مرشد پبلیکیشن، نئی دہلی کے پروپرائٹر عزیزم مولانا عبد القدیر اکثر و بیشتر کسی نہ کسی کتاب کا اور بالخصوص نئی کتاب کا اشتہار یا اعلان سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی ایک پوسٹ سے ایک نئی کتاب ’’ساکنانِ قریۂ جاں‘‘ کا علم ہوا۔ تین وجوہات سے اس کتاب کو پڑھنے کے لیے دل مچلنے لگا۔ سب سے پہلے تو کتاب کے نام نے دل میں اتھل پتھل مچا دی ۔ دوسرے اس کے مصنف شیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی صاحب کے نام نے، جو کہ ایک عالمی شہرت یافتہ بلند پایہ علمی شخصیت اور ہمارے بزرگ دوست ہیں، اپنی جانب کھینچا۔ تیسرے یہ کتاب دو علمی شخصیات مولانا محمد رفیع احمد عاقل مدنی اور شیخ محمد عزیر شمس کی یادوں کا گلدستہ ہے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی 35ویں کانفرنس کے دوسرے دن جب میں دہلی کے تاریخی رام لیلا میدان گیا تو سب سے پہلے مرشد پبلیکیشن کے اسٹال پر گیا اور پہنچتے ہی عبد القدیر سے اس کتاب کی فرمائش کر دی۔ یہ ان کی محبت کہ انھوں نے فوراً کتاب میرے ہاتھوں میں تھما دی۔ وہاں کتاب کے مصنف یعنی شیخ صلاح الدین مقبول احمد صاحب بھی موجود تھے۔ کتاب کے ساتھ اس ملاقات کو یادگار بنانے کے لیے ہم لوگوں نے ایک گروپ فوٹو کھنچوایا۔ وہیں کتاب کی سرسری ورق گردانی کی تو مقدمہ نگار کی حیثیت سے بزرگ صاحب قلم مولانا محمد ابوالقاسم فاروقی صاحب کے نام پر نظر پڑی۔ طبیعت باغ باغ ہو گئی۔ میں مولانا فاروقی صاحب کی انشاپردازی، تحریر کے ادبی رنگ و آہنگ، ذہن کی زرخیزی اور قلم کی جادوگری کا بہت پہلے سے مداح ہوں۔ مجھے ان کی کوئی بھی تحریر کہیں نظر آجائے تو پہلی فرصت میں پڑھتا ہوں۔ بعد نماز مغرب بوقت واپسی محترم فاروقی صاحب سے نیاز بھی حاصل ہو گیا۔ ہماری خوش قسمتی کہ اسی وقت ہمارے دیرینہ کرم فرما شیخ عبد المعید مدنی صاحب سے بھی شرف ملاقات حاصل ہو گیا۔ جب میں شام کے وقت گھر آیا تو شیخ صلاح الدین مقبول صاحب کے حرفے چند کے بعد مقدمہ پڑھا۔ اور پھر جب پوری کتاب کا مطالعہ کر لیا تو مقدمہ دوبارہ پڑھا۔ دراصل پہلی قرأت سے طبیعت کو سیری نہیں ہوئی تھی۔ یہاں میں ایک بات کہہ کے آگے بڑھوں گا۔ فاروقی صاحب نے شیخ صلاح الدین مقبول احمد، شیخ رفیع احمد عاقل اور شیخ عزیر شمس صاحبان کو ’’اساطین ثلاثہ‘‘ کہا ہے۔ ان کی اس ترکیب پر دو اور تثلیثات کی یاد آگئی۔ اپنے عہد کے معروف طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے عمیق حنفی، شمیم حنفی اور مظفر حنفی کو ’’اردو ادب کے احناف ثلاثہ‘‘ کہا ہے۔ میں نے اس ترکیب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نوائے اسلام کے مدیر مولانا عزیز عمر سلفی پر لکھے اپنے خاکے میں ادارہ نوائے اسلام کے تین کلیدی ارکان مولانا عزیز عمر سلفی، مولانا عبد الواجد فیضی اور مولانا افضل حسین کو ’’نوائے اسلام کے اصحاب ثلاثہ‘‘ لکھا ہے۔
بہرحال یہ میری بدقسمتی ہے کہ شیخ رفیع احمد مدنی سے تادم تحریر شرف نیاز حاصل نہیں ہو سکا۔ البتہ ان کی کتاب ’’مولانا عبد السلام مدنی حیات و خدمات‘‘ کے توسط سے غائبانہ تعارف ہے۔ ہاں شیخ محمد عزیر شمس سے دو تین ملاقاتیں رہی ہیں لیکن وہ بھی سرسری بلکہ سرِ راہے۔ ہاں میں ان کے علمی مقام کے بارے میں لوگوں سے سنتا رہا ہوں۔ ان سے جب بھی ملاقات ہوئی تو ان کے انکسار اور بے تکلفی کے ساتھ ملنے کے انداز نے بہت متاثر کیا۔ جب ان کے اچانک سانحۂ ارتحال کی خبر ملی تو مجھے بھی احباب جماعت کی طرح بے انتہا دکھ ہوا اور ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ نظروں کے سامنے گھوم گیا۔ ان کے انتقال کے بعد کچھ لوگوں نے ان پر کوئی یادگاری مجلہ یا کتاب شائع کرنے کا منصوبہ بنایا اور مجھ سے بھی کچھ لکھنے کی فرمائش کی۔ لیکن چونکہ میں اس طرح ان سے واقف نہیں رہا کہ کچھ لکھ سکوں لہٰذا میں نے معذرت کر لی۔ ایک بار میں نے کسی علمی موضوع پر ان کے وہاٹس ایپ پر ان سے استفسار کیا تھا جس کا انھوں نے مفصل جواب عنایت فرمایا تھا۔ وہ جواب ان کی ہینڈ رائٹنگ میں تھا۔ لیکن میری کوتاہی کہ میں اس گراں قدر علمی سرمائے کی حفاظت نہیں کر پایا۔ جس کا مجھے بے حد افسوس ہے اور تازندگی رہے گا۔
میں نے شیخ صلاح الدین صاحب کی کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو نصف سے زائد کتاب کب ختم کر لی پتہ ہی نہیں چلا۔ ’’ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا‘‘ والا معاملہ تھا۔ (اس کو آپ تھوڑی سی تحریف کے ساتھ ’’ذکر ان پری وشوں کا اور پھر بیاں ان کا‘‘ پڑھیے تو لطف دوبالا ہو جائے گا)۔ اس طرح میں نے دو نشستوں میں پونے دو سو صفحات کی کتاب مکمل کر لی۔ شیخ صلاح الدین مقبول احمد صاحب قلم ہیں، کثیر التصانیف ہیں اور منفرد انداز تحریر کے مالک ہیں۔ ان کی گفتگو جتنی شگفتہ ہے اتنی ہی شگفتہ ان کی تحریر بھی ہے۔ یوں تو ان کی پچاس سے زائد کتابوں میں سے بیشتر عربی زبان میں ہیں لیکن وہ جس طرح عربی میں معیاری کتاب تصنیف کرنے پر قاد رہیں اسی طرح اردو میں بھی ہیں۔ جب انھوں نے مجھے بتایا کہ انھو ں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی خود نوشت ’’تذکرہ‘‘ کا عربی میں ترجمہ کیا ہے تو میں دم بخود رہ گیا۔ ’’تذکرہ‘‘ صرف خودنوشت ہی نہیں بلکہ ایک تاریخ بھی ہے اور ایک ادبی کارنامہ بھی۔ مولانا آزاد نے کتاب کا بیشتر حصہ اپنے خاندان کے تذکرے اور تاریخ نویسی کے لیے وقف کر دیا ہے۔ اپنے بارے میں صرف چند صفحات میں اظہار خیال کیا ہے اور وہ بھی خالص ادبی انداز میں۔ جو کچھ لکھا ہے اشاروں کنایوں میں ہے۔ کم از کم اس حصے کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ کرنا آسان نہیں۔ لیکن یہ شیخ صلاح الدین مقبول احمد صاحب کی علمیت، ترجمہ نگاری کے فن اور تخلیقی و تصنیفی صلاحیت و لیاقت کا کمال ہے کہ انھوں نے اس ضخیم اور مشکل کتاب کو عربی کے قالب میں ڈھالا۔ انھوں نے از راہ عنات اس کا ایک نسخہ مرحمت فرمایا۔ لیکن چونکہ میں بدقسمتی سے عربی زبان سے نابلد ہوں اس لیے میں نے اسے ایک علمی شخصیت کو تحفتاً پیش کر دیا۔ میں نے شیخ صلاح الدین صاحب کی دیگر کئی کتابیں اردو میں پڑھی ہیں جو نہایت علمی و تاریخی موضوعات پر ہیں۔ چونکہ میں ایک کم علم آدمی ہوں اس لیے ان کتابوں سے زیادہ فیض نہیں اٹھا سکا۔ لیکن زیر تذکرہ کتاب نے تو دل موہ لیا۔ یہاں یہ ذکر بھی کرتا چلوں کہ انھوں نے مولانا آزاد سے متعلق میری ایک کتاب ’’مولانا ابوالکلام آزاد: کچھ نئے گوشے‘‘ پر مقدمہ تحریر فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ہمارے والد صاحب کے فکر و فن پر میری کتاب ’’انجم تاباں‘‘ کا مقدمہ لکھا ہے۔ میں نے اپنی ایک کتاب ’’احوال صحافت‘‘ کا انتساب ان کے نام کیا ہے اور خاکوں سے متعلق اپنی کتاب ’’نقش بر سنگ‘‘ میں میں نے ان پر ایک خاکہ نما مضمون بھی لکھا ہے۔ مزید برآں میں نے ان کی مسدس پر ایک تفصیلی تبصرہ کیا تھا جو متعدد اخباروں میں شائع ہوا تھا۔ شیخ صاحب نے میری ایک کتاب ’’مولانا محمد عثمان فارقلیط: حیات و خدمات‘‘ کی اشاعت میں دست تعاون دراز کیا تھا۔ میں ان کی محبت و شفقت کے لیے ان کا شکر گزار ہوں۔
’’ساکنان قریۂ جاں‘‘ ممدوحین کی خوبصورت یادوں کا حسین مرقع تو ہے ہی ایک تاریخ بھی ہے۔ اس کے آئینے میں متحدہ گونڈہ، بستی (بستی، بلرام پور، سدھارتھ نگر اور سنت کبیر نگر) کے اہل حدیث علما کے چہرے نظر آئیں گے اور ان اضلاع میں مکاتب اسلامیہ و جامعات کے قیام کی تاریخ بھی ملے گی۔ ان تمام اضلاع کی تاریخِ اہل حدیث کا اختصار بھی ملے گا۔ آپ تاریخِ اہل حدیث کے ذکر کا اندازہ اسی سے لگائیے کہ کتاب کا آغاز تحریک سیدین سے ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جماعت سیدین کے میر منشی مجاہد کبیر مولانا سید جعفر علی نقوی بستوی جب معرکۂ بالاکوٹ کے بعد اپنے وطن واپس ہوئے تو بستی سے متصل مغرب میں ضلع گونڈہ (اب بلرام پور) اور مشرق میں اس سے متصل ضلع گورکھپور (یوپی) بلکہ مشرق میں اور آگے بڑھ کر صوبہ بہار کے بعض اضلاع اور متصل علاقۂ ترائی (نیپال) تک اپنی دعوتی تگ و تاز کا دائرہ وسیع کر دیا۔ انھوں نے اوسان کوئیاں میں مظہر العلوم کے نام سے 1862 میں مدرسہ قائم کیا اور (اس سے قبل) 1854 میں مولانا عباد اللہ یوسف پوری (تلمیذ میاں سید نذیر حسین) کے زیر اہتمام مدرسہ دار الہدیٰ یوسف پور کی بنیاد رکھی۔ تعلیم و تربیت کے ذریعے ان آبادیوں کو دعوت توحید و سنت سے روشناس کرایا۔ اسی دور میں مشہور محدث و داعی مولانا محمد اسحق بانسوی نے بھی تعلیم کے ذریعے علاقے کی اصلاح کی۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے بستی و گونڈہ اضلاع میں میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے تلامذہ کا ذکر کیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اسلاف کے اخلاف کے اسمائے گرامی بھی پیش کر دیے ہیں۔ اس کے بعد بیسویں صدی کے نصف آخر میں ان اضلاع میں مع ترائی، نیپال کے جو علما مدارس کی نظامت و صدارت، دعوت و خطابت اور تصنیف و تالیف کے میدان میں زیادہ معروف و مشہور ہوئے ان کا بھی تذکرہ کر دیا ہے۔
بیسویں صدی کے نصف آخر کی تاریخ اہل حدیث کا ذکر ہو اور نوگڑھ کانفرنس کا ذکر نہ آئے یہ کیسے ممکن ہے۔ لہٰذا اس کتاب میں اس کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ یہ کانفرنس 1961 میں منعقد ہوئی تھی۔ ہم لوگ بچپن سے ہی اس کی شان و شوکت کا تذکرہ سنتے آئے ہیں۔ شیخ صلاح الدین نے اس بارے میں ایک بڑی دلچسپ اطلاع دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’راقم نے اپنے دادا (عبد الرزاق نائب) سے سنا کہ ان کی ڈیوٹی مطبخ میں تھی۔ روٹی بنانے کے لیے آٹا پیروں سے گوندھا جاتا تھا۔ آس پاس کے اہل حدیث عوام میں کانفرنس کو دیکھ کر ایسی خوشی پیدا ہو گئی تھی کہ اپنے گھر کے دوسرے ان افراد کو اس میں شریک ہونے کے لیے فوراً حاضر ہونے کو کہتے تھے جو گھر کی رکھوالی کی وجہ سے نہیں جا سکے تھے۔ دادا جان خود گھر واپس آئے اور ہمارے والد کو کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے بھیجا۔‘‘
حالانکہ اس وقت نہ نقل و حمل کے ذرائع تھے، نہ راستے تھے، نہ کوئی آسانی تھی۔ پھر بھی کانفرنس کے شرکا کا کہنا ہے کہ اس میں ایک لاکھ اہل حدیث افراد شریک ہوئے تھے۔ انتہائی غیر ترقی یافتہ ماحول میں اور بے انتہا صعوبتیں اٹھا کر بھی اس وقت اتنے لوگ پہنچ گئے تھے جو کہ حیرت انگیز واقعہ ہے۔ اس کی شان و شوکت کا یہ عالم تھا کہ آج تک اس کا ذکر خیر ہوتا ہے۔ بہرحال اس کانفرنس میں ہمارے والد حضرت مولانا حامد الانصاری انجم بھی غالباً ذمہ دار یا رضاکار کی حیثیت سے موجود رہے اور سعودی سفیر کی موجودگی میں اپنی تیس بند کی ولولہ انگیز نظم ’’وقت کی پکار‘‘ سنائی تھی۔ اس نظم کا اتنا اثر ہوا تھا کہ حضرت مولانا عبد الوہاب آروی نے ’’جریدہ ترجمان‘‘ میں ایک مضمون میں اس کا ذکر کیا اور لکھا کہ اس نظم کو سن کر میرے آنسو نکل آئے تھے۔ آج بھی نوگڑھ کانفرنس کے ذکر کے ساتھ وقت کی پکار کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ شیخ صلاح الدین صاحب نے بہت اچھا کیا کہ اس نظم کے کچھ بند کانفرنس کے ذکر کے ضمن میں شامل کر دیے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ کانفرنس میں مولانا عبد الغفور بسکوہری نے سعودی سفیر یوسف الفوزان کی موجودگی میں اپنا طویل عربی قصیدہ پڑھا اور ان کے لائق فرزند مولانا ذاکر ندوی نے قصیدے کا منظوم اردو ترجمہ پیش کیا۔ کتاب میں علیٰ الترتیب عربی اور اس کا منظوم اردو ترجمہ پیش کر دیا گیا ہے۔
اب یہاں سے شیخ رفیع احمد عاقل کے ذکر خیر کا آغاز ’’میرے ویرانے سے کوسوں دور ہے تیرا وطن‘‘ کے زیر عنوان ہوتا ہے۔ لیکن ابھی ان کا تذکرہ ذرا رک رک کر کیا جا رہا ہے۔ درمیان میں دوسروں کا ذکر آتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈا نگری کا بھی خوب اور دلچسپ تذکرہ موجود ہے۔ اپنے ادارے کے لیے خطیب الاسلام اور ان کے والد کی فراخ دلی اور اصراف سے بچنے کی ان کی عادت کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں کئی دلچسپ واقعات بھی بیان ہوئے ہیں جن کو پڑھ کر بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے۔ اسی تسلسل میں احیائے سنت میں اہل حدیث علما و افراد کی کاوشوں کا بھی مخلصانہ تذکرہ ہے۔
شیخ رفیع احمد عاقل کے سوانح بیان کرنے میں جہاں بہت سے لوگوں کی حیات و خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے وہیں شیخ صلاح الدین صاحب نے خود کو بھی موضوع گفتگو بنایا ہے اور ایسا فطری ہے۔ یہ کوئی معیوب بات بھی نہیں ہے۔ سوانح نگار جب صاحبِ سوانح کی زندگی پر روشنی ڈالتا ہے تو اس سے اپنے تعلقات کی نوعیت بھی بتاتے ہوئے چلتا ہے۔ اور پھر جب مولانا فاروقی صاحب نے ’’اساطینِ ثلاثہ‘‘ کہا ہے تو ظاہر ہے تینوں ستونوں کا ذکر ہوگا۔ مصنف نے نہ صرف شیخ رفیع احمد عاقل کے بچپن، ابتدائی تعلیم، جامعہ سلفیہ بنارس میں حصول تعلیم اور پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم کے حصول کے واقعات کو تفصیل سے بیان کیا ہے بلکہ لگے ہاتھوں جامعہ سلفیہ اور جامعہ اسلامیہ میں اپنی سرگرمیوں کا ذکر بھی شامل کر دیا ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ شیخ رفیع صاحب کے والد صاحب نے انگریزی تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن ان کو مدارس میں تعلیم حاصل نہ کرنے کا افسوس بھی رہا اور اسی لیے انھوں نے شیخ رفیع صاحب کو اسلامی تعلیم دلوائی۔ اسے آپ ان کے والد کی جانب سے اسلامی تعلیم کے عدم حصول کا کفارہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت اچھا، دانش مندانہ اور اور دور اندیشانہ فیصلہ تھا۔ ورنہ اگر ان کو بھی انگریزی تعلیم دلوائی گئی ہوتی تو ممکن ہے کہ وہ کسی بڑے عہدے پر فائز ہو جاتے لیکن پہلے فجی اور پھر آسٹریلیا میں انھوں نے جو دعوتی کام کیا اور اب تصنیف و تالیف کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں ان سے لوگ محروم رہ جاتے۔
آگے چل کر جامعہ رحمانیہ بنارس اور جامعہ سلفیہ کے اساتذہ و طلبہ کا بھی خوب ذکر ہے۔ انھوں نے اپنے رفقائے درس کو بھی فراموش نہیں کیا۔ انھیں بھی یاد رکھا جو دوست نوازی کی ایک اچھی مثال ہے۔ اس سلسلے میں کچھ ضمنی سرخیاں ملاحظہ فرمائیں: اساتذۂ جامعہ رحمانیہ بنارس، ہمارے رفقائے درس، جامعہ سلفیہ بنارس اور ہمارے اساتذۂ کرام، اساتذۂ کرام کی بعض خصوصیات، جامعہ سلفیہ میں داخلہ کی کشش، فارغین جامعہ کا مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ، سربرآوردہ فارغین جامعہ کی ناقص فہرست، رفقائے درس میں تحریر کی ابتدائی انگڑائیاں اور زمانۂ طالب علمی میں رفیع صاحب کی بعض خصوصیات و امتیازات۔
اس کے بعد انھوں نے رفیع احمد عاقل صاحب کے دار العلوم دیوبند میں داخلے کی تفصیل پیش کی ہیں۔ اس کا عنوان انھوں نے باندھا ہے ’’آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے۔‘‘ اس ضمن میں انھوں نے بتایا ہے کہ وہاں ان کی سلفیت طشت از بام ہو گئی اور انھیں درمیان سال میں ہی دار العلوم کو خیرباد کہنا پڑ گیا۔ اسی تسلسل میں سابقہ ادوار میں اہل حدیث طلبہ کے اخراج کی بھی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’پرانے اخبار و جرائد اور خود اہل حدیث طلبہ کے بیانات سے واضح ہو جاتا ہے کہ دیوبند میں ایسا معاملہ پیش آنا عجیب نہ تھا۔ کوئی کوئی سند کے لالچ میں اس گھٹن کو برداشت کر لیتا تھا اور کوئی اس آزمائش پر پورا نہ اتر کر اپنے آپ کو آزاد کر لیتا تھا۔‘‘
اس سلسلے میں انھوں نے کئی لوگوں کی شہادتیں بھی پیش کی ہیں۔ جنوری 1954 میں تقریباً ساٹھ طلبہ کا اخراج ہوا تھا جس نے بقول ان کے سلفیان ہند کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جامعہ سلفیہ کے قیام کی بات تو بہت پہلے سے ہوا کرتی تھی لیکن اس واقعہ نے اس میں مزید تیزی پیدا کر دی۔ لہٰذا جامعہ سلفیہ کے قیام کے اسباب میں اسے بھی شمار کیا جاتا ہے۔
دار العلوم دیوبند سے اہل حدیث طلبہ کے اخراج پر جرائد کا احتجاج بھی درج کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے معلومات افزا تفصیلات پیش کی ہیں اور ’’سہ روزہ دعوت‘‘ میں شائع خبر اور ’’بزم ارجمنداں‘‘ کے حوالے سے اخبار ’’الاعتصام‘‘ میں شائع مولانا محمد اسحق بھٹی کا مضمون شامل کیا گیا ہے۔ یہاں انھوں نے مناسب سمجھا اور اچھا ہی کیا کہ قاری طیب صاحب کا وضاحتی بیان بھی شامل کر دیا لیکن اس تازیانے کے ساتھ کہ ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘۔ کتاب میں طلبہ کے اخراج پر مولانا رئیس احمد جعفری کا دلچسپ تبصرہ بھی پڑھنے کو ملا۔ مولانا جعفری نے جریدہ ’’ریاض‘‘ میں شائع ان کے اداریے کو بھی پیش کیا ہے جس کا عنوان ہے ’’دیوبند کس طرف…؟، ایں راہ کہ تو می روی بہ ترکستانست‘‘۔ یہاں ایک بہت دلچسپ نظم بھی شامل کی گئی ہے جو اہل حدیث طلبہ کے اخراج پر مولانا مجاز اعظمی نے لکھی تھی۔ یہ نظم ’’جریدہ ترجمان‘‘ کے اپریل 1954 کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ کتاب میں شامل اس نظم کا پہلا شعر ہے:
کچھ طالبانِ علم مجھے کل نظر پڑے
معصومیت سے دیکھا کہ منہ ان کے بند ہیں
اور آخری شعر ہے:
پوچھا جومیں نے کون ہو تو آئی یہ صدا
ہم مجرمین ’مدرسۂ دیوبند‘ ہیں
یہ نظم میر کی ایک غزل کی بحر میں اور اکبر الہ آبادی کے رنگ میں ہے۔ اسی لیے اس کے پڑھنے کا مزا دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہو گیا ہے۔ میر کی ایک غزل میں ایک قطعہ ہے:
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستہ سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسی کا سرِ پرغرور تھا
شیخ صلاح الدین مقبول صاحب نے بھی اس موضوع پر مجاز صاحب کے طرز پر ایک نظم کہی تھی جس کے کچھ اشعار درج کیے گئے ہیں۔ البتہ اس کو شیخ صاحب نے تک بندی قرار دیا ہے۔
جامعہ سلفیہ سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلے کی تفاصیل بھی دلچسپ ہیں۔ شیخ رفیع صاحب کو الٹی چال چل کر دیوبند جانے کا خمیازہ یوں بھگتنا پڑا کہ وہ شیخ صلاح وغیرہ صاحبان سے ایک سال پیچھے ہو گئے۔ بہرحال اس ضمن میں بھی کافی معلومات افزا باتیں ہیں۔ 1980 میں حرم مکی میں جو خون آشام حادثہ پیش آیا تھا اس کی بھی تفصیل ہے۔ اس وقت کچھ طلبہ جن میں شیخ صلاح صاحب بھی شامل تھے، رابطہ عالم اسلامی کے پروگرام میں شرکت کی غرض سے مکہ گئے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے ایرانی وفود سے ملاقات بھی کی تھی اور ان کی ضیافتوں سے فیضیاب بھی ہوئے تھے۔ لیکن جب تک اس کی تحقیق نہیں ہو گئی کہ اس حادثے کے ذمہ داران کون لوگ تھے، دنیا یہی سمجھتی رہی کہ یہ ایرانیوں کی کارستانی ہے۔ اس خیال کے آتے ہی ان طلبہ کی حالت غیر ہو گئی۔ کیونکہ ان لوگوں نے ایک ہوٹل میں ایرانیوں کی ضیافت قبول کی تھی۔ یہ لوگ جامعہ اسلامیہ واپس چلے گئے اور جب یہ انکشاف ہوا کہ اس میں ایرانی ملوث نہیں ہیں تب جا کر ان کی جان میں جان آئی۔ ورنہ ان کو یہی اندیشہ تھا کہ اگر ایرانی ملوث پائے گئے تو ان لوگوں کی بھی خیر نہیں ہوگی۔
یہاں ایک بات رہ گئی جس کا ذکر بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا کہ جامعہ سلفیہ سے لے کر جامعہ اسلامیہ کی تفاصیل میں شیخ صلاح الدین اور شیخ رفیع عاقل کے ساتھ ساتھ شیخ عزیر شمس کا بھی تذکرہ ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ جہاں جس واقعے کے تذکرے میں ان کے حوالے کی ضرورت پڑی وہاں انھوں نے ان کا حوالہ دیا اور ان کے عادات و اطوار کو بھی بیان کر دیا۔ اس کا بھی وضاحت کے ساتھ ذکر ہے کہ جہاں شیخ رفیع صاحب مطالعۂ کتب کے بے حد شوقین تھے وہیں شیخ عزیر شمس کی دلچسپی شروع سے ہی مخطوطات کی طرف رہی ۔
یہ دلچسپ حقیقت ملاحظہ فرمائیں کہ جامعہ سلفیہ سے لے کر جامعہ اسلامیہ تک برسوں ان تینوں کا جلوت و خلوت میں ساتھ رہا لیکن جب میدان عمل میں سرگرم ہونے کا موقع آیا تو قسمت نے تینوں کو تین جگہ لا پٹکا۔ تقدیر نے شیخ رفیع عاقل کو فجی بھیج دیا، شیخ عزیر شمس کو مکہ اور شیخ صلاح صاحب کو کویت۔ لیکن یہ مسافتیں ان تینوں کو ایک دوسرے سے دور نہیں کر سکیں۔ جو رشتہ جامعہ سلفیہ میں قائم ہوا اور جو جامعہ اسلامیہ میں مضبوط ہوا وہ رشتہ منقطع نہیں ہوا۔ شیخ عزیر شمس نے تادم مرگ اس کو نبھایا اور باقی دونوں حضرات اسے اب بھی نبھا رہے ہیں۔ فجی کے ذکر میں مولانا عبد السلام رحمانی کا ذکر ضروری تھا ورنہ بات ادھوری رہ جاتی۔ شیخ عبد السلام رحمانی اور شیخ رفیع عاقل نے اس دور دراز کے ملک میں مسلک اہل حدیث کی جس انداز میں ترویج و تبلیغ کی اور عوام کو بدعات و گمراہیوں کے دلدل سے نکالا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
لیکن بہرحال پھر قسمت نے شیخ رفیع عاقل کو آسٹریلیا پہنچا دیا جہاں وہ تصنیفی و تالیفی سرگرمیوں میں بھی مصروف ہیں اور تجارتی سرگرمیوں میں بھی۔ حالانکہ اب ان کی تجارتی سرگرمیوں کا بار ان کے فرزندوں نے اپنے دوش پر اٹھا رکھا ہے۔ شیخ رفیع صاحب کی عائلی زندگی کا بھی ذکر آگیا ہے اور دوسری برادریوں میں شادی کی رسم کے خلاف تنقید بھی کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ شیخ رفیع صاحب کی پہلی اہلیہ کا بہت جلد انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے فجی میں دوسری شادی کر لی۔ اس حوالے سے ’’عدت‘‘ گزارنے کے ایک واقعے کا دلچسپ انداز میں تذکرہ ہے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ خواتین کو شوہر کے انتقال کے بعد عدت گزارنی ہوتی ہے۔ لیکن کیا بیوی کے انتقال پر مردوں کو بھی عدت گزارنی چاہیے؟ اسے جاننے کے لیے اس کتاب کے اس باب کا مطالعہ ضرور کریں۔
یہ کتاب دراصل دو مضامین کا مجموعہ ہے۔ پہلا مضمون شیخ رفیع عاقل صاحب پر اور دوسرا شیخ عزیر شمس صاحب پر ہے۔ جیسا کہ مولانا ابوالاقاسم فاروقی صاحب نے لکھا ہے کہ پہلا مضمون 106 صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے کلیدی کردار رفیع عاقل کی ذات گرامی ہے۔ آپ کی شخصیت، سوانحی حالات اور دعوتی و علمی خدمات کے تابندہ نقوش پورے مضمون میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ شیخ عزیر شمس سے متعلق مضمون کم صفحات کا احاطہ کرتا ہے یعنی تقریباً چالیس صفحات۔ اس مضمون میں بھی صاحب سوانح کے ساتھ ساتھ دیگر شخصیات کا ذکر جمیل موجود ہے۔ اس مضمون کی کچھ اہم ضمنی سرخیاں ملاحظہ فرمائیں: وفات کی خبر، نصف صدی کی رفاقت، ڈاکٹر بکر بن عبد اللہ ابو زید، یادش بخیر، ڈاکٹر بکر بن عبد اللہ ابو زید کا علمی منصوبہ اور فاضل گرامی کی اس سے وابستگی، شیخ عزیر شمس کی تحقیقی حصہ داری، فاضل گرامی کا غیر مطبوعہ علمی ترکہ اور اس کی حفاظت، وفات سے ایک ہفتہ قبل کی تحریر، معیار الحق، تراجم اہل حدیث، اقربا و متعلقین سے گزارش اور پھر کچھ متفرقات حدیث دوستاں۔ شیخ عزیر شمس کی سوانح میں بھی متعدد واقعات کو بیان کیا گیا ہے جن میں سے کچھ انتہائی دلچسپ ہیں تو کچھ نصیحت آموز۔
انھوں نے شیخ عزیر شمس کی وفات کی خبر کا بڑے دلدوز انداز میں ذکر کیا ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری اور شیخ عزیر شمس کی وفات میں عجیب مشابہت رہی۔ ڈاکٹر صاحب صوبائی جمعیت ممبئی کی دین رحمت کانفرنس میں ’’قضا و قدر‘‘ کے موضوع پر خطاب کرکے اسٹیج پر بیٹھے۔ غشی طاری ہوئی، ہاسپٹل لے جایا گیا اور جاں بحق ہو گئے۔ شیخ عزیر شمس اپنی رہائش گاہ (مکہ مکرمہ) پر چند مبتدی طلبا کو کچھ علمی وعظ و نصیحت فرما رہے تھے۔ عشا کی اذان ہوئی، وضوکے لیے اٹھتے ہوئے لڑھک گئے پھر جاں بر نہ ہو سکے۔‘‘
بہرحال یادوں کا یہ گلدستہ تین عزیز دوستوں کی دلچسپ و دل نواز کہانی ہے۔ ایسے تین عزیز دوست جو ہم درس، ہم سبق، ہم پیالہ و ہم نوالہ رہے اور جن کی دوستی دوسروں کے لیے قابل رشک ہے۔ میں اس شاندار کتاب کی تصنیف اور اس کی اشاعت کے لیے شیخ صلاح الدین مقبول احمد صاحب اور اس کی خوبصورت چھپائی کے لیے مرشد پبلیکیشن کو مبارکباد دیتا ہوں۔ میں یہاں یہ عرض کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص گونڈہ بستی کے اہل حدیث علما اور جامعہ سلفیہ کے فارغین پر کوئی ریسرچ کرنا چاہے تو یہ کتاب اس کے لیے گراں قدر حوالہ ثابت ہوگی۔
نوٹ: کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں: عبدالقدیردہلی-9990674503
آپ کے خوبصورت تبصرے نے کتاب کو پڑھنے کے لئے مجبور کر دیا ہے, پچھلے دس سالوں میں اردو کے کچھ مضامین کے علاوہ کوئی مکمل کتاب نہیں پڑھی ہے بنیادی وجہ موبائل
بہرحال مجھے تو آپ کا تبصرہ ہی بہت پسند آیا ایسے لگ رہا ہے کہ آدھی کتاب پڑھ لی
اللہ۔مرحومین کی مغفرت فرمائے ۔
یہ گرانقدر قدر تبصرہ واقعی کتاب پڑھنے پر مجبور کر دے رہا ہے۔۔