رواں ماہ دسمبر (2024ء) کی 4 اور 5 تاریخ کو جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں میں ایک دو روزہ سیمینار بعنوان “مصارف زکاة” منعقد ہوا جس میں راقم سطور کو بحیثیت سامع شرکت کا موقعہ ملا اور اخیر میں تاثرات کے اظہار کے لیے موقعہ بھی دیا گیا۔ جس کے لیے میں اس سیمینار کی مجلس انتظامیہ بالخصوص دکتور محمد نسیم عبدالجلیل مدنی حفظہ اللہ کا شکر گزار ہوں۔
جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں کے سرپرست شیخ ارشد مختار حفظہ اللہ اور آپ کے رفقاء کی پوری ٹیم اس بات کے لیے ہم سب کی مبارکباد اور خصوصی شکریہ کی مستحق ہے کہ وقت کے ایک انتہائی حساس اور نازک مسئلہ پر گفتگو کا آغاز فرمایا۔ فجزاهم الله خير ما يجزي به عباده المصلحين۔
اس سیمینار سے متعلق متعدد اندیشوں سے پرے مجھے تین باتیں عرض کرنی ہیں:
(١)اس سیمینار نے زکات کے مصارف ثمانیہ کی وضاحت خالص علمی بنیادوں پر کرنے اور اس سلسلے میں بعض متأخر و معاصر فقهاء کے توسع کا علمی بنیادوں پر جائزہ لینے کی بڑی ہی کامیاب کوشش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ فقہاء کے توسع کا یہ معاملہ بھی توسط چاہتا ہے ایک طرف فقہاء کو چاہیے کہ وہ نصوصِ شریعت اور فہم سلف کی روشنی میں جس قدر گنجائش نکل سکتی ہو اس گنجائش کو نہ صرف باقی رکھیں بلکہ اس راہ سے امت کے لیے حتی الوسع آسانی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و سلم (لقد حجرت واسعا) کو پیش نظر رکھیں۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ کی یہ نصیحت کس قدر عظیم ہے (إنَّما العلمُ عندنا الرُّخصةُ مِن ثِقَةٍ، فأما التشديدُ فيُحسِنُه كُلُّ أحدٍ) حقیقی علم یہی ہے کہ ایک مستند عالم دین حتی الوسع رخصت نکالے ورنہ سختی کرنا تو ہو ہر کوئی کرسکتا ہے۔ [آداب الفتوى للنووي، ص:38]
اور دوسری طرف یہ توسع “درأ المفاسد” يا “جلب المصالح” کے نام پر یا کبھی “مقاصد شریعت کی روشنی میں اجتہاد” کے نام پر اس حد تک نہ چلا جائے کہ پھر نصوص کا تقدس اور فہم سلف کے حدود و قیود پامال ہوں، اور توسع کا یہ مسئلہ تتبع الرخص کے اس مذموم مقام تک جا پہنچے جس کے بارے میں بعض سلف نے کہا ہے (من تتبع الرخص تزندق) کہ جو ہمیشہ رخصتوں کی پیچھے پڑے گا انجامِ کار ایک دن بے دین ہی ہوجائے گا۔ توسع کا یہ درجہ شرع کی پابندی کے لبادے میں ہوائے نفس کی پیروی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایک فقیہ، مجتہد یا مفتی ہمیشہ اسی دوراہے پر کھڑا ہوتا ہے لہذا سوچ سمجھ کر قدم بڑھائے اور ہمیشہ اتباع کو پیش نظر رکھے۔
(٢)اس سیمینار نے زکات کے مصارف میں ہونے والی بے اعتدالیوں، (جن کا فقہی اختلاف سے تعلق نہیں ہے) بلکہ زکات کے مال کو غلط اور ناجائز طریقوں سے کھانے والے بہت ساروں کی بڑی جرأت کے ساتھ خوب خوب نقاب کشائی کی۔ ساتھ ہی بعض ایسی صورتوں پر بھی روشنی ڈالی جہاں ایک شخص انجانے زکات کا مال ناحق کھانے والوں میں شامل ہوسکتا ہے۔ یہ پہلو اس سیمینار کا سب سے نمایاں اور اہم پیغام رہا اور اگر یہ کہوں کہ یہی اصل مقصود بھی تھا تاکہ حق حقدار ہی کو ملے اور لوگ ناحق کسی کا مال نہ کھائیں تو بے جا نہ ہوگا۔
(٣)سیمینار کی تیسری نمایاں بات تھی کہ ایک مسئلہ نے سیمینار کے اندر اور باہر دونوں جگہ ہلچل مچائی اور وہ مسئلہ یہ تھا کہ مدارس اور دعوتی مراکز بنیادی طور پر مصارف زکات میں سے نہیں ہیں۔ باحثین نے مدارس اور مراکز کے سلسلے میں جہاں اس موقف کو مستند حوالوں سے مدلل کرکے پیش کرنے کی کوشش کی وہیں درج ذیل دو اہم نکات بھی نمایاں کیے:
أ. مدارس و دعوتى مراکز کے بنیادی طور پر مصارف زکات میں سے نہ ہونے کے باوجود وہ کونسی مشروع و جائز صورتیں ہیں جن میں ان مدارس و مراکز سے متعلق افراد و امور پر زکات خرچ ہوسکتی ہے۔
ب۔ اگر مدارس و مراکز مصارف زکات میں سے نہیں ہیں تو پھر ان کی مالی مدد اور مادی ضروریات کو پورا کرنے کے راستے کیا ہیں؟ باحثین نے اس سلسلے میں ایک طرف اس امر کی تاکید بھی کی کہ ان دونوں کی مالی ضرورت کو پورا کرنا امت کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور دوسری طرف متعدد شرعی راستے سجھائے اور ذاتی مشورے بھی دیے کہ ان کے مادی مسائل کے حل کے وسائل کیا ہوسکتے ہیں اور بدیل کیا۔
اس تیسری بات سے متعلق مزید یہ بھی عرض کرنا ہے کہ “في سبيل الله” کے مصرف کی وضاحت کے دوران باحث نے اپنی بات دلائل کی روشنی میں رکھی اور بتلایا کہ اس سے مراد صرف جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ تاہم یہ بات ملحوظ رہے کہ ضروری نہیں کہ آپ باحث کی رائے اور ترجیح سے کلی اتفاق کریں، خود راقم نے ان کی رائے (مصارف زکات میں “في سبيل الله” کی مد عام معنی میں نہیں ہے) سے بنیادی طور پر اتفاق کے باوجود مجلس ہی میں متعدد جزئیات سے متعلق اختلاف کیا، باحث نے اپنے طور پر جواب بھی دیا لیکن جواب راقم کی نظر میں شافی و کافی نہیں تھا۔ اور باحث کے جواب کے بعد مزید مناقشہ کی بروقت گنجائش بھی نہیں تھی۔ باحث نے اشارہ کیا کہ مزید بہت ساری جزئیات ان کی بحث میں مذکور ہیں جن کا وہ تذکرہ نہ کرسکے، ہوسکتا ہے یہ بحث مکمل سامنے آئے تو بہت سارے اشکالات دور ہوجائیں۔
فقہی مسائل میں جزئیات کا یہی معاملہ ہوتا ہے، آپ کو اختلاف رائے کا پورا حق حاصل ہوتا ہے جب تک آپ دلیل کی روشنی میں اختلاف کریں اور حق کی اتباع ہی آپ کا مقصود ہو، ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل علم اور متخصصین اس بحث کو مزید آگے بڑھائیں۔
البتہ دو باتوں کا خیال رکھیں:
أ. جب تک اختلاف فہم کا ہو نص کی مخالفت کا نہ اس میں امام شافعی کی طرف منسوب اس قول (قولي صواب يحتمل الخطأ، وقول غيري خطأ يحتمل الصواب) کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں اور فریق ثانی کی تضلیل نہ کریں اور نہ ہی انھیں أكل أموال الناس بالباطل جیسے جرم کا مجرم قرار دیں اور دوسرا اس بات کا خیال رکھیں کہ یہ سارے مناقشات اہل علم کے درمیان ہوں، عوام تک جہاں تک ممکن ہو اجتماعی فتوی ہی پہنچے۔ (ما أنت بمحَدِّثٍ قَومًا حديثًا لا تبلُغُه عُقولُهم إلَّا كان لبَعضِهم فِتنةً)
گزارش یہ ہے کہ ان بنیادی نکات کی روشنی میں اس سیمینار کے پیغام کو دور تک پہنچائیں۔
اللہ تعالی سبھی کو نیت میں اخلاص اور مواقف میں اتباعِ سنت کی توفیق ارزانی فرمائے۔ (ليهلك من هلك عن بينة ويحيى من حي عن بينة)۔
جزاكم الله خيرا شيخنا
بارك الله فيكم وجزاكم خيرا