بیسویں صدی کے وہ عظیم مسلم سائنسداں جو مار دیے گئے

ارشاد احمد ربانی علیگ

عربی مضمون نگار: أ. د. مصطفى رجب

ترجمہ و تلخیص: ارشاد احمد ربانی علیگ


 

ڈاکٹر یحییٰ مشد:
ڈاکٹر یحییٰ امین مشد 1932 میں پیدا ہوئے، اسکندریہ میں اپنی زندگی گزاری۔ اور اسکندریہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ(معماری) میں شعبہ برقیات (Electronics) سے 1952میں تعلیم یافتہ ہوئے۔
آپ ایٹمی ریکٹر انجنیئرنگ میں مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے 1956 میں سوویت یونین بھیجے گئے۔ پھر آپ کو مصری ایٹمی توانائی کے ریکٹر کے تحقیقاتی امور سونپے گئے۔
1963-64 میں مزید ریسرچ و تحقیق کے لیے ناروے گئے، پھر جامعہ اسکندریہ کے شعبہ انجینئرنگ میں پہلے اسسٹنٹ پروفیسر، پھر پروفیسر مقرر ہوئے۔ آپ کی نگرانی میں تیس سے زائد پی ایچ ڈی کی تحقیقات جمع ہوئیں۔ آپ کے نام سے پچاس سے زائد علمی تحقیقات شائع ہوئیں۔ ان میں سے اکثر ایٹمی ریکٹر سے متعلق امور پر ہیں۔
1975 کے اوائل میں جب صدام حسین نائب عراقی صدر تھے، وہ عراق کو توانائی میں طاقتور دیکھنا چاہتے تھے، تو صدام حسین نے فرانس سے ایٹمی توانائی کے مشترکہ تعاون کے معاہدے پر 18 نومبر 1975 میں دستخط کیا۔ تو یہاں مشہور مصری سائنسداں ماہر تابکار توانائی ڈاکٹر یحییٰ امین مشد کی ضرورت پڑی، مشد اپنے عصر کے ایٹمی توانائی میں عالمی نابغۂ روزگار تھے، وہ دلجوئی کے ساتھ عراقی ایٹمی توانائی کے امکانات و اسباب اور ٹیکنالوجی کی تکمیل میں جٹ گئے۔
آپ13 جون 1980 میں پیرس کے میریڈین ہوٹل کے روم نمبر 941 میں سرکچلا ہوا مردہ پائے گئے۔ آج تک حقیقت پردے میں ہے۔

ڈاکٹر سمیرہ موسی:
يہ ایک مشہور مصری محب وطن ایٹمی سائنسداں، ڈاکٹر علی مصطفی کی شاگردہ تھیں، پانچویں دہے کے اواخر میں امریکہ گئیں۔ یہ اپنی تحقیقات لے کر واپس اپنے وطن مصر آنا چاہتی تھیں تاکہ ان کا ملک بھی ایٹمی طاقت میں ترقی کرے، یہ ایٹم بم کو کم خرچ پر بنانے کے ذرائع سے واقف تھیں۔ محترمہ نے امریکی پیشکش کو تاریخ ساز جملہ کہہ کر ٹھکرادیا “میرا پیارا وطن” مصر “میرے انتظار میں ہے۔”
وطن لوٹنے سے پہلے 15 اگست 1962 میں کیلیفورنیا کے اطراف میں ایٹمی پروگرام کا مشاہدہ کرنے گئی تھیں کہ راستے میں اونچائی پر ایک کار نے یکایک آپ کی کار کو ٹکر مار دی اور آپ ایک نہایت گہری کھائی میں جا گریں۔ کار ڈرائیور موقع سے فرار ہے۔ آج تک وہ لاپتہ ہے۔ جو نام پکڑا گیا ہے وہ مستعار ہے، حقیقی نام نامعلوم ہے۔ کیلیفورنیا ایٹمی انتظامیہ نے وضاحت کی کہ اس نے کسی بھی فرد کو ڈاکٹر سمیرہ کے ساتھ نہیں بھیجا ہے۔ معاملہ ہنوز پردۂ خفا میں لپٹا ہے۔

ڈاکٹر سمیر نجیب:
ڈاکٹر سمیر نجیب عرب کے ماہر ایٹمی مصری سائنسداں تھے۔ بہت چھوٹی عمر میں جامعہ قاہرہ سے سائنس فیکلٹی سے فارغ ہوئے۔ اور ایٹمی علمی تحقیقات پر مقالات لکھے۔ آپ کے علمی تفوق کو دیکھتے ہوئے امریکہ مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجے گئے۔ اور ماہرین ایٹمی طبیعیات کے اساتذہ کے زیر اشراف تحقیقی کام کیا اس وقت وہ 33 سال سے بھی کم عمر کے تھے۔ تحقیقات میں آپ کی مہارت اور کمالات عیاں ہوئے تو امریکہ نے آپ کو امریکہ میں رہنے کی پیشکش کی اور اصرار کیا، لیکن یہ اپنے وطن مصر واپس جانا چاہتے تھے۔ مشيگن کے ایک شہر دٹروئٹ(Detroit) میں کار چلا رہے تھے۔ اور وطن کی ترقی کے خواب سجارہے تھے۔ ایک لمبے عرصے کے بعد اپنے اہل و عیال کی بھینی بھینی یادوں میں کھوئے ہوئے تھے کہ اچانک ایک ٹرک نے آپ کی کار کو پیچھے سے ٹکر ماری۔ پھر آپ نے سمجھا یوں ہی ٹکر لگی ہوگی۔ لیکن شک یقین میں بدلا جب آپ نے دیکھا کوئی ٹرک انہی کے تعاقب میں لگا ہوا ہے۔ اور پھر آپ کی کار کو دوبارہ ٹکر اتنی زور سے ماری کہ موقع پر ہی آپ کی جان چلی گئی۔ حملہ آور گاڑی سمیت فرار ہے آج تک حملہ آور کی حقیقت نامعلوم ہے۔

ڈاکٹر نبیل قلینی:
ان کا واقعہ بہت دلدوز ہے۔ 1975 سے آج تک یہ غائب ہیں۔ یہ ایک حقیقی محب وطن و ملت سائنسداں تھے۔ جامعہ قاہرہ کے شعبہ سائنس کی طرف سے آپ چیکوسلوواکیہ (Czechoslovakia) بھیجے گئے۔ تاکہ ایٹمی سائنس میں مزید تحقیقات و تجربات کریں۔ آپ کی تحقیقات نے پورے چیکوسلوواکیہ میں دھوم مچادی۔ ہر صاحب علم ان کے فضل و کمالات کا معترف ہوگیا۔ وہاں کے اخبارات میں آپ سرخی بن گئے۔ پراگ یونیورسٹی سے آپ نے ایٹمی سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 27 جنوری 1975 کو صبح پیر کے دن ان کے فلیٹ میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، مکالمہ کے بعد آپ باہر نکلے، پھر آج تک نہ لوٹے۔

ڈاکٹر نبیل احمد فلیفل:
ڈاکٹر نبیل احمد فلیفل مشہور ایٹمی نوعمر سائنسداں تھے۔ آپ نے ایٹمی طبیعیات میں مہارت حاصل کی۔ اور وہ ایٹمی سائنس میں عالمی نابغۂ روزگار ہوئے جبکہ وہ محض تیس سال کے تھے۔ اور وہ آزاد فلسطین کے “امعری” کیمپ میں تھے۔ آپ نے مختلف ممالک کی تمام پیشکشوں کو یکسر ٹھکرا دیا۔ اور وہ اپنی تحقیقات و علمی کارناموں سے اپنے وطن فلسطین کو منور کرنا چاہتے تھے۔ اچانک آپ کو اغوا کرلیا گیا۔ 28 اپریل 1984 کو “بیت عور” میں آپ کی لاش ملی۔ اس کیس کی کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔

علی مصطفی مشرفہ:
آپ چالیس کی دہے میں جامعہ قاہرہ فیکلٹی کے کلید تھے، مشہور عالمی سائنسداں البرٹ آئنسٹائن کے شاگرد تھے. ان کے مشہور نظریہ نسبی ( Relativitytheory ) کے معاون بھی تھے۔ اسی وجہ سے دنیا انھیں عرب کا آئنسٹائن کہتی ہے۔ روایات کے مطابق ڈاکٹر مصطفیٰ مشرفہ کو 16 جنوری 1950 میں جان لیوا زہر دے دیا گیا۔

ڈاکٹر جمال حمدان:
ڈاکٹر جمال حمدان مشہور عالمی مصری جغرافیہ داں تھے۔ آپ “شخصیۃ مصر” نامی کتاب کے مصنف ہیں، جو اس وقت جامعہ قاہرہ کے شعبہ ادب میں شامل نصاب تھی۔ اور آپ نے کئی کتابیں تصنیف کیں۔ جو مشرقی بلاک کے سقوط کے بارے میں بیس سال پہلے ہی پیش گوئی لکھی تھی۔ آپ نے ایک کتاب عربی میں لکھی “الیھود انثروبولوجیا” یہودی بشریاتی حقائق، جس میں جمال حمدان نے بتایا کہ موجودہ یہودی جو فلسطین میں ہیں، وہ ان یہودیوں کی نسل سے نہیں ہیں جو زمانے قدیم میں فلسطین سے نکل گئے تھے۔
1993 کو آپ کی لاش ملی جس کے نصف نچلے حصے جلے تھے۔ تمام لوگ سمجھتے رہے کہ آپ جل کر مرے ہیں، لیکن ڈاکٹر یوسف الجندی کہتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم سے واضح نہیں ہوتا کہ آپ کی وفات گیس سے ہوئی یا جل کر مرے۔ آگ اتنی تیز نہیں تھی کہ آپ کی موت ہوجائے۔ ڈاکٹر حمدان کے مقربین رفقاء بتاتے ہیں کہ “الیھودیۃ والصھیونۃ” نامی آپ کی کتاب کے مسودات اور دیگر مسودات غائب ہیں۔ جس فلیٹ میں آپ کی جلنے سے موت ہوئی اس میں کوئی کتاب یا کاغذ جلا ہوا نہیں ملا جبکہ کاغذ و اوراق وہاں موجود تھے، گویا دانستگی میں کسی نے آپ کے مسودات کو غائب کیا ہے۔ اب تک آپ کی وفات کا کوئی سراغ نہیں ملا اور نہ ہی یہودیوں کے بارے میں لکھے گئے مسودات ملے۔

ڈاکٹر سلوی حبیب:
محترمہ سلوی حبیب جامعہ قاہرہ کے مطالعہ افریقیات میں پروفیسر تھیں۔ آپ کی آخری کتاب کا عنوان تھا “التغلغل الصھیونی فی افریقیا” جو طباعتی مراحل میں تھی۔ آپ اپنے فلیٹ میں مذبوحہ ملیں۔ تحقیقاتی ایجنسیاں قاتل کا پتہ نہ لگا سکیں، جبکہ نجی زندگی میں آپ سے کسی کی کوئی دشمنی نہیں تھی۔ جب ہم آپ کی الماری دیکھتے ہیں تو اس میں تیس کے قریب علمی و تحقیقاتی مقالات ملتے ہیں جو افریقہ میں صہیونی سیاسی، سماجی، اقتصادی دراندازی کو واضح کرتے ہیں۔ محترمہ سلوی کا یہ تحقیقاتی میدان آج بھی ویران ہے جس میں کوئی شہسوار زور آزمائی نہیں کرنا چاہتا ہے۔

ڈاکٹر سعید بدیر:
ڈاکٹر سعید بدیر راکٹ انجنیئرنگ میں زریاب تھے۔ یہ فوجی شعبہ سے تعلیم یافتہ تھے۔ اور آپ مصری ہتھیاروں کے نگراں بنے۔ ترقی پاکر ملازمت سےسبکدوش ہوئے، انگلینڈ سے آپ نے مصنوعی سیاروں میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پھر آپ نے مغربی جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں مصنوعی سیاروں پر دو سالہ مشترکہ ریسرچ کی۔ آپ کی تحقیقاتی نتائج نے آپ کو تیرہ سائنسدانوں میں سے تیسرا مرتبہ دلایا۔ آپ نے جرمنی شہریت کو لات مار دیا جیسے مختلف ملکوں کی شہریت کو لات مارا تھا۔ وہ اپنے وطن مصر لوٹے۔ مختلف دھمکیاں ملنے کے بعد مصری حکومت سے اسکندریہ میں اپنی سیکیورٹی کا مطالبہ کیا۔ لیکن اسکندریہ میں آپ کا قتل ہو گیا۔ اسی دہے کے اواخر میں مختلف مصری اخبارات نے بے غیرتی کا ثبوت دیتے ہوئے لکھا کہ انھوں نے خودکشی کی ہے۔ جبکہ کسی ہوش مند سے ایسی اوچھی حرکت پرے ہے۔
لبنانی سائنسداں رمال حسن رمال کا واقعہ بھی ایسا ہی ہے۔ وہ طبعیاتی مواد کے مشہور زمانہ سائنسداں تھے۔ “لوبوان” مجلہ نے آپ کے بارے میں کہا کہ حسن رمال فخر فرانس ہیں۔ ساتویں سائنسی کانفرنس پیرس نے اکیسویں صدی عیسوی کے سو عظیم سائنسی شخصیات میں حسن رمال کا شمار کیا ہے۔ فرانس نے کہا کہ آپ کی وفات تجربہ گاہ میں مشکوک حالت میں ہوئی۔ ان کے بعد ایک اور مسلم سائنسداں ڈاکٹر حسن کامل صباح کی وفات ہوئی۔

(یہ عربی مقالہ صحيفة الشرق القطرية سے لیا گیا ہے: تاريخ النشر : الجمعة 1/إبريل/2011 الساعة 3:50:10 مساءً)

آپ کے تبصرے

3000