اسلام میں شہادتین کے اقرار کے بعد سب سے زیادہ اہمیت نماز کی ہے۔ اسلام میں یہ تصور نہیں کہ کوئی مسلمان بے نمازی ہو سکتا ہے، حتی کہ منافقین بھی نماز ادا کرتے تھے تاکہ مسلمانوں کی لسٹ میں نام باقی رہے، اور کسی کو ان کے منافق ہونے کا شبہہ نہ ہو۔ قرون اولی میں مسلمانوں میں دوسری بعض برائیوں کا تو تذکرہ ملتا ہے لیکن عموما نماز چھوڑنے کا نہیں۔
کتاب وسنت کے بے شمار نصوص بے نمازی کے کفر پر دلالت کرتے ہیں، حالانکہ اس بارے میں علما کا اختلاف رہا ہے کہ اس سے کفر اکبر مراد ہے یا کفر اصغر۔ راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص جس نے اپنی زندگی میں کبھی نماز ادا نہیں کی وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مجوسی ابو لؤلؤۃ نے خنجر مارا تو آپ اپنی نماز پوری نہ کرسکے، عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی امامت کی، اور صحابہ کرام نماز سے فارغ ہوئے۔ جب عمر رضی اللہ عنہ کو ہوش میں لایا گیا اور نماز کے بارے میں کہا گیا تو ان کا جواب تھا “نَعَمْ، وَلاَ حَظَّ فِي الإِسْلاَمِ لِمَنْ تَرَكَ الصَّلاَةَ”۔ (ہاں، اس شخص کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جو نماز چھوڑ دے)، پھر آپ نے اس حالت میں نماز پڑھی کہ زخم سے تیزی سے خون بہ رہا تھا۔ [موطا امام مالک، حدیث نمبر 101]
یہی بات دوسرے صحابہ کرام بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا :ارشاد ہے
العَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلاَةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ [رواه أحمد (5/ 346) والترمذي (2623) وابن ماجہ(1079) وغيرهم، وقال الشيخ الألباني في تعليقه على كتاب الإيمان لابن أبي شيبة (ص 15): “إسناده صحيح على شرط مسلم”]
(ہمارے اور ان کے –یعنی کفار ومشرکین کے- درمیان فرق کی چیز نماز ہے، جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔)
مشہور تابعی عبد اللہ بن شقیق العقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “كان أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم لا يرون شيئا من الأعمال تركه كفر غير الصلاة”۔ [سنن الترمذي ، حدیث نمبر 2622]
(صحابہ کرام نماز کے علاوہ اور کوئی دوسرا عمل ایسا نہیں تھا جسے چھوڑنے کو کفر سمجھتے تھے۔)
بظاہر اس میں انھوں نے تارک صلاۃ کے کفر پر صحابہ کرام کا اجماع نقل کیا ہے۔
لیکن کیا اس سے مطلق نماز چھوڑنے والا مراد ہے؟ یا وہ بھی اس میں شامل ہے جو کبھی کبھی نماز پڑھتا ہے اور کبھی چھوڑتا بھی ہے؟
اس بارے میں علما کے مابین اختلاف ہے۔
راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں سمجھا جائے گا جو کبھی نماز پڑھتا ہے اور کبھی چھوڑتا ہے، بلکہ وہ شرعی نقطہ نظر سے فاسق اور مرتکبِ کبیرہ ہے، گرچہ وہ بلاشبہ بہت ہی سنگین جرم کا مرتکب ہے، لیکن کافر نہیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
عموما جو حضرات ایسے شخص کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں وہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی کتاب ”حکم تارک الصلاۃ“ کا حوالہ دیتے ہیں جیسا کہ کئی حضرات سے اس مسئلہ پر بات کرنے کے بعد احساس ہوا، حالانکہ خود شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اپنے کئی دروس میں اس پر تنبیہ کی ہے کہ ترک صلاۃ گرچہ کفر ہے لیکن کبھی کبھی نماز پڑھنے والا اور کبھی کبھی چھوڑنے والا کافر نہیں۔
آپ سے سوال کیا گیا کہ ایسا شخص جو کبھی نماز پڑھتا ہے اور کبھی چھوڑتا بھی ہے تو کیا ایسا شخص کافر ہے؟
آپ نے جواب دیا کہ ایسے شخص کو کافر نہیں کہا جائے گا۔
آپ کے الفاظ یہ ہیں: “الذي يظهر لي أنه لا يكفر إلا بالترك المطلق بحيث لا يصلي أبداً، وأما من يصلي أحياناً فإنه لا يكفر لقول الرسول، عليه الصلاة والسلام: ” بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة. ولم يقل ترك صلاة، بل قال: ” ترك الصلاة “. وهذا يقتضي أن يكون الترك المطلق، وكذلك قال:” العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها -أي الصلاة – فقد كفر” وبناء على هذا نقول: إن الذي يصلي أحياناً ليس بكافر”. (مجموع فتاوى ورسائل العثيمين (12/55-56)
(مجھے لگ رہا ہے جب تک مطلقًا نماز ترک نہ کرے یعنی کہ کبھی بھی نماز پڑھتا ہی نہ ہو تب تک کافر نہیں ہوگا۔ البتہ وہ شخص جو کبھی نماز پڑھتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے وہ کافر نہیں ہوگا: آدمی اور شرک وکفر کے مابین حد فاصل نماز کا ترک کرنا ہے، یہ نہیں کہا کہ ”ایک نماز“ کا ترک کرنا ہے، بلکہ کہا: ”نماز کا ترک کرنا ہے“۔ یہ لفظ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مطلقًا نماز ترک کر دے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے اور منافقوں کے درمیان جو (فرق کرنے والا) عہد ہے، وہ نماز ہے، تو جو اسے چھوڑ دے گا، کافر ہو جائے گا“۔ اس بنا پر ہم کہتے ہیں: جو شخص کبھی نماز پڑھتا ہے وہ کافر نہیں۔)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا مذکورہ کلام تارک صلاۃ کے مسئلہ کو سمجھنے کے لیے نہایت ہی اہم ہے۔ تارک صلاۃ کے کفر پر صحابہ کرام کا اجماع ہے لیکن کسے تارک صلاۃ کہا جائے اس بارے میں اختلاف ہے۔ خود شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تارک صلاۃ کے کفر کے قائل ہیں لیکن شیخ نے خود اس کی بہترین توضیح کی ہے کہ کسے تارک صلاۃ کہا جائے اور کسے نہیں۔
اب آتے ہیں بے نمازی کی وفات کے بعد اس کے نماز جنازہ کے مسئلہ پر:
کسی بھی مسلمان کی نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔ اگر تمام لوگ ترک کر دیں تو سبھی گنہگار ہوں گے۔ اور ابھی بیان کیا گیا کہ اگر کوئی کبھی نماز پڑھتا ہے، کبھی چھوڑتا ہے تو ایسا شخص کافر نہیں، مسلمان ہی ہے لیکن بہت بڑا فاسق ہے۔ اور کوئی گرچہ سخت فاسق ہو لیکن جب تک مسلمان ہے اس پر جنازہ کی نماز پڑھنا فرض کفایہ ہے۔ اگر تمام لوگ ترک کر دیں تو سبھی گنہگار ہوں گے۔
ہاں البتہ جس طرح دوسرے بعض گناہوں کے متعلق آیا ہے کہ معاشرہ کے معزز ونیک لوگ شرکت نہ کریں بلکہ عام لوگ جنازہ پڑھ لیں اسی طرح بے نمازی کے ساتھ سلوک کیا جائے تو کوئی حرج نہیں، بلکہ ایسا کرنا چاہیے تاکہ دوسروں کے لیے نشان عبرت بنے۔
البتہ یہ ضرور دھیان رکھنا چاہیے کہ یہ ایک تادیبی کاروائی ہے، کہیں اس کاروائی سے اس سے بڑا کوئی فتنہ نہ جنم لے لے، اور نہ معاشرہ کا امن وامان تباہ وبرباد ہوجائے۔ اس لیے معاشرہ کے سرکردہ لوگوں کو اتفاق رائے سے ایسی کوئی کاروائی کرنی چاہیے۔
ایک ضروری تنبیہ:
تارک صلاۃ پر کفر کا حکم یہ “حکم عام” ہے۔ اس سے کسی ایسے معین شخص کو جو کلمہ “لا الہ الا اللہ” کا اقرار کرتا ہو بالتعیین کافر کہنا صحیح نہیں، یہاں تک کہ اس پر حجت قائم ہوجائے، تکفیر کے تمام شروط پائے جائیں اور کوئی چیز مانع نہ ہو۔
نیز بالتعیین تکفیر یہ کسی بھی ایرے غیرے اور طلبہ علم کا کام نہیں ہے، بلکہ یہ علمائے راسخین کا کام ہے جن کے علم کی گواہیاں دی جاتی ہیں۔
افسوس کہ بعض مقررین وواعظین اس طرح کی تکفیر میں بہت آگے ہوتے ہیں، اور کسی بھی ایسے شخص پر جو پنجوقتہ نماز کا اہتمام نہیں کرتے کفر کے فتوے لگاتے پھرتے ہیں، بلکہ احکام کفر کی تطبیق دینے کی دعوت دیتے ہیں، مثلا بالتعیین ان کا ذبیحہ حرام سمجھتے ہیں، ان سے کفار جیسا تعامل کرتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ مسلمان نہیں۔
یقینا اتمام حجت سے قبل اس طرح کی بالتعیین تکفیر سلف صالحین کا منہج نہیں، بلکہ خوارج کا طریقہ ہے۔
جہمیہ جو اللہ رب العالمین کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کرتے تھے ان سے مناظرہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے تھے : ”أنا لو وافقتكم كنت كافرًا لأني أعلم أن قولكم كفر وأنتم عندي لا تكفرون لأنكم جهال“۔ [الرد على البكري (2/ 494)]
(اگر میں تمھاری موافقت کروں تو کافر ہو جاؤں گا اس لیے کہ مجھے معلوم ہے کہ تمھارا یہ قول کفریہ قول ہے لیکن باوجود اس کے تم میرے نزدیک کافر نہیں کیونکہ تم سب جاہل ہو۔)
پتہ چلا کہ صرف کفریہ عقیدے یا عمل کے پائے جانے سے لازم نہیں آتا کہ یہ عقیدہ رکھنے والا یا عمل کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو ہی چکا ہے، بلکہ کسی کو بالتعیین دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے اصول وضوابط ہیں جنھیں علما نے ”ضوابط التکفیر“ کے مسئلہ میں بالتفصیل بیان کیا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں صحیح علم کی رہنمائی کرے اور حکمت ومصلحت کی دولت سے نوازے۔ آمین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ