یوں تو ہوتا نہیں یادوں سے گزارا میرا
یہی لاٹھی ہے مگر ایک سہارا میرا
تیری آنکھوں سے ٹپک کر میں کہاں جی پایا
زندگی کرتی رہی بوجھ گوارا میرا
ایسے منجھ دھار میں کھو جاتا ہوں چلتے چلتے
راستا ڈھونڈتا رہتا ہے کنارہ میرا
مجھ کو بازارِ ہوس میں یہ پتا ہی نہ چلا
میرے چہرے نے کہاں چہرہ اتارا میرا
پھیر تو لوں میں بہکتی ہوئی آنکھیں لیکن
کیا کروں دل پہ نہیں کوئی اجارہ میرا
اپنے ہونے کا مجھے اس گھڑی احساس ہوا
میرے محبوب نے جب نام پکارا میرا
تو فقط ایک اشارہ تو کر اے جان حیا!
دیکھ لے گا یہ جہاں ہمت و یارا میرا
ایک طرفہ تھی محبت سو یہی ہونا تھا
میرا بازار مرا سودا خسارا میرا
وہ گلہ کرتے ہیں زلفوں کی پریشانی کا
مجھ کو شکوہ ہے مقدر نہ سنوارا میرا
میرے اشعار پہ وہ داد نہیں دیتے شاد!
اس کا مطلب وہ سمجھتے ہیں اشارہ میرا



آپ کے تبصرے