ٹھیک ہے، چھوڑئیے تکرار، اٹھا لیتے ہیں
آپ کہتے ہیں تو اِس بار اٹھا لیتے ہیں
منتظر ہیں وہ لگاتار، اٹھا لیتے ہیں
کچھ نہ بولو بخدا یار، اٹھا لیتے ہیں
اِس لیے لوگ ہیں خاموش کہ اُن کے آگے
جو کریں جرأتِ اظہار اٹھا لیتے ہیں
اُن کو معلوم ہے یہ کچھ بھی نہیں بولیں گے
اِس لیے دو کی جگہ چار اٹھا لیتے ہیں
اِس قدر ترسے ہوئے ہیں کہ کہیں پر ہم کو
ایک ذرّہ بھی ملے پیار اٹھا لیتے ہیں
بے گناہی پہ نہ اِتراؤ کہ اٹھانے والے
بے گنہ ہو کہ گنہ گار، اٹھا لیتے ہیں
نام تو چھوڑئیے کپڑوں کی بنا پر حاتؔم
وہ ہمیں بول کے غدار، اٹھا لیتے ہیں
آپ کے تبصرے