سوچ بدلیے

آصف عدیل

دنیا مصائب و آلام کی آماجگاہ ہے، اِس سے کسی کو انکار نہیں۔ لیکن اگر ہم دنیا کو صرف اسی نظریے سے دیکھتے ہیں تو شاید ہمیں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں، کیونکہ دنیا میں جتنے بھی مصائب و آلام پائے جاتے ہیں وہ سب ہماری خوشیوں کی ناقدری کی وجہ سے جنم لیتی ہیں، اگر ہم اپنی خوشیوں پر اکتفا کرکے اُس پر شکر گزاری سے کام لیں تو مصائب ہم سے کوسوں دور کھڑے نظر آئیں گے۔
اگر ہم منفی نظریے سے دنیا کا مطالعہ کریں گے تو سب کے ہاتھوں میں خنجر ہی نظر آئیں گے لیکن ہم ہمیشہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں چند خوشیاں بھی میسّر ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں جو ہاتھوں میں پھول لے کر ہمارے استقبال کے لیے کھڑے ہیں۔ ہمیں وہ مناظر تو بہت جلد نظر آ جاتے ہیں جن میں ہماری پریشانیاں ہوتی ہیں لیکن وہ مناظر نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں جن میں ہمیں چند خوشیاں میسّر ہونے کے مواقع ہوتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ آپ مصائب سے نظر پھیر لیں لیکن ان کے لیے اپنی اُن خوشیوں کو نہ برباد کریں جو آپ کے حصے میں لکھی جا چکی ہیں۔ کم سے کم اپنی زندگی کے کچھ لمحے اِن خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لیے خرچ کریں جو آپ کے دروازے پر دستک دینے کے لیے تیار کھڑی ہیں۔ اگر آپ اپنے اندر جھانک کر دیکھیں تو شاید آپ کا وجود تہمتوں کا انبار لگا دے۔ لیکن اِن تہمتوں کا وجود بھی اپنی ہی کرامات کے نتائج ہیں ہم یہ کبھی نہ بھولیں۔
دنیا کے اُصول و قوانین ہمارے دلوں میں اِس قدر راسخ ہوچُکے ہیں کہ اگر کوئی ہم سے دینی فرائض و واجبات کی بات کرتا ہے تو ہم اُس میں بھی تاویل کرکے اُسے دنیاوی زاویے پر فٹ کرنے کی ناپاک کوشش کرنے میں ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ ہم ماڈرن خیالات کے اتنے عادی ہوچُکے ہیں کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کو بالائے طاق رکھ کر دنیاوی اُمور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں ہوتی، اور نہ ہی اللہ اور رسول کی نافرمانی کا احساس ہوتا ہے۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ اپنے گریبان میں جھانکنے سے پہلے دوسروں کے عادات و اطوار پر ہماری نظر پڑتی ہے، اور اگر کوئی شخص حق بات کہنے کی جسارت کرتا ہے تو ہم اُس کی خامیوں اور عیوب کو ڈھونڈھنے اور لوگوں کے سامنے اُس کی عزت اچھالنے میں ہمیشہ آگے رہتے ہیں۔ حالانکہ اگر کوئی بھی شخص اچّھی بات کہتا ہے یا پھر کسی نیک کام کے لیے ہمیں دعوت دیتا ہے تو ہمیں اُس کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے اُس سے اچّھی اور کام کی باتوں کو اخذ کر کے اُن پر عمل کرنے سے چنداں گریز نہیں کرنا چاہیے، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آیۃ الکرسی ابلیس لعین نے ہی حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کو سکھائی تھی۔
آخر ہم اتنی نفرت لاتے کہاں سے ہیں کہ کسی شخص کو نشانہ بنا کر طعن وتشنیع کرنے میں اتنی دلیری دکھاتے ہیں کہ انسانیت بھی شرما جائے؟

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
ابو حسان مدنى

عمدہ نصیحت