صبح کا نور ہوں، خوشبوئے پھول ہوں

م . ع . اسعد شعروسخن

صبح کا نور ہوں، خوشبوئے پھول ہوں

میں محبت کی فطرت پہ مجبول ہوں


جیسا چاہے بنا لے مخاطب مجھے

سخت پتھر سا ہوں، نرم سا پھول ہوں


جرم سچ بولنے کا کیا تھا کبھی

آج تک شہر سے اپنے معزول ہوں


اپنے ہی قتل کا مجھ پہ الزام ہے

یعنی قاتل بھی میں، میں ہی مقتول ہوں


بھوک مری گاؤں سے شہر لے آئی ہے

میں مہاجر نہیں، بلکہ منقول ہوں


تنہا مسجد کو کیسے چلا جاؤں میں؟

ماتحت کا بھی اپنے میں مسؤل ہوں


تم نے پرکھا فقط مجھ کو سمجھا نہیں

تھوڑا مشکل تو ہوں، پر میں معقول ہوں


تم کو بھولا نہیں، بات بس یہ ہے کہ

ان دنوں میں پڑھائی میں مشغول ہوں


باوفا ہے تو، یعنی وفا کی دلیل

میں سراپا وفا، یعنی مدلول ہوں


طفلِ مکتب ہوں میں، مجھ کو اقرار ہے

ہاں میں اسلاف کے پاؤں کی دھول ہوں


گرچہ شہرت مری آپ سی تو نہیں

پھر بھی تھوڑا بہت میں بھی مقبول ہوں


پنہاں مجھ میں بھی اسعد، صدف ہیں بہت

یہ الگ بات ہے کہ میں مجہول ہوں

آپ کے تبصرے

3000