حق ایک مسلک میں محصور ہے، نہ چار مسالک میں

محمد رضی الاسلام ندوی

لاک ڈاؤن کے دوران میں مساجد میں نمازیں محدود کردی گئیں اور گھروں میں ادا کی جانے لگیں۔ اب ماہِ رمضان المبارک کی آمد ہے تو لوگ فکر مند ہیں کہ تراویح کیسے پڑھیں؟ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں میں نے اپنی بعض تحریروں میں کچھ ایسی آراء ذکر کیں جو حنفی مسلک کے مفتی بہ اقوال سے ہٹی ہوئی تھیں تو بعض حلقوں میں بے چینی محسوس کی گئی اور اس کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا گیا۔ بعض حضرات نے اسے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والا اور تنازعہ و انتشار پیدا کرنے والا بتایا۔ بعض حضرات نے تمسخر کرتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کیا کہ چوں کہ مجھے کچھ نہ کچھ لکھنے کی عادت ہے، اس لیے لاک ڈاؤن میں کتابوں سے دور رہنے کی وجہ سے میں یہ ہلکی پھلکی اور غیر معیاری چیزیں لکھ رہا ہوں۔ بعض حضرات نے لکھا کہ میں اصلاً صحافتی مزاج رکھتا ہوں، فقہ کی مجھے ہوا بھی نہیں لگی ہے۔ کچھ حضرات نے مجھے اتنی رعایت دی کہ کوئی شخص مجھ سے کچھ پوچھے تو انفرادی طور پر اسے جواب دے دوں، سوشل میڈیا پر اسے نہ بیان کروں۔ کچھ نوجوان، جن کا خون گرم ہے، انھوں نے تو میری تحریروں کو جاہلانہ اور احمقانہ قرار دیتے ہوئے فیصلہ کردیا کہ میں اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہوں۔ ہر شخص کے منہ میں زبان اور ہاتھ میں قلم ہے۔ وہ آزاد ہے، جو چاہے بولے اور جو چاہے لکھے۔ میں کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ ان حضرات کو منہ لگاؤں، یا ان کا جواب دینے میں اپنا وقت ضائع کروں۔ میں ایک ایک لمحے کو اللہ کی امانت سمجھتا ہوں۔ اگر میں نے اسے بے مصرف کاموں میں صرف کیا تو مجھے بارگاہِ الٰہی میں اس کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا۔

لیکن میرے بعض احباب سنجیدگی سے میرا ‘فقہی مسلک’ جاننا چاہتے ہیں۔ وہ اس تشویش کا اظہار کررہے ہیں کہ جب ہندوستان کی غالب اکثریت حنفی مسلک پر عمل پیرا ہے تو دیگر مسالک کا تذکرہ میں کیوں کرتا ہوں؟ پھر حنفی مسلک کے ذکر میں اس کے مفتی بہ اقوال سے ہٹ کر حنفی فقہاء کے بعض ایسے اقوال کیوں درج کردیتا ہوں جن پر فتویٰ نہیں ہے؟ میرا مزاج ‘عدول عن المذہب’ کا کیوں بن رہا ہے؟ کیوں میں فقہی مسالک بیان کرنے سے آگے بڑھ کر اپنی رائے بھی شامل کردیتا ہوں؟ ان سوالات کا جواب دینے کی بھی میں کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا تھا، لیکن ان کا اصرار ہے کہ میں اپنے موقف کی ضرور وضاحت کروں، اس لیے چند جملے لکھ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ میں بحث و جدال سے گریزاں رہتا ہوں، اس لیے کوئی میری اس وضاحت سے مطمئن ہو یا نہ ہو، مجھے کوئی پروا نہیں۔

میرا ایمان ہے کہ دین کی دو بنیادیں ہیں: اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنّت۔ یہ دونوں واجب الاتباع ہیں، ان کے علاوہ کوئی چیز واجب الاتباع نہیں۔ امام دار الھجرۃ مالک بن انس رحمہ اللہ کا یہ جملہ آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے جو وہ مسجدِ نبوی میں درس دیتے ہوئے قبرِ نبوی کی جانب اشارہ کرکے فرمایا کرتے تھے:

“كُلٌ يُّؤخَذُ مِن قَولِه وَ يُرَدُّ الا صَاحِبُ هذا القَبرِ”

(ہر شخص کی بات قبول کی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، سوائے اس قبر والے کے کہ اس کی ہر بات واجب القبول ہے)

میں جانتا ہوں کہ ائمۂ اربعہ میں سے ہر ایک نے کہا ہے: “میری کوئی بات اگر ثابت شدہ حدیثِ نبوی سے ٹکرارہی ہو تو میری بات کو قبول نہ کرو اور اسے دیوار پر دے مارو”۔

میرے علم میں ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: “جو کچھ اللہ کی طرف سے آیا ہے وہ سر آنکھوں پر، جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملا ہے اسے سننا اور ماننا ضروری ہے، جو کچھ صحابۂ کرام سے ملا ہے، ہم ان کے اقوال میں سے انتخاب کریں گے اور ان سے تجاوز نہیں کریں گے۔ رہے تابعین تو ان کی آراء کو اختیار کرنا ضروری نہیں۔ جیسے وہ ویسے ہم”۔

مجھے فقہ اسلامی کے ارتقا کا بھی علم ہے۔ صحابۂ کرام نے احادیثِ نبوی کو حرزِ جان بنایا اور ان کی خوب اشاعت کی۔ نئے احوال و مسائل میں انھوں نے احادیثِ نبوی کی روشنی میں اجتہاد کیا۔ ان کے اجتہادات میں اختلاف ہوا تو کسی نے اس کا بُرا نہیں مانا۔ ان کے شاگردوں (تابعین) نے اجتہاد کیا، تبع تابعین کے اجتہادات سامنے آئے، جو ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے۔ امام ابوحنیفہ کی آراء سے امام مالک نے اختلاف کیا۔ امام شافعی نے دونوں کی آراء سے اختلاف کیا۔ امام احمد نے اپنے پیش رو فقہاء سے مختلف آراء پیش کیں۔ ائمۂ اربعہ کے علاوہ فقہی ائمہ کی کہکشاں ہے، جن کی آراء کو فقہی مسالک کی حیثیت حاصل تھی اور صدیوں تک ان پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔ کسی کو روک ٹوک نہیں تھی کہ وہ اپنے پہلے کے فقہاء کی آراء سے مختلف کوئی رائے کیوں پیش کررہا ہے؟

جو چار فقہی مسالک متداول اور مشہور ہوئے وہ بھی جمود کا شکار نہیں ہوئے۔ امام ابوحنیفہ سے ان کے شاگردوں امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر وغیرہ نے اختلاف کیا۔ بعد کے حنفی فقہاء نے اپنے متقدمین سے اختلاف کیا اور نئے اور بدلے ہوئے حالات میں مختلف آراء پیش کیں۔ یہ تو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی شریعت میں لچک پائی جاتی ہے اور اس میں ہر طرح کے حالات کے لیے رہ نمائی موجود ہے۔ جو لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اب کسی فقہ میں کوئی نئی رائے نہیں پیش کی جاسکتی، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ درحقیقت اسلامی شریعت کو فرسودہ قرار دے رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ حق نہ فقہ حنفی میں محصور ہے نہ ائمۂ اربعہ کے مسالک میں۔

مجھے تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ فقہ حنفی کے مفتی بہ قول سے ہٹ کر میں کسی رائے کا اظہار نہ کروں۔ کوئی مجھ سے کسی مسئلے میں فقہ حنفی کا مفتی بہ مسلک معلوم کرے اور میں وہ نہ بتاکر اپنی رائے پیش کردوں تو یقیناً میں خطاکار ہوں، لیکن اگر کوئی شخص مجھ سے پوچھے کہ فلاں مسئلے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ اور میں قرآن، حدیث اور آثارِ صحابہ کی روشنی میں جو رائے بہتر سمجھتا ہوں وہ بتادوں تو میں نے کوئی غلطی نہیں کی کہ یہی تو تمام فقہاء کرتے آئے ہیں۔

مجھے تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو کہتے ہیں کہ ہندوستان میں حنفی مسلک کو ماننے والوں کی غالب اکثریت ہے، اس لیے صرف فقہ حنفی کے مفتی بہ اقوال بیان کرنے چاہییں۔ وہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا حوالہ دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک ہندوستان میں امام ابوحنیفہ کے فقہی مسلک کی تقلید ضروری ہے۔ ان کی رو سے تو یہاں جو حضرات شافعی یا سلفی مسلک پر عمل کرتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں۔ یہ بات بھی سمجھ سے پَرے ہے کہ فقہی مسالک موروثی ہوتے ہیں۔ کسی شخص کے باپ دادا اگر حنفی فقہ پر عمل کرتے رہے ہوں تو کیا اس کے لیے بھی اس پر عمل کرنا ضروری ہے؟ صحیح بات یہ ہے کہ ہر مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ قرآن و سنّت کو اپنا رہ نما بنائے۔ زندگی کے ہر مسئلے کو ان کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرے۔ وہ اس پر قادر نہ ہو تو کسی جان کار (اھل الذکر) سے دریافت کرلے کہ اسی کا حکم قرآن میں دیا گیا ہے۔ ہر مسلمان پابند ہے کہ کتاب و سنّت کی پیروی کرے۔ اسے کسی مخصوص فقہی مسلک کی پیروی کا حکم نہیں دیا گیا ہے کہ اس سے خروج اور عدول اس کے لیے جائز نہ ہو۔

مجھے تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو کہتے ہیں کہ میں اپنی کسی رائے کا اظہار و اعلان پبلک میں نہ کروں۔ کوئی مجھ سے مسئلہ پوچھے تو صرف اسے اپنی رائے بتادوں، سوشل میڈیا پر اسے عام نہ کروں۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس کے سب سے بڑے قصوروار فقہاء ہیں کہ انھوں نے اپنی آراء کیوں عام کیں؟ جو ان سے پوچھتا اسے بتادیتے۔ پھر انھوں نے موٹی موٹی کتابیں کیوں لکھیں؟ پھر اصحابِ افتاء کو یہ اجازت کیسے حاصل ہوگئی کہ وہ اپنے فتاویٰ کو مرتّب و مدوَّن کرکے عام کردیں اور جن لوگوں نے ان سے براہ راست رابطہ کرکے کوئی مسئلہ نہیں پوچھا تھا وہ بھی ان سے استفادہ کریں اور ان پر عمل کریں؟؟

مجھے تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو کہتے ہیں کہ فقہ حنفی کے مفتی بہ اقوال سے ہٹ کر پیش کی جانے والی میری آراء امّت میں تفرقہ و انتشار پیدا کر رہی ہیں۔ موجودہ حالات میں، جب کہ اتحاد و اتفاق کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، ان سے اجتناب کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انتشار کوئی الگ رائے پیش کرنے سے نہیں، بلکہ الگ رائے پیش کرنے سے روکنے کی صورت میں برپا ہوگا۔ انتشار اس سے ہوگا کہ کسی کو ایک رائے اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے اور دوسری رائے کو، جو سراسر غلط نہ ہو، بلکہ سلف میں اس کا ثبوت موجود ہو، اختیار کرنے سے روکا جائے۔ جب کسی مسئلے میں کئی آراء ہوں اور اس کا قوی امکان ہو کہ وہ سب صحیح ہوں، تو آزادی ہونی چاہیے کہ جو شخص چاہے ان میں سے کسی کو اختیار کرلے اور اس پر عمل کرے۔ فقہی اختلافات اسلامی شریعت میں توسّع کی دلیل ہیں۔ وہ تفرقہ و تنازعہ کو ہوا دینے والے کیوں کر ہوسکتے ہیں؟ ضرورت ہے کہ اقوال و آراء کا دائرہ تنگ کرنے کے بجائے دلوں کی تنگی دور کی جائے۔

میں اصطلاحی معنیٰ میں نہ حنفی ہوں نہ سلفی، نہ مقلّد ہوں نہ غیر مقلّد۔ کسی بھی سوال کا جواب دیتے وقت میں دیکھتا ہوں کہ اللہ کی کتاب میں اس کا کیا حکم ہے؟ احادیثِ نبوی میں اس کا کیا جواب دیا گیا ہے؟ آثارِ صحابہ میں اس کا کیا بیان ہے؟ اس کے بعد میں احتیاطاً یہ بھی دیکھ لیتا ہوں کہ چودہ سو برس میں فقہائے امّت کی آراء اس کے سلسلے میں کیا ہیں؟ اس کے بعد جو رائے مجھے موجودہ حالات میں روحِ شریعت سے قریب تر نظر آتی ہے اسے بے لاگ پیش کردیتا ہوں۔ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ وہ مروّجہ فقہی مسالک میں سے کس کے موافق ہے اور کس کے مخالف؟ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ موافقت میرے لیے بھی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوان صحابی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے لیے ظاہر فرمائی تھی۔ آپ نے انھیں یمن کا گورنر بناکر رخصت کرتے وقت دریافت کیا تھا: “جب تمھارے سامنے کوئی مسئلہ درپیش ہوگا تو کیا کرو گے؟” انھوں نے جواب دیا: “اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اگلا سوال تھا: “کتاب اللہ میں نہ پاؤ تو کیا کرو گے؟” انھوں نے جواب دیا: “پھر اللہ کے رسول کی سنّت کے مطابق فیصلہ کروں گا”۔ آپ نے دریافت فرمایا: “اگر اس کا حل اللہ کے رسول کی سنّت میں پاؤ نہ اللہ کی کتاب میں تو (کیا کرو گے) ؟” انھوں نے عرض کیا: “پھر میں خود غور کروں گا اور اس میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کروں گا”، یہ سن کر انھوں نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: “اللہ کا شکر ہے جس نے اللہ کے رسول کے فرستادہ کو اللہ کے رسول کی مرضی کے مطابق کام کرنے کی توفیق دی”۔ (ابوداؤد :3592)

5
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
FAISAL NADEEM

شاندار.. جزاک اللہ خیرا.. سچ میں اولوالامر آپ جیسے لوگ ہی ہیں…

عبد الرحمن صدیقی

جزاک اللہ و احسن الجزا

هلال

بہت خوب

انجینیئر نذیر ملک سرگودھا پاکستان

السلام علیکم و رحمۃ
آپکی تحریر قاعدے کلیۓ کے عین مطابق ہے اور آپکی تحقیق سے میں اتفاق کرتا ہوں۔

حقیقت دین محمدی یہی ہے
جذاک اللہ خیرا

انجینیئر نذیر ملک سرگودھا پاکستان

محمد مدني

فقہ حنفی کے ماننے والے عرب بھی ہیں لیکن وہ تعصب وتنگ نظری ان کے یہاں نہیں جو بر صغیر میں ہے موجودہ حالات میں خصوصاً ہندوستان میں تمام مسلمانوں کو مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھ کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے اور اپنی آواز اس ظلم وبربریت کے خلاف بلند کرنے کی ضرورت ہے جو آئے دن ہم دیکھ اور سن کر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں میں تمام اہل فکر کے علماء ومشائخ و دانشوران قوم سے پرخلوص اپیل کرتا ہوں کہ مسلکی اختلافات کو طلاق دے کر مسلمانوں کی موجودہ حالت زار کے لئے کچھ ٹھوس… Read more »