اے شاہیں باغ کے چیتا جگر بے باک شاہینو!

صلاح الدین مقبول احمد مدنی شعروسخن

حکومت کی ہے زد میں، اپنی دستوری توانائی

بڑھا جب ظلم تو لی غیرتؔ قومی نے انگڑائی

ہوئے بیدار ہندوؔ مسلمؔ و سکھؔ اور عیساؔئی

تو پھر بجنے لگی ہر سمت آزادیؔ کی شہنائی


اے دلیؔ، یوپیؔ و پنجابؔ ، ہریانہؔ کے آئینو!

اے شاہیںؔ باغ کے چیتا جگر، بے باک شاہینو!


پہنچنا ہے بہت ہمت سے اپنے ان نشانوں کو

سمیٹا ہے دنوں میں، عزم سے لمبے زمانوں کو

زمیںؔ پر رکھ دیا ہے لا کے ، سارے آسمانوںؔ کو

ملا ہے میہمانی کا شرف ، ان میزبانوںؔ کو


جنھیں فرصت نہ تھی اپنے امور خانہ داری سے

سراپا احتجاجی ہیں وہ اپنی باوقاری سے


ہے خاموشی یہاں، پَر حوصلے ہیں اور قرینے ہیں

رواداری ہے ، تہذیب و تمدن کے نگینے ہیں

کہیں اس دیش میں گر آج خشکی پرسفینے ہیں

تو شاہیںؔ باغ میں، شاہیں صفت یہ آبگینےؔ ہیں


یہ جائیں ٹوٹ، ہو سکتا ہے، لیکن جڑ نہیں سکتے

وہ اپنے حق کی آزادی سے ہرگز مڑ نہیں سکتے


لگی ہیں، بے تحاشا، ہر طرف سے ظلم کی گھاتیں

پڑی ہیں سننی تجھ کو بے ادب اور ناروا باتیں

نشانے پر ہیں ان کے تیرے یہ دن، تیری یہ راتیں

ہیں جھیلیں تو نے گرمیؔ، سخت سردیؔ اور برساتیںؔ


کہاں سے آگئی تجھ میں، یہ جاں بازوں کی جاں بازی

سہی ہے، تیری فطرت میں ہے، دل سوزی و دل سازی


جبینؔ پیشوائی ہو، نہ کہ ہر کام میں دُمؔ ہو

یہ ثابت کر دیا حاضر ہو تم، ہرگز نہیں گم ہو

بلندی میں ثریاؔ ہو، قرینِ ماہؔ و انجمؔ ہو

اگر کوئی جہاں میں ہے، تو اے شاہینو! وہ تم ہو


تمہیں آتی ہے زہریلی فضاؤں میں بھی دم سازی

ہے نازک وقت میں بھی برمحل، ساری تگ و تازی


حیا ؔ سے راستوں میں چلنے والی دائیں اور بائیں

یہ بچےؔ بچیاںؔ اور ان کی یہ خاموش سی مائیںؔ

بڑی ہی قیمتی پردہؔ نشینوں کی ہیں یہ رائیں

سراپا حکم کی تعمیل ہے، جو آج فرمائیں


انھوں نے کردیا ثابت یہ اپنی رہ کی گردوں سے

کہ بازی لے گئیں میدانِ حق میں آج مردوں سے


یہ حقؔ کی جیت ہے کہ ساتھ آئے اپنے، بیگانے

یہ شاہینوںؔ کا جذبہ ہے، کوئی مانے یا نہ مانے

دیے ہیں ملک کو اب حوصلوں کے ایسے پیمانے

ہوئیں آباد سڑکیں اور ہوئے ویران کاشانے


یہ عزم و حوصلہ، ان میں جو ہے پروردگاری ہے

بہت بے رحم سردیؔ میں سڑکؔ پر شبؔ گزاری ہے


تقاضا اپنا دستوریؔ ہے، رسمی نا رواجی ہے

جو ہے حاضر یہاں، وہ ہوش مند اور کام کاجی ہے

یہ ایسی انجمن ہے جو ثقافیؔ ہے سماجیؔ ہے

مگر انداز جو ہے انقلابی، احتجاجیؔ ہے


فضا خاموش ہے، اس کا اثر تا دور پہنچا ہے

زمیں کیا، آسماں تک نالۂ مجبور پہنچا ہے


دکھاتا ہے ہمارے دیش کے طلبہؔ میں دم ہونا

علیؔگڑھ، جامعہؔ، نہروؔ، بنارسؔ میں ستم ہونا

نہیں سیکھا ہے شاہینوؔں نے پروازوں میں خم ہونا

بڑھا ہے جوش کہ اس کو نہیں آتا ہے کم ہونا


رواں ان کے رگوں میں علم کا خونِ شبابی ہے

جو نعرہ ان کا ہے، وہ تو سراپا انقلابیؔ ہے


یہاں ہے ایک فرقہؔ، یہ حکومتؔ کے بہانے ہیں

یہاں پر قومیؔ جھنڈا ، قومی نقشہؔ اور ترانےؔ ہیں

رواداری کا منظر ہے، یہی اصلی نشانے ہیں

یہاں پر ہندوؔ مسلمؔ سکھؔ و عیساؔئی گھرانے ہیں


بہت مضبوط ہیں اس دم، رواداری کی زنجیریں

کوئی منصف بھی آکے دیکھ لے جو اس کی تعبیریں


تعجب! اتنی خاموشی سے وہ پیغام دے ڈالا

کہ ایوانِؔ حکومت، بے خودی میں ہے تہ و بالا

ہے مقصد بس کہ شہریتؔ کا یہ قانونؔ ہے کالا

لگا ہے ایسے قانونوں پہ تو دستورؔ کا تالا


حکومت کا یہ حیلہ ہے کہ اس کو راج کرنا ہے

معیشتؔ فکرؔ و فنؔ، تہذیبؔ کو تاراج کرنا ہے


نہیں زیبا، کسی حالت میں ہو نیتؔ کی ناپاکی

ہے یکساں اپنے حق میں ملک کا ہر بندۂ خاکی

سلامی تجھ کو ، تونے تاڑ لی اس کی خطرناکی

قرینِ رشک، نازک وقت میں ہے، تیری بے باکی


یہ سچ ہے، پردۂ سازشؔ کو تونے چاک کر ڈالا

جلا کے ان کی امیدوں کو تونے خاک کر ڈالا


ترا اقدام حیرت خیز ہے، نعرہ دوامی ہے

نمونہ بن گیا تو اور ترا شہرہ عوامی ہے

جہاں بھی شہر میں انبوہؔ ہے، وہ تیرا حامی ہے

اے شاہیںؔ باغ! تو اب ملک میں نامی گرامی ہے


نہیں سوچا تھا جس انداز کو ہم، ہم نشینوں نے

اسے کرکے دکھایا ہے ہماری نازنینوں نے


تو بازی لے گئی ہے، ملکؔ میں جو شاہ بازی میں

رہا نہ فرق اب سڑکوں میں اور میدانِ غازی میں

رہے گا نام تیرا ملک کی تاریخ سازی میں

ہے ہر مذہبؔ کے شاہینوںؔ کا حصہ سرفرازی میں


سلامی تجھ کو مصلحؔ کی ہے اے چالاک شاہینو!

اے شاہیںؔ باغ کے چیتا جگر، بے باک شاہینو!


مصلح نوشہروی

آپ کے تبصرے

3000