مودی کے پانچ سالہ دور اقتدار کا ایک جائزہ

عبداللہ الفوزان

۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے ۔ ۱۱ اپریل سے ووٹنگ کی شروعات ہو جائے گی ۔ یعنی کہ اس حکومت کا پانچ سالہ میعاد تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ایسے میں ضروری ہے کہ ہندوستانی عوام ان وعدوں اور’’ اچھے دن‘‘ لانے کے لئے جو منصوبے بنائے گئے تھے ان پر از سر نو غور کریں اور جائزہ لیں کہ جن بنیاد پر ہم سے ہمارا ووٹ مانگا گیا تھا اور ہم نے ان پر بھروسہ کرکے اپنا قیمتی ووٹ دیا تھا،کیا اس کی تکمیل اس میعاد میں ہوئی؟کیا بر سر اقتدار پارٹی نے اپنے وعدوں کا ۲۰ فیصدی وعدہ بھی پورا کیا یا نہیں؟
یاد کیجیے ۲۰۱۴ء کو جب ہرطرف ’’ہر ہر مودی گھر گھر مودی ‘‘ کا نعرہ بلند تھا ۔ہندوستانی عوام ایک بہتر تبدیلی کا خواہاں تھی کیونکہ یہ مرکز میں ایک’’ بدعنوان پارٹی ‘‘سے اکتا چکی تھی،اور اس کا بہتر بدل بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے آپ کو پیش کررہی تھی۔بی جے پی اور مودی کی تقریروں کے مطابق ہندوستان پوری دنیا میں ایک مثالی ملک بننے والا تھا ۔ ہر طرف ایک جوش اور ولولہ کا ماحول تھا ۔بچوں سے بوڑھوں تک کی زبان پر’’ مودی مودی‘‘ کا لفظ رواں دواں تھا ۔’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کا نعرہ نہ صرف مقبول ہورہا تھا بلکہ سچ ثابت ہونے لگا تھا ۔کیونکہ ۲۰۱۴ء لوک سبھا انتخابات سے قبل مدھیہ پردیش ،راجستھان اور چھتیس گڑھ کے ودھان سبھا انتخاب میں بی جے پی کے اس’’ کانگریس مکت بھارت ‘‘کے نعرے کے سبب بی جے پی کو مکمل اکثریت مل گئی تھی۔لہذ ا عوام نے ان کو سنا ،ان کے وعدوں پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرلیا اور امید کی کہ شاید ہندوستان بھی اب امریکہ ،چین اور جاپان جیسے
ممالک کے ساتھ ترقی کی صفوں میں کھڑا ہوجائے گا ۔کیونکہ ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ’’ اچھے دن آنے والے ہیں ‘‘۔اس ملک کے نوجوانوں کو اس بات کا یقین دلایا گیا تھا کہ آپ کو ہرسال دو کروڑ نوکریاں دی جائینگی۔غریب اور کسانوں کے حق کے لئے ان کے مفاد کی باتیں کی گئیں تھیں ۔ہندوستانی فوج کے شہداء کے’’ ایک سر کے بدلے میں دشمن کے سو سر‘‘ لانے کی بات کہی گئی تھی۔ لہذا عوام نے اپنا قیمتی ووٹ بی جے پی کو دے کر مکمل اکثریت کے ساتھ ملک کی باگ ڈور سونپ دی۔
لیکن دیکھتے دیکھتے حکومت کے پانچ سال بھی مکمل ہو گئے ۔تو وہ نوجوانوں جو ہر سال دو کروڑ نوکریوں کی آس میں تھے انہیں کیا ملا ؟انہیں ملا پکوڑے تلنے کا روزگار……انہیں ملاکہ ’’میں بھی چوکیدار‘‘…انہیں ملا ’’پاکستان مردہ باد کے نعرے‘‘
اب ایک منٹ ذرا غور کریں کہ ان چیزوں سے عوام کو کیا فائدہ حاصل ہوا ؟کیا ان کی معیشت صحیح ہوئی؟کیا مہنگائی کی شرح میں کمی واقع ہوئی ؟کیا لوگوں کو واقعی روزگار ملا؟ نہیں ! بالکل نہیں !
NSSO ڈاٹا کے مطابق ہندوستان میں پچھلے ۴۵ سالوں میں بے روزگاری کی شرح میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا جب کہ حکومت اپنی اکثر تقریروں میں روزگار دینے کا ڈھنڈورا پیٹتی رہی۔ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کس روزگار کو اپنے ڈاٹا میں شمار کر رکھی ہے۔واللہ اعلم
اب ذرا ان وعدوں کا جائزہ لیتے ہیں جن کی بنیاد پر یہ حکومت اقتدار میں آئی تھی۔ اور ملک کے اصلی صورت حال کا پتہ لگاتے ہیں کہ ان کے کیا حالات ہیں ؟
بدعنوانی
ان پانچ سالہ دور حکومت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جو حکومت بدعنوانی اور کرپشن کو دور کرنے کی بات کرکے اقتدار میں آئی تھی آج وہی رافیل کے گھوٹالے میں ملوث ہونے کی ملزم مانی جا رہی ہے۔اگر رافیل کے سودے بازی کی بات کی جائے تو یہی بات ظاہر ہے کہ جس جہاز کی قیمت ۲۰۱۴ ء سے قبل ۵۲۶ کروڑ تھی وہی جہاز ۲۰۱۶ء میں تقریبا ۱۶۰۰ کروڑ میں حکومت خرید رہی ہے جو کہ صاف صاف ایک بے ایمانی ہے۔
یوں تو کئی مثالیں اس حکومت کے دور کی موجود ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس پارٹی سے ملحق رہنما اور اراکین بدعنوانی میں ملوث پائے گئے ۔لیکن رافیل کا معاملہ سب سے بڑا معاملہ ہے جس میں ۳۰ ہزار کروڑ کا گھوٹالا ہوا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حکومت اس معاملے کی جانچ کے لئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹیJPC) ( کا قیام عمل میں نہیں لائی۔تاکہ اس کے کالے کرتوتوں کا راز فاش نہ ہوسکے۔بہر حال اس معاملے کے کچھ مسائل عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہیں ۔جس کا ہم انتظار کرسکتے ہیں۔
دہشت گردی
اس حکومت کا اگر دہشت گردی کے مسئلے پر تجزیہ کریں تو یہ معلوم ہوگا کہ دہشت گردی کے واقعات میں جتنا اضافہ اس حکومت میں ہوا اتنا آج تک کسی حکومت میں نہیں ہوا۔
۱۴ فروری۲۰۱۹ء انڈیا ٹوڈے میں چھپی خبر کے حوالے سے سال ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۸ء میں سرکاری ڈاٹا کے مطابق ۱۷۶ فی صد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔اور ہر مہینے جموں وکشمیر میں تقریبا ۱۱ فوجی مارے گئے ہیں ۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق ۲۰۱۴ء میں ۲۲۲ دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔۲۰۱۵ء میں ۲۰۸،۲۰۱۶ء میں ۳۲۲،۲۰۱۷ء میں ۳۴۲، اور ۲۰۱۸ء میں سب سے زیادہ ۶۱۴ دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں ۔اس ڈاٹا سے سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح دہشت گردی کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔جس سے حکومت اس محاذ پر بھی ناکام ہوگئی ۔مگر پھر بھی ہمارے وزیر اعظم اپنی تقریروں میں کہا کرتے ہیں کہ نوٹ بندی سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی۔
اب ذرا ان واقعات کے ذریعہ ہندوستانی شہریوں اور افواج کی شہادت کا جائزہ لیں تو واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پچھلے تیس سالوں میں سب سے زیادہ ہندوستانی فوجیوں کی شہادت ہوئی ہے۔
اب وزیراعظم کے ان دعووں کا بھی تجزیہ کرلیا جائے جو یہ کہتے تھے کہ ہماری لڑائی کشمیر کے لئے ہے کشمیریوں سے نہیں ہے۔وزیراعظم صاحب یہ کیا کہ ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۸ء کے درمیان انڈیا ٹوڈے کے مطابق وادی میں ۱۳۱۸ لوگ مار دئیے گئے ہیں جس میں ۱۳۸ وہ معصوم کشمیری ہیں جو بالکل بے گناہ تھے۔جو کہ کل اموات کا 10.49% ہوتا ہے۔اس طرح ان اموات میں ۳۳۸ شہادت ہندوستانی افواج کی ہوئی جن کے بدولت ہم اپنے چھت کے نیچے چین سے سوتے ہیں ۔یہ کل اموات کا 25% ہوتا ہے۔باقی اموات میں دہشت گرد شامل ہیں جن سے ہمیں کوئی مطلب نہیں ۔لیکن ان دہشت گرد کے اموات کو پرے رکھ کر غور کریں کہ کیا یہ ۴۷۸ جانیں ہمارے ملک کے لئے اتنی سستی اور بے قیمت ہیں کہ ان کی کوئی وقعت نہیں ۔کیا ان کے ماؤں کے پاس دل نہیں کہ جب یہ اپنے اپنے بچوں کی شہادت کی خبر سنتی ہوں تو وہ تو زندہ ہی مر جاتی ہوں گی۔کیا ان کی ممتا نہیں تڑپتی ہوگی؟ برہان وانی کے قتل کے بعد احتجاج میں شامل کشمیریوں پر اندھا دھن پیلٹ گن برسائے گئے جس سے ان کی زندگی تباہ ہوگئی ۔سینکڑوں نوجوانوں کی زندگی بھر کے لئے بینائی چلی گئی۔اس کا ازالہ کون کرے گا ؟وزیراعظم صاحب کہاں گئی آپ کی وہ بات کہ ہماری لڑائی کشمیریوں سے نہیں ہے۔ تو کیا یہ جو مارے گئے یہ ہمارے وطن عزیز کے باعزت شہری نہیں تھے؟وزیر اعظم صاحب ! تشدد سے لوگ متشدد ہوتے ہیں ۔ذرا آپ اس بات کو سمجھیں۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی فوج کے ڈاٹا کے مطابق کشمیری نوجوانوں نے سب سے زیادہ جہادی تنظیم پچھلے دس سالوں میں جوائن کیا ہے۔اس وجہ تمام ذی شعور افراد کا ماننا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل بندوق اور شہادت سے نہیں حل کیا جا سکتا ،ا س کے لئے وہاں کی عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا اور ان کا دل جیتنا ہوگا۔بہر حال یہ تو صرف وادی کے اموات کا تذکرہ ہے باقی کے احوال چھوڑ دیجئے۔
کسانوں کی خود کشی
حکومت فقیری کا دعویٰ کرتی ہے اور اپنے آپ کو غریبوں کا مسیحا بنا کرپیش کرتی ہے ۔جو ہندوستان سے غربت کو دور کرنے کی بات کرتی ہے اسی حکومت میں سب سے زیادہ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔چاہے وہ مہاراشٹر کے کسان ہوں یا تمل ناڈو کے،چا ہے وہ مدھیہ پردیش کے غریب کسان ہوں یا راجستھان،یوپی اور بہار کے ہر جگہ کے کسانوں نے حکومت سے مایوس ہوکرحکومت کو اپنی جان کا تحفہ دے دیا۔
ایک آنسو بھی حکومت کے لئے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
میڈیا کی آزادی
میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے ۔یہ عوامی مفاد اور عوام کی آواز کو بر سر اقتدار پارٹی کے کانوں تک پہنچاتی ہے۔ سرکار کی غلط پالیسیوں کو منظر عام پر لاکر اس کا تختہ پلٹ کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
لیکن یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب میڈیا اپنے وجود کو نہ بیچی ہو ۔ا س نے ضمیر فروشی نہ کی ہو۔بلکہ آزاد اور غیر جانبدار بن کر عوام کی آواز بن گئی ہو۔
جب ہم ۲۰۱۴ء کے بعد ہندوستانی میڈیا کے حال کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنے ضمیر کا سودا کرکے حکومت کے گود میں جا بیٹھی ہے ۔وہ میڈیا جو جمہوریت کے لئے چوتھی ستون سمجھی جاتی ہے آج وہی جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن گئی ہے۔
افلاطون نے اپنے مثالی ریاست سے شاعروں کو در بدر کرنے کی بات کہی تھی کیونکہ وہ مخرب اخلاق کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن میرا ماننا ہے کہاگر آج کے دور میں کوئی مثالی ریاست کا تصور پیش کرتا ہے تو اس کو اپنے اس ریاست سے میڈیا کے وجود کو ختم کرنا ہوگا ۔کیونکہ جس طرح سے ہندوستانی میڈیا نے ملک و قوم کے افراد کے اذہان و قلوب کو پراگندہ کیا ہے وہ ذکر سے پرے ہے۔
اس حکومت نے اپنے پورے اقتدار کے دوران میڈیا پر مکمل قبضہ کرکے انہیں خبروں کو نشر کروایا جن سے اس کو فائدہ ہو۔لیکن اگر کوئی بے باک اور غیر جانب دار اینکر نے ان کے جھوٹ کا پردہ فاش کرنے کی جسارت کی تو اس کے مالکان پر پی ایم او سے دباؤ ڈال کراس اینکر کی چھٹی کر دی گئی ۔
ٓ آج جن حالات سے ہمارا ملک گزر رہا ہے وہ ہندوستانی جمہوریت کا سب سے برا اور سیاہ دور ہے ۔تاریخ اپنے اوراق پہ ہمارا یہ حال لکھے گی کہ جب پوری دنیا ٹکنالوجی کے میدان میں نئے نئے ایجادات کررہی تھی تب ہم چوکیدرار بنے پھر رہے تھے ۔تاریخ اپنے سیاہ قلم سے اس بات کو بھی رقم کرے گی کہ جب شمالی کوریا ہائیڈروجن بم اور ہانسانگ 15-بنا رہی تھی تب ہم مندر مندر اور مسجد مسجد کرتے ہوئے آپس میں نفرتوں کے بیج بو رہے تھے۔تاریخ یہ بھی اپنے صفحات میں درج کرے گی کہ جب دوسری ملکیں قومیت کے نام پر متحد ہو رہی تھیں تب ہم گائے کے تحفظ کے نام پر اپنے ہی ملک کے باشندوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے تھے۔
ہمارے آنی والی نسلیں بھی جب یوٹیوب کے تہ خانوں کو کھنگالیں گی تو ہمارے مردہ وجود سے یہ سوال کریں گی کہ آپ نے ہماری بہتری کے لئے کیا کیا؟کیا آپ نے ہماری اچھی تعلیم کا بندو بست کیا تھا؟کیاآپ نے ہماری صحت کے لئے اچھے اسپتال تعمیر کروائے تھے؟تو ہمارا مردہ وجودان نسلوں کو جواب دے گاکہ ہم نے آپ کو وزیراعظم نریندر مودی کی کرسی کو بچانے کے لئے چوکیدار بنایا تھا۔ہم جواب دیں گے کہ ہم نے آپ کو ہندوستان سے ایک خاص مذہب کو ختم کرنے کے لئے بلوائی بنایا تھا۔جس میں ہمارے دیش کی’’ دیش بھکت‘‘میڈیا نے خوب مدد کی تھی۔وہ ہر روز شام ہوتے ہی ہندو مسلمان کے موضوع پر مباحثے کروانے میں مصروف ہوجاتی تھی۔تاکہ کسی کا ذہن ملک کے اصلی مسائل کی طرف نہ چلی جائے۔کہیں کوئی یہ نہ سوال کرنے لگے کہ گیس اور تیل کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کیسے ہوگیا؟کوئی یہ نہ سوچنے لگے کہ ہمارے بچوں کی اچھی صحت کے لئے اسپتال کہاں اور کدھر ہیں؟ان کی اور ملک کی ترقی کے لئے سازگار اچھے اسکول اور یونیورسٹیاں کہاں ہیں؟جس سے ہمارے وزیراعظم کی کرسی متزلزل ہوجائے۔

سرکاری ایجنسیاں
اب ذرا اس پانچ سالہ دور اقتدار میں ان سرکارے ایجنسیوں کی طرف توجہ فرمالیں جو مرکزی حکومت کے ماتحت ہوتے بھی دستور ہند میں جمہوری اور آزاد ہیں ۔
راکیش استھانہ اور آلوک ورما کا معاملہ یاد ہی ہوگا ۔وہ ایجنسی جس پر لوگ آنکھ بند کرکے یہ مانگ کرتے تھے کہ ہماری جانچ سی بی آئی سے کرائی جائے آج اسی شعبے کے دو سینئر افسران ایک دوسرے پر رشوت کا الزام لگا رہے ہیں۔
آر بی آئی(RBI) کا معاملہ ذرا یاد کرکے ارجت پٹیل کے استعفے کی وجہ پر غور کریں ۔نوٹ بندی کے مسئلے بلا تعصب غور فرمائیں تو معلوم ہوگا جیسا کہ حق اطلاعات کے حوالے سے اس بات کی راز کی فاش ہوئی کہ نوٹ بندی کا فیصلہ بغیر آر بی آئی کے منظوری سے لیا گیا تھا۔آر بی آئی نے قطعااس وقت اس فیصلے کی اجازت نہیں دی تھی۔آر بی آئی نے اس کی منظوری نوٹ بندی کے ۳۸ دنوں بعد دی تھی جو کہ اس کی مجبوری تھی۔
اس طرح وہ تمام ایجنسیاں چاہے وہ EC ہو یا EDسب پر سرکار نے دباؤ ڈال کر اپنا کٹھپتلی بنایا لیا اور اپنے من مانی طریقے سے اپنے مطابق کام کام کروایا۔ان اداروں کی آزادی پر قدغن لگا کر ان کی آزادی سلب کرلی۔انہیں جانبداری سے کام کرنے پر مجبور کرکے ان کی غیر جانبداری کو چھین لیا۔
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایک واقعہ جنوری ۲۰۱۸ء ؁ اس وقت ہوا جب عدالت عظمیٰ( سپریم کورٹ ) کے چار سب سے سینئر جج کو باہر آکر یہ کہنا پڑا کہ ’’سپریم کورٹ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ صحیح نہیں ہورہاہے‘‘،’’ جمہوریت خطرے میں ہے‘‘،’’سپریم کورٹ کو کام کرنے نہیں دیا جا رہا ہے‘‘ یہ سب وہ لوگ کہہ رہے تھے جو دوسروں کو انصاف دیتے ہیں ،جو مظلوموں کی آہ وبکا سنتے ہیں ۔سلام ! ان جج صاحبان کو جنہوں نے ایسے موقع پر صدائے احتجاج بلند کی۔انہوں نے خود کہا کہ ایسا ہم اس لئے کہہ رہے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف کرسکیں کہ جوکچھ ہوا ہم اس میں شریک نہیں تھے۔
دلتوں و اقلیتوں میں خوف و ہراس
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس حکومت کے آتے ہی ہندوستان میں جگہ جگہ مشتعل ہجوم کے حملوں کی بات آنے لگی۔جو ایک خاص ذات اور مذہب کے لوگوں کونشانہ بناتے اور موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ۔جو گائے کے تحفظ کے نام پر انسانوں کی جان لے لیتے ہیں ۔ دادری ،راجستھان وغیرہ کے واقعات کو یاد کریں کہ کس طرح سے بھیڑ نے اقلیتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ان واقعات میں بھگوا دہشت گردوں نے لوگوں کو پیٹا اور قانون کو اپنے میں لے کر قانون کا مذاق بنا ڈالا۔یہ ایسے دہشت گرد ہیں جن کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔یہی وجہ ہے بھیڑ کے نام پر کسی مجرم کو کیفر کرداتک ر نہیں پہنچایا جاتا اور انصاف خود انصاف پانے کے لئے درد ر کی ٹھوکریں کھاتی رہتی ہے۔
دیکھو گے تو ہر موڑپہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
الغرض ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مسائل جو ملک ومعاشرے کی ترقی کے لئے سازگاراور مددگار تھے حکومت نے ان مسائل کو بالائے طاق رکھ کرہندو ؤں کو مسلمانوں سے ڈراتے رہی ۔اور ان دونوں کو آپس میں لڑا کر اپنے اقتدار کی روٹی سینکتی رہی۔
وہ اپنے حکومتی ناکامی کو پاکستان،مسلمان اور نہرو کے سر پھوڑتی رہی۔مگر ہندوستان کے معصوم عوام انکے مکارانہ اور دوغلے چہروں کی شناخت نہ کرسکی۔آج بھی یہ لوگ ’’میں بھی چوکیدار‘‘کے تحت حکومت کی ناکامی کو بھلا کر ان کے لئے پھر سے کام کرنے لگے ہیں ۔۔حالانکہ اگر یہی لوگ جو’’ میں بھی چوکیدار ‘‘میں شامل ہوئے ہیں اور نعرہ بلند کررہے ہیں،اگراپنے اور اپنے خاندان کی معیشت ،روزگار ،صحت کے لئے اسپتال ،بچوں کی اچھی تعلیم کے لئے سستے اسکول اورکالجس وغیرہ مسئلوں پر غور کریں تو یہ بھی اس حکوت سے متنفر ہوجائیں گے۔اور پھر اس ظالم اور جھوٹی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں کے لئے عزم مصمم کرلیں گے۔لیکن !نہیں کریں گے کیونکہ کارل مارکس نے کہا تھا کہ مذہب ایک افیم ہے جس کو پلا کر کسی کو بھی مدہوش کیا جاسکتا ہے۔آج اسی افیم کو مودی سرکار نے ہندوستانی عوام کو پلا رکھا ہے۔جس کی وجہ سے ان کے ’’سنگھاسن‘‘ پر ضرب نہیں پڑنے والا ہے۔لیکن جب کبھی ان مدہوش عوام پر سے نشے کا خمار اترے گا عین اسی وقت عوام مخالف اس سرکار کی کرسی ہلنے لگے گی۔
مختصر یہ کہ جب بھی ہم غیر جانبدار ہوکر اور اپنے ذہن و دماغ کو کھول کر حکومت کے کام کاج کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے ہاتھ میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا۔حکومت ہر محاذ پر ناکام اور اپنی پالیسی پر فلاپ نظر آتی ہے ۔چاہے وہ نوٹ بندی (DEMONITIZATION)ہو یا جی ایس ٹی(G.S.T.) سبھی کی ناکامی منظر عام پر آچکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب ان ’’کامیابیوں‘‘ کا ذکر تقریروں سے غائب کردئیے گئے ہیں۔روزگار کا مسئلہ آتے ہی اپنا دامن جھاڑ کر اور نظریں چرا کر راہ فرار اختیار کر لئے جاتے ہیں۔
کرسی ہے، تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
اب ضابطہ اخلاق نافذ ہوچکا ہے۔جس کی وجہ سے ملک بھر میں رہلیوں اور سیاسی تقریروں کا دور شروع ہے۔وزیر اعظم اور بی جے پی کے تمام اراکین اپنی تقریروں میں حزب مخالف کو اپنی تمام ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔لیکن یہ کیا کہ جس حکومت کے پاس ایوان میں مکمل اکثریت تھی وہ مٹھی بھر حزب مخالف کے سامنے اتنی لاچار ہوگئی کہ پانچ سالوں تک عوامی مفاد کے لئے کوئی کا م ہی نہ کرسکی۔ نہیں! بلکہ معاملہ کچھ مختلف ہے۔
اس وجہ سے ہندوستانی عوام کو اس بار بہت غور و خوض کرکے اپنا قیمتی ووٹ دینا ہوگا۔تاکہ عنان حکومت کسی ناہل اور جملے بازی میں ماہر کسی پارٹی کے ہاتوں نہ چلی جائے۔اور پھر اگلے پچاس سالوں تک انتخابات ہی نہ ہوں جیسا کہ خود بی جے پی صدر نے دعویٰ کیا ہے ۔اس وجہ سے ضروری ہے کہ ان جھوٹے اور مکار چہروں کی شناخت کریں جو اپنا اصلی چہرہ انتخاب کے بعد منظرعام پر لاتے ہیں ۔ایسے ہی چہروں کے بارے میں ندا فاضلی نے کہا تھا:
ہر آدمی میں ہوتے ہیں د س بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
لہذا بہت ہی غور و فکر،بہتر اور منظم منصوبہ بندی کے ساتھ عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا۔

2
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
طارق کاظمی

ملک کی ناگفتہ بہ حالت اور حکومتِ وقت کا پنج سالہ دور کا جائزہ بہت سلیس،تجزیاتی انداز میں پیش کردیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ جواں نسلوں کی ذہنی بیداری کے لئے ایسی پُر مغز باتیں واقعی نفع بخش ثابت ہوں گی۔۔۔۔۔۔ کہیں۔کہیں ٹائپنگ کی غلطیاں ہیں اُس پر ایک دفعہ نظرِ ثانی کرلیں۔

عبداللہ الفوزان

بہت شکریہ طارق بھائی