محبت کا احساس

ڈاکٹر فائزہ

ایک انسان کا ساتھ، جو آپ سے محبت کرے، خیال رکھے، جو آپ کی ایک مسکراہٹ دیکھنے کو اپنے آرام کا ہر حصہ قربان کرنے کو تیار ہو جائے، آپ کی خوشی کا منبع… اس تمام جادوگری کی امید دلاتی ہوئی کوہ قاف کی پریوں کی داستانِ محبت کیوں بکتی ہی چلی جاتی ہے؟ انتہائی اعلی پائے کے جمالیاتی فن پارے بھی اسی کو باور کراتے دکھائی دیتے ہیں۔ انفرادی معاشرے میں سرمایہ دار کو فرد کی ذمہ داری سے مبرا کرنے کے لیے یہ ایک بہت کارگر دیو مالا ثابت ہوئی ہے جس میں ابدی خوشی کا جھانسہ دے کر سرمایہ دارانہ نظام کو ان کی مشینری میں کھپنے کے لیے افراد کی ترسیل کا راستہ ہے، جس کا تمام بوجھ دو افراد اور ان کی داستانِ عشق پر ڈال دیا جاتا ہے۔
اگر ایسا ہی ہے تو لوگ کیسے پھنس جاتے ہیں؟ انتہائی درجے کے معقول لوگ بھی۔ محبت کا احساس ذہن میں ویسے ہی اثرات مرتب کرتا ہے جیسے کہ چرس، چاکلیٹ، الکوحل یا سگریٹ۔ ہر بار دوسرے انسان سے ملنے والی راحت اور تسکین Dopamine یا Oxytocin کا تبادلہ ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح جیسے کسی بھی خوشی دلانے والی عادی بنا دینے والی چیز سے ہوتا ہے۔ اس سے چونکہ ایک دم سے چاکلیٹ کی طرح وزن بڑھ جانے، سگریٹ کی طرح پھیپھڑے خراب ہوجانے اور الکوحل کی طرح عادی ہو جانے جیسے اثرات بظاہر نظر نہیں آتے اس لیے معاشرے میں اس کو قبول کیا گیا ہے۔
مگر سرمایہ دارانہ نظام نے اس کو سب سے زیادہ اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا۔ ہر اشتہار میں ایک خوش جوڑا خوشی کی نمائندگی کے لیے کسی مضر صحت چیز کے ذریعے جَلد، وقتی اور سطحی تسکین دلانے والی اشیاء کی تشہیر کرتا دکھائی دیتا ہے۔
نشے کا مسئلہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کیف و سرور کا اثر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جس پر کبھی طلب بڑھ جاتی ہے اور کبھی عجیب و غریب طریقے اختیار کر کے وہی شروع والی کیفیتِ سرور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح محبتوں یا شادیوں میں بھی ہنی مون کا دور گزر جانے کے بعد عجیب پیچیدہ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ چائے کی ایک پیالی پینے سے ابتدا کرنے والے دن میں چھ سے دس پیالی پر پہنچ جاتے ہیں مگر وہ شروع والی خوشی کا احساس حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔ اور دماغی و جسمانی صحت کا کباڑہ الگ کر ڈالتے ہیں۔ اس قدر چائے کی بِکری کا فائدہ یقینی طور پر سرمایہ دار کو ملتا ہے جیسے کہ ویلنٹائن ڈے، برتھ ڈے، ویڈنگ اور نجانے کتنی برسی تقریبات کا…
محبت کا احساس ایک انوکھا طریقہ ہے جس سے ایک معاشرتی حقیقت کو تخلیق کیا جا سکتا ہے اور اس اداکاری کے ذریعے ہارمون کا توازن تبدیل کرنا ممکن ہے۔ ہم جس قسم کے دیومالائی قصے سنیں گے اسی طرح کی اداکاری کرنے کا موقع پانےکو تیار رہیں گے۔ جیسے اگر کسی نے جرأت نامے زیادہ پڑھے تو وہ بہادری کا شعبدہ شوق سے دکھائے گا اور جس نے ٹی وی پر رومانوی لٹریچر سے تاثر لیا وہ محبت کے قصے کا ہیرو بننا پسند کرے گا۔ معاشرے کی ساخت اس طرح کی بنا دی گئی ہے کہ آرٹ، شاعری، موسیقی کا ذوق رکھنے والے اگر رومانویت اور محبت کے جذبات سے باہر نکل کر زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہیں تو سبزی خوری کی طرح کا تجربہ کرنے کے لیے تیار رہیں، جب آپ کے پاس ہوٹل میں چناؤ کے لیے بس ایک دو کھانے ہی بمشکل ہوتے ہیں کیونکہ باقی دنیا نے خوشی کے تصور کو گوشت خوری سے اس قدر نتھی کردیا ہے کہ سبزی خورے ایک اقلیتی برادری کی طرح ہوٹل میں مینو کارڈ کا منہ ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ اکثر ان آرٹسٹوں کو تخلیقی کام کرنا محبت کے ارد گرد یا دوران والے دور میں ہی یاد آرہا ہوتا ہے۔
انسان کو کتنا کوئی سمجھا لے، جب تک چکھے گا نہیں، تجربہ نہیں کرے گا، باز نہیں آئے گا…. پر شاید تب تک انتخاب کا تصور بے معنی ہے جب تک انسان کسی معاملے میں معلومات یا تجربہ نہ رکھتا ہو۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
طارق کاظمی

اعضائے خمسہ ہمہ وقت احساس کی لذت سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید انسان جمالِ کائنات کی دید سے بھی محروم رہتا۔

سعد

ڈاکٹر صاحبہ، آپکا شکریہ، آپ نے سرمایہ دارانہ نظام اور عشق و محبت کے کھیل کی طرف ہماری توجہ دلائی۔ ہم حقیقت کو کس طور سے سمجھتے ہیں آپ کی اس موضوع پہ سمجھ بڑی نئی تھی، ہم آپ سے اس جیسے مزید مضامین اور خیالات کی فرمائش کرتے ہیں۔