إن من البيان لسحرا

دانش جمال

تحرير: عزير أحمد نور الهدى
ترجمہ: دانش جمال


یہ میری سعادت و خوش نصیبی ہے کہ میں دیارِ ہند کے نابغہ روزگار و بحرِ ناپیدا کنار علامہ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ الله کے بارے میں چند سطور قلمبند کروں جو محدث و مفسر، فصیح و بلیغ خطیب، عظیم قائد اور عجوبہ روزگار تھے۔ جن کی زندگی عظمت و بزرگی، قابلِ فخر کارناموں اور اصلاح بین المسلمین کے تئیں قربانیوں سے پُر ہے۔
وہ ایسی شخصیت ہے جس نے تقسیمِ ہند کے بعد مسلمانانِ ہند کے وجود کو مستحکم کیا اور ان کی بنیاد کو استوار کیا۔ ان کا وجود مسلمانانِ ہند کے لیے ایک مضبوط حفاظت گاہ اور بلند و بالا چہار دیواری تھی۔ ان کی بقا مسلمانانِ ہند کے لیے ایک شجرِ سایہ دار تھا جس سے وہ سایہ حاصل کرتے تھے، اور ایک مضبوط ستون جس سے وہ سہارا پاتے تھے۔ اور جب امام الہندؒ کی وفات ہوئی تو ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا کہ ہندوستان کا آخری مسلمان چلا گیا۔ ربِ ذو المنن ان کی مٹی کو جنت کی خوشبو سے معطر کردے، اپنی رحمت ان پر سایہ فگن کردے اور اپنی وسیع و عریض جنت میں انھیں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین

ان کے مطلوبہ مقاصد و منصوبوں میں سے یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے مابین تالیف قلب کریں، ان کے شگاف و خلل کی مرمت کریں اور ایک امیر کے جنھڈے تلے انھیں جمع کردیں۔ چنانچہ اس مشن کو بروئے کار لانے کے لیے انھوں نے ساری محنت صرف کردی اور خوب جگر کاوی کی، اور اپنے داغہائے جگر کو لالہ زار کردیا۔ لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے انھیں اپنا دشمن گردانا اور ان کے کارناموں پر پانی پھیر دیا، چنانچہ صوبہ اترپردیش کے شہرِ بریلی میں جو بانیِ بریلویت احمد رضا خان کی جائے ولادت ہے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اور علامہ رحمہ الله کو اس کا صدر منتخب کیا۔ اس انتخاب سے پیروانِ احمد رضا ناخوش ہوگئے اور بھڑک گئے، ان کی عقلیں زائل ہوگئیں۔ جب اس چیز کا احساس چند اربابِ عقل و خرد کو ہوا تو وہ علامہ رحمہ کے پاس گئے اور حقیقت حال سے باخبر کیا اور مطالبہ کیا کہ آپ کانفرنس میں شرکت نہ فرمائیں۔ چنانچہ علامہ رحمہ الله کو جو کچھ کہنا تھا کہا جس سے وہ برضا و رغبت لوٹ گئے۔

شیخ عبد الرزاق ملیح آبادی جو علامہ کے اسسٹنٹ اور رفیق تھے اس قصے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب کانفرنس کا وقت آپہنچا تو علامہ نے شیروانی زیب تن کی جو ایک خاص قسم کی پوشاک ہے جسے علما و شرفاء پہنتے ہیں اور اپنی وہ خاص ٹوپی پہنی جس سے پیشانی پر واقع سجدے کا نشان چھپ جاتا تھا پھر اپنی چھڑی لے کر کانفرنس کی طرف روانہ ہوگئے۔
جب وہاں پہنچے تو اسلحہ بردار نوجوان جو شمشیر و بھالے وغیرہ سے لیس ہو کر موقعے کی تلاش میں تھے اور ان پر پل پڑنے کے فراق میں تھے حیران و ششدر رہ گئے۔ چنانچہ علامہ رحمہ الله بلا خوف و خطر پوری شجاعت و عزیمت اور قوتِ ارادت سے جلوہ افروز ہوئے۔ مولانا ملیح آبادی فرماتے ہیں کہ جب میں نے صورتحال دیکھی تو ان کے عقب میں جا کھڑا ہوا تاکہ غفلت و بے پروائی میں انھیں کوئی گزند نہ پہنچے جس سے علامہ ناراض ہوگئے اور فرمایا کہ اگر قضا و قدر نے میرے واسطے کچھ مقدر کردیا ہے تو کیا تم میرے اور قضائے الہی کے درمیان حائل ہوسکتے ہو؟؟؟ ڈرو نہیں! الله ہمارا کارساز ہے.
پھر حاضرین میں سے ایک خطیب اسٹیج پر آئے جو نہایت بلند آواز والے اور فصیح و بلیغ تھے۔ انھوں نے علامہ کی نہایت شدومد سے مخالفت کی اور ان کی فکر کو ناپختہ قرار دیا۔
مولانا ملیح آبادی فرماتے ہیں کہ اس نے ایسی تقریر کی کہ کچھ نہ چھوڑا اور سامعین سے تقریباً اپنی بات منوالی، گویا اس کے بعد کسی اور تقریر و خطبے کی ضرورت نہ رہی۔ چنانچہ اس کا خطبہ ختم ہونے ہی والا تھا کہ علامہ کھڑے ہوگئے اور ایسا زوردار خطبہ دیا جو ان کی زندگی کا عمدہ ترین خطبہ تھا، ان کی زبان میں ایسی جادوبیانی تھی جو سیدھا دلوں پر اثرانداز ہوتی تھی اور ایسے مسحور کن کلمات تھے کہ دلوں کو جھنجوڑ رہے تھے، بس پھر کیا تھا لوگوں کے آنسو رواں ہوگئے، اور ہچکیاں بندھ گئیں، نالے بلند تر ہوتے گئے اور علامہ ابو الکلام آزاد کے نعرے بلند ہونے لگے۔ وہ کلمات ایسے تھے جنھوں نے سینوں کو کشادہ کردیا، دلوں کو جھنجوڑ کر آنکھوں کے سیلاب میں طغیان برپا کردیا، دلوں پر قبضہ و مسخر کرلیا، بھڑکتے احساسات و جذبات کو گلزار کردیا اور دینی و ایمانی بھائی چارے کو پھر سے زندہ کردیا۔ وہ الفاظ ایسے تھے جن سے خوں فشانی پرسکون ہوگئی اور غصہ دور ہوگیا، بغض و کدورت زائل ہوگئی، شک و شبہ مٹ گیا، جو ایک طرح کی بدلی تھی وہ چھٹ گئی۔
جب علامہ خطبے سے فارغ ہوئے تو ابن احمد رضا کھڑے ہوئے اور مجمع عام میں ان کی موافقت کی اور ہر طرح کی نصرت و تائید کا وعدہ کیا۔
اب وہ مقام آیا ہے جس کے لیے میں نے چند سطور بطور تمہید پیش کیے کیا آپ کے دلوں اس شیئ کی معرفت کا شوق نہیں پیدا ہوا۔ میرے بھائیو!
وہ بات یہ ہے کہ جس شخص کے قتل کے لوگ درپے تھے اور جن کے فراق میں لوگوں نے تلواریں سونت رکھی تھیں انھوں نے ہتھیار پھینک دیے اور جب علامہ رحمہ الله اسٹیج سے اترے تو پروانہ وار آگے بڑھ بڑھ کر ان سے مصافحہ کرنے لگے، ان سے معانقہ کرنے لگے اور انھیں بوسہ دینے لگے یہاں تک کہ صورتحال ایسی ہوگئی جیسے علامہ گرپڑیں گے۔
پس نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے سچ فرمایا ہے: بے شک بعض بیان سحر انگیز ہوتے ہیں!

آپ کے تبصرے

3000