑھ کر اس دہشت گرد تنظیم کا حصہ بن گئے ۔(یوٹیوب پر القرضاوي: زعیم داعش من الإخوان کے نام سے یہ بیان سن سکتے ہیں)
قریب ہے یار روز محشر چھپے گا کشتوں کا قتل کیوں کر
جو چپ رہے گی زبان ِجنجر لہوپکارے گاآستین کا
ملکی حالات کے تناظر میں بعض نزاکتیں ملحوظ نہ ہوتیں تو بہت کچھ لکھا جاسکتا تھا سردست اس اجمال پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
اس ”تکفیری جہادی“ ٹولے کی تاریخ یہ ہے کہ عرب ممالک بالعموم سلفی عقیدہ ومنہج کے حامل علاقے تھے، مصر میں الإخوان المسلون کا آغاز ہوا تو سب نے ایک اسلامی ودینی جماعت کے طور پراس کی پذیرائی کی، ان کی دین پسندی کی سراہنا کی اور ساتھ دیا، بالکل اسی طرح جس طرح جماعت اسلامی کی تاسیس عمل میں آئی توہندوستان کے متعدد اہل علم نے مسلکی اختلاف کے باوجود اس میں شمولیت اختیار کی،بہت سارے اہل حدیث علماء نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی،الإخوان المسلمون کا یہی وہ دور ہے جب سعودی عرب وغیرہ میں ان کو فروغ حاصل ہوا، ان کا لٹریچر خوب شائع ہوا، مصر میں جب جمال عبدالناصر کے زمانے میں مصائب وآلام کا دروازہ کھلا ان کی کئی اہم شخصیات کو سعودی عرب وغیرہ میں سیاسی پناہ ملی اور متعدد یونیورسٹیوں وغیرہ میں برسرخدمت مامور بھی ہوئے لیکن جس طرح برصغیر میں جماعت اسلامی کو قریب سے دیکھنے کے بعدمتعدد اہل علم نے دوری بنالی بالکل اسی طرح اس فکر کی انتہاکھل کرسامنے آنے لگی تو اہل علم نے إخوان پررد کرنا شروع کیا۔ بقول زاہد اعظمی
اول اول حرز جاں بنتا تھا تیرا ہر کلام
آخر آخر دور سے کرنا پڑا تجھ کو سلام
معاملہ یہ ہے کہ جس طرح جماعت اسلامی سے نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر دوری اختیار کرنے والے متعدد اہل علم کے بارے میں جماعتی حلقہ کی طرف سے یہ دعوی کیا گیاکہ یہ سب دنیادار تھے عہدہ کی طلب میں لپک کر آئے تھے اور جب اپنی مراد برآتے نہ دکھائی دی تو اس سے دوری بنالی بالکل اسی طرز پر سبحانی صاحب نے بھی یہ دعوی ٹھونک دیا (جو کہ دراصل اس جماعت سے وابستہ افراد کے غالب طبقہ کا بھی خیال ہے):
”گزشتہ چند دہائیوں میں عرب دنیا کی حکومتوں کی طرف سے بہت سی تحریکوں کو نشانہ بنانے، بلکہ یرغمال بنانے کی کوششیں ہوئیں، ان میں اسلامی تحریکات بھی شامل ہیں اور دوسری تحریکات بھی۔ ایک وقت تھا کہ سعودی عرب سے اخوان اور جماعت اسلامی کے لٹریچر کی تقسیم سرکاری سطح پر ہوتی تھی اور ان کی شخصیات کو خوب پذیرائی بھی حاصل ہوتی تھی۔ یہ سب ان کو یرغمال بنالینے اور اپنے سیاسی اہداف کے لیے ان کو استعمال کرنے کے سلسلے کی کوششیں تھیں، لیکن اسلامی تحریکات کے ٹھوس اصولوں، واضح بنیادوں اور دوٹوک مواقف کے سبب ایسا ممکن نہیں تھا، چنانچہ ان عرب حکومتوں کو ان کے یہاں کچھ نہیں مل سکا، اور بالآخر سعودی حکومت نے بھی اور دوسری عرب حکومتوں نے بھی اسلامی تحریکات سے دوری بنالی۔ اسی پروجیکٹ کے تحت سلفی تحریک کو بھی نشانہ بنایا گیا اور بوجوہ یہ تحریک بہت آسانی کے ساتھ اس ٹریپ کا شکار بنتی چلی گئی….“
تاریخ گواہ ہے کہ جس وقت سلفی علماء نے الإخوان المسلمون پر رد کرنا اور ان میں تکفیر کی بنیادوں کو بیان کرنا شروع کیا اس وقت اخوان نہ صرف سعودی حکمرانوں کے منظور نظر تھے بلکہ سعودی عرب کے بہت سارے اداروں کے کلیدی عہدوں پر فائز تھے، اخوان پر رد کی شروعات تو ایسی ہوئی کہ مدینہ میں شیخ محمد امان جامی رحمہ اللہ(1930-1969ء) نے جب اس موضوع پر گفتگو کی تو حکمران تو حکمران ریاض میں موجود معتبر سلفی علماء بھی سعودی عرب کے اخوانزدہ بعض دعاۃ کے سلسلے میں بہت مثبت رائے رکھتے تھے۔ شیخ محمد امان جامی نے ان میں سے کئی علماء سے ملاقات کی خاطر بار بار ریاض کا سفر کیا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر مستقل اس فکر کی قلعی کھولنے کی کوشش کی۔ پھر شیخ ربیع بن ہادی مدخلی حفظہ اللہ وغیرہ نے اس محاذ کو سنبھالا اور یہ دور ملک فہد کا دور تھا، ملک فہد(وفات یکماگست 2005ء) کے بعد ملک عبداللہ کا عہد حکومت(2005تا 2015ء)بھی اخوان اور سعودی حکومت کے باہمی روابط کا تھا، سعودی حکومت کے اسی رویہ کی وجہ سے بہت سارے مفکرین نے سلفیت کے تعارف میں یہ لکھنا شروع کردیا تھا کہ سلفیت کے دو دھڑے ہیں جہادی سلفیت (اخوانیت) اور غیر جہادی سلفیت۔ ملک عبداللہ کے عہد حکومت کے آخری ایام میں (7 مارچ2014ء)کو سعودی عرب میں اخوان پر پابندی کا اعلان آیااور پھر2015ء کے بعدملک سلمان کا عہد حکومت آیا تو ولیعہد نے اس پابندی پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کرنا شروع کیا،جس کے نتیجہ میں دنیا نے یہ سمجھ لیا کہ جس طبقہ کو ”جہادی سلفیت“ کہا جاتا تھا وہ اخوانزدہ دعاۃ ومبلغین تھے، سلفیت ان سے بری ہے۔ اس تاریخی سچائی کو سامنے رکھتے ہوئے انصاف کے ساتھ بتائیں اخوان کی مخالفت میں سلفی لکھتے بولتے ہیں تو کیا یہ کہا جائےگا کہ یہ حکمران کے اشارہ ابرو کی کرشمہ سازی ہے، اسے کاسہ لیسی کہا جائےگا؟ یہ حقائق تو بتاتے ہیں کہ اخوان کی حکمرانوں سے قربت کے اس دور میں اخوان پررد کرکے سلفی علماء نے تو خطرہ کو دعوت دی تھی اورخود کو اور اپنے مفادات کو خطرے میں ڈالا تھا۔ فتنہ خلق قرآن کے تناظر میں کہیں تو امام احمد کا کردار تو ان سلفی علماء نے ادا کیا تھا جبکہ احمد بن أبی دؤاد کی کرسی پر تو اخوان براجمان تھے۔
سچ تو یہ ہے کہ سعودی عرب میں الإخوان پر پابندی لگنے کی بنیادی وجہ وہی تکفیری وتخریبی فکرہے جسے سبحانی صاحب نے خود واضح الفاظ میں بتلایا ہے ہاں بس اس فرق کے ساتھ کہ ظلما وزورا اسے سلفیوں کے کھاتے میں ڈالنے کی ناروا کوشش کی ہے۔
یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوسکتا ہے اور بہت سارے قارئین کے نزدیک ایک شبہ کی حیثیت سے اہم بھی ہے کہ سلفی علماء کے اس موقف سے تو ان ظالم وجابر اور عاصی وخاطی حکمرانوں کو شہ نہیں ملتی؟ کیا اس سے ان کی ظالمانہ سیاست کو کم ازکم اخلاقی تائید نہیں مل جاتی؟کیا یہ ظالم ان شرعی اصو لوں کی آڑ میں پولیٹکل میلیج(political mileage) نہیں لیتے ہیں؟یہ سوالات ایسے ہیں جنھوں نے اچھے خاصے ذی علم حضرات کو بھی غچہ دیا ہے جس کے نتیجہ میں وہ ان حکمرانوں کی جی حضوری سے بچنے یا ان کے منکر میں تائید سے دامن بچانے کے نام پر دوسرے پالے میں جا بیٹھتے ہیں او رجانے انجانے اس تحریضی فکر کے مؤید ومناد بن جاتے ہیں۔ ان سوالات کے جواب میں پہلی بات تو یہ عرض ہے کہ آپ اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ جب نبی ﷺ نے ایسے حکمرانوں کے مقابلے میں صبر کی تلقین فرمائی کیا آپ ﷺ کو ان مفاسد کا علم یا اندازہ نہیں تھا؟جبکہ آپ تو(وما ینطق عن الھوی إن ھو إلا وحي یوحی)کے بموجب اپنی مرضی سے نہیں بولتے تھے،انکار ِمنکر کو سیدھے ایمان سے جوڑ کر بالتاکید انکار کا حکم دینے والے اور ظالم کا ہاتھ پکڑنے کا حکم دینے والے بلکہ خود آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ پکڑنے والے نبی امی ﷺ نے اگر یہاں صبر کرنے اور ان ظالموں کے خلاف بغاوت نہ کرنے کا حکم دیا ہو تو ظاہر ہے رب حکیم کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوگی جس کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے نہ یہ کہ اس نبوی منہج پرہی سوال کھڑے کیے جائیں اور آدمی اس آیت کا مصداق بن جائے (وإذا قیل لہ اتق اللہ أخذتہ العزۃ بالإثم فحسبہ جھنم ولبئس المھاد)
واقعہ یہ ہے کہ دین اسلام اپنے تشریعی پہلو میں جن اصولوں پر مبنی ہے ان میں ایک ”أھون البلیتین“ کا بھی اصول ہے جس کا تقاضہ یہ ہے کہ دو نقصان میں سے بڑے نقصان کے سد باب کے لیے چھوٹے نقصان کو برداشت کیا جائے، صبر کی اس تلقین کے پیچھے یہی حکمت کارفرما ہے کہ ایسے حکمرانوں کے ظلم اور فسق پر صبر کرلینا ان کے خلاف بغاوت کرکے عوام الناس کی جان، مال، عزت، آبرو اور سماج کے امن وامان اور ایسے ہی بہت سارے مصالح کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ یہاں افراد کے مقابلے پورے سماج کا تحفظ مقصود ہے، گویا صبر کی یہ تعلیم حکمران کے مفاد میں کم عوام اور رعایا کے مفاد میں زیادہ ہے۔
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے گویا ہیں (کما یفعلہ من یری السیف فھذا رأي فاسد فإن مفسدۃ ھذا أعظم من مصلحتہ وقل من خرج علی إمام ذي سلطان إلا کان ما تولدعلی فعلہ من الشر أعظم مما تولد من الخیر)… جیسا کہ بزور تلوار اصلاح کے قائلین کرتے ہیں، یہ ایک فاسد رائے ہے اور اس کے فوائد کے مقابلے اس کے مفاسد بہت زیادہ ہیں۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کسی صاحب اقتدار کے خلاف بغاوت سے خیر نکلا ہو ورنہ اکثر یہی ہوا ہے کہ اس خیر کے مقابلے اس سے پیدا شر بہت بڑا رہا ہے۔ (4:527) علماء سلف کی اس باب میں بے شمار تصریحات موجود ہیں۔خود ہم لوگوں نے ”الربیع العربي“ یا ”عرب بہاریہ“ کا نتیجہ دیکھا، باغی کئی جگہ ناکام ہوئے اوربعض جگہ کامیاب بھی ہوئے مگر دونوں ہی قسم کے مقامات پر جو قیمت چکائی اور آج بھی چکا رہے ہیں اس کو دیکھ کر بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان پر یہ مثل صادق آتی ہے (یبني قصرا ویھدم مصرا) آشیانہ بچانے کو شہر کیا جلاؤگے؟؟
شیخ الإسلام ابن تیمیہ کی یہ حکمت بھری عبارت دیکھیں (خاص طور پر سبحانی صاحب جیسے لوگ جو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مواقف کا حوالہ بلکہ طعنہ دے رہے ہیں)قال شیخ الإسلام ابن تیمیۃ: وإن کان الفاعلون لذلک یرون أن مقصودھم الأمر بالمعروف والنھي عن المنکرکالذین خرجوا بالحرۃ وبدیر الجماجم علی یزید والحجاج وغیرھما لکن إذا لم یزل المنکرإلا بما ھو أنکر منہ صار إزالتہ علی ھذا الوجہ منکراوإذا لم یحصل المعروف إلا بمنکر مفسدتہ أعظم من مصلحۃ ذلک المعروف کا ن تحصیل ذلک المعروف علی الوجہ منکرا) اگرچہ ایسا (حکمرانوں کے خلاف بغاوت) کرنے والے حضرات کی رائے یہ ہوتی ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، جیسے وہ لوگ جو واقعہ حرہ اور دیر جماجم وغیرہ میں یزید اور حجاج کے خلاف نکلے تھے، لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب منکر کاازالہ اس سے بڑے منکر کے بغیر ممکن نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں اس پہلے منکرکا ازالہ کرنا منکر ٹھہرے گا اور اگر ایک معروف کا حصول کسی ایسے منکر کے بغیر ممکن نہ ہو جس منکر کا شر اس معروف سے زیادہ ہو تو پھر اس معروف کا حصول منکر قرار پائےگا۔(منھاج السنۃ النبویۃ4:536)
ایک دوسرا سوال بھی پیدا ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ کیا کچھ لوگ اپنے مفادات کی خاطر حکومتوں کے سیاہ کوسفید نہیں کہتے ہیں؟ کیا ہم سرے سے ان کے وجود کے منکر ہیں؟ تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ جی نہیں! ہم اس امکان کو رد نہیں کرتے، ایسے افراد کا وجود عین ممکن ہے، دنیادار کہاں نہیں ہوتے؟ لیکن ایسے بعض افراد کی آڑ میں سارے لوگوں پر ایک ہی حکم لگادینا نہ حقیقت بیانی ہے اور نہ قرین انصاف ہے۔ اس امکان کے باوجود ہم سلفی اہل علم اور دعاۃ کے موقف کو شرعی اور واجب مانتے ہوئے یہ حدیث پیش نظر رکھتے ہیں (فمن کانت ھجرتہ إلی اللہ ورسولہ فھجرتہ إلی اللہ ورسولہ ومن کانت ھجرتہ إلی دنیا یصیبھا أو امرأۃ ینکحھا فھجرتہ إلی ما ھاجر إلیہ)جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف تھی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہےاور جس کی ہجرت دنیا کی طرف ہو یا کسی خاتون کی محبت میں ہو تو اس کی ہجرت اسی سمت ہے جس کی خاطر اس نے ہجرت کی۔(متفق علیہ)
یہ صرف چند وضاحتیں ہیں مکمل ردنہیں، ورنہ لکھنے پڑھنے کو بہت کچھ ہے اور پوچھنے کے سوالات بھی بہت ہیں۔ کم ازکم یہ سوال تو بنتا ہے کہ آپ سے پوچھ لیں اقامت دین کی جس فکر کو بنیاد بنا کر یہ سارا بکھیڑا کھڑا کیا ہوا ہے خود آپ کی جماعت اس باب میں اپنے وجود سے لے کر آج تک کس حد تک اپنا قبلہ درست رکھنے میں کامیاب ہوپائی ہے۔ یہی جماعت جب کشمیر میں ہے تو اس کا حال کیا ہے اور یہی جب پاکستان پہنچی تو کس سانچے میں ڈھل گئی اور اب وہاں کس حال میں جی رہی ہے؟ اخوان مصر میں تھے تو کیا تھے، سعودی عرب میں پہنچے تو کیا ہوئے؟ اور وہی اب اسرائیلی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں اور بسااوقات حزب اختلاف کے بجائے حکمران طبقہ کی ہمنوائی میں بیٹھتے ہیں تو کیا ہوجاتے ہیں؟؟ شناخت کے بحران سے کون دوچار ہے؟؟
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
مکمل تحریر پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ صد سالہ گدلائی تاریخ پر چودہ صدیوں کی روشن اور شفاف تاریخ نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے شب خون مارا ہے۔
اللہ رب العالمين شیخ عبد الحسیب مدنی حفظہ اللہ کو اس بے مثال تحریر لکھنے کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ آمین