نمی دیوار میں خانہ خرابی در میں ہے
عجیب درد کا موسم ہمارے گھر میں ہے
خبر نہیں ہے اسے یہ کہ وہ خبر میں ہے
وہ شخص دل میں نہیں ہے مگر نظر میں ہے
اگر چہ جسم ہے منزل کی خواب گاہوں میں
مگر یہ روح ترے عشق کے سفر میں ہے
میں خوش نہیں ہوں مگر مسکرا کے دیکھتا ہوں
فریب خوردگی کتنی مرے ہنر میں ہے
اسی کے بس میں ہے حرف و حکایت غم دل
جو جوئے خوں تہہ اظہار چشم تر میں ہے
متاع دل بھی لٹی اور متاع جاں بھی گئی
اب اس کے بعد بھلا اور کیا بشر میں ہے
میں قافلے سے جدا ہوگیا تو کیا غم ہے
کہ میرے ساتھ مرا سایہ رہ گزر میں ہے
کسی پہر بھی نہیں دل کی حالتوں کو قرار
شب فراق جو غم تھا وہی سحر میں ہے
خموشیوں سے فقط غم غلط نہیں ہوتے
جو بات لب پہ نہیں آئی وہ جگر میں ہے
آپ کے تبصرے