جاہلوں سے اعراض

تسلیم حفاظ عالی تعلیم و تربیت

موجودہ دور کی اہم خرابیوں میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی عزت و احترام کا لحاظ نہیں رکھتے۔ نہ بڑوں کے ادب ووقارکا کوئی پاس ہے نہ چھوٹوں پر شفقت و مہربانی کا خیال۔ ہر سو طوفانِ بدتمیزی بپا ہے۔ عدم برداشت، غیر سنجیدگی، جلدی بازی اور تذلیل و تحقیر کی آلودگیوں نے پورے سماج کو اپنے شکنجے میں مضبوطی کے ساتھ جکڑ رکھا ہے۔ کتاب و سنت کی واضح ہدایات اور روشن تعلیمات سے روگردانی نے سماج کے تانے بانے کو پوری طرح بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ اپنے مطلب کے حصول کے لیے جائز و ناجائز، حلال و حرام اور صلاح و فساد کے مابین تمیز کیے بغیر ایک انسان کچھ بھی کرنے اور کہنے کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ کیا عالم کیا جاہل ہر کوئی عدم تحمل اور غضب ناکی کا شکار ہے۔ معمولی معمولی چیزوں کے لیے بحث و تکرار اور یا وہ گوئی عام بات ہے ۔ایسے میں شریعت کی واضح اور روشن تعلیم “جاہلوں سے اعراض” پہ گفتگو کرنا اور اسے اپنے قلم و قرطاس کی زینت بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت اور اس کا بنیادی تقاضا ہے۔

جاہلوں سے اعراض کا مطلب: علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الإعراضُ عن الجاهِلينَ يعني: إذا سَفِه عليك الجاهِلُ فلا تُقابِلْه بالسَّفَهِ( مدارج السالکین: 2/291)

جاہلوں سے اعراض کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی جاہل تم سے بدتمیزی کرے تو تم اس کی بدتمیزی کے جواب میں بدتمیزی نہ کرو۔

جاہلوں سے اعراض کی قسمیں :

جاہلوں سے ہر حال میں خاموشی یا کنارہ کشی اچھی بات نہیں ہوتی۔ دیکھنا یہ ہے کہ خاموشی کا مقصد کیا ہے؟ اگر اصلاح، صبر اور وقار مقصود ہے تو یہ نیکی ہے، لیکن اگر غفلت، بےحسی یا مایوسی کی وجہ سے منہ موڑا جائے تو یہ غلط ہے۔ اس لیے علما نے جاہلوں سے اعراض کی دو قسمیں بیان کی ہیں:

(۱) اعراض محمود: یہ وہ صورت ہے جب کوئی شخص کسی جاہل کی بےعقلی اور بدتمیزی کے جواب میں اس سے الجھنے کے بجائے کنارہ کشی اختیار کرے۔یعنی اس کی ایذا کو برداشت کرے،اس کے ظلم پر صبر کرےاور اسے کوئی جواب نہ دے۔یہ سب کچھ صرف اللہ کی رضا کے لیےاس نیت سے کرے کہ شاید وہ سدھر جائےاور اس لیے بھی کہ خود کو ایسے لوگوں کی فضول بحث و تکرار سے بچایا جا سکے۔

(۲) اعراض مذموم : یہ وہ صورت ہے جب کوئی شخص ایسے فرد سے منہ موڑ لے جو اللہ کے حق میں کوتاہی کر رہا ہو۔ اسے دینی بات سکھانے سے گریز کرے، اس کی اصلاح سے مایوس ہو جائےاور اس کی برائی یا ظلم کو بنا کسی نصیحت یا روک ٹوک کے چھوڑ دے۔(جامع البيان للطبري :10/ 645)

بلا شبہ اعراض محمود ان بلند اور عمدہ اخلاق و آداب میں سے ہے جن پر شریعت اسلامیہ نے اپنے متبعین کو ابھارا ہے ۔ ایک عاقل اور مہذب شخص کے لیے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے وقار و معیار سے گر کر کسی بے وقوف اور جاہل شخص سے الجھے، اس کی نادانیوں اور گستاخیوں کا جواب اسی کی سطح پر اتر کے دے۔ شریعت اسلامیہ نے ایک مسلمان کو اس بات کی زبردست تاکید کی ہے کہ وہ اپنے مقام و مرتبے کا ہر حال میں خیال رکھے اور ہر اس چیز سے دور رہے جو اس کے وقار اور عزت واحترام کو مجروح کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہلوں سے اعراض کرنے پر ابھارتے ہوئے فرمایا:

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (الأعراف: 199)

آپ درگزر کو اختیار کریں، نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجائیں۔

علامہ زمخشری رحمہ اللہ نے فرمایا: (وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ): ولا تكافِئِ السُّفَهاءَ بمِثلِ سَفَهِهم، ولا تُمارِهم، واحلُمْ عنهم، وأَغْضِ على ما يَسوؤك منهم(الکشاف: 2/190)

اور جاہلوں سے اعراض کرو یعنی بے وقوفوں کا جواب ان کی بے وقوفی کے انداز میں نہ دو، ان سے جھگڑا نہ کرو، حلم و بردباری اختیار کرو اور ان کی ناپسندیدہ باتوں کو نظر انداز کرو۔

علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے کہا: وفي قولِه: (وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ) الحَضُّ على التَّخَلُّقِ بالحِلمِ، والإعراضُ عن أهلِ الظُّلمِ، والتَّنزُّهُ عن منازعةِ السُّفَهاءِ، ومُساواةِ الجَهَلةِ الأغبياءِ، وغيرُ ذلك من الأخلاقِ الحميدةِ والأفعالِ الرَّشيدةِ(الجامع لأحكام القرآن: 7/ 344).

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’اور جاہلوں سے منہ موڑ لو‘ میں بردباری اختیار کرنے کی ترغیب ہے، ظالم لوگوں سے دور رہنے کی ہدایت ہے، بے وقوفوں سے جھگڑا نہ کرنے اور نادان و احمق لوگوں کے برابر نہ ہونے کی تعلیم ہے۔ اسی طرح کی دوسری اچھی صفات اور درست رویوں کی رہنمائی بھی موجود ہے۔

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وهذه الآيةُ فيها جِماعُ الأخلاقِ الكريمةِ؛ فإنَّ الإنسانَ مع النَّاسِ إمَّا أن يفعَلوا معه غيرَ ما يحِبُّ، أو ما يَكرَهُ، فأُمِرَ أن يأخُذَ منهم ما يحِبُّ ما سَمَحوا به، ولا يُطالِبَهم بزيادةٍ، وإذا فعَلوا معه ما يَكرَهُ أعرَض عنهم، وأمَّا هو فيأمُرُهم بالمعروفِ(مجموع الفتاوي :30/370)

یہ آیت (وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ) تمام اچھے اخلاق کو اپنے اندر سمیٹے ہوئی ہے، کیونکہ انسان کو لوگوں سے دو ہی طرح کے رویے پیش آ سکتے ہیں: یا تو وہ اس کے ساتھ وہ کریں جو وہ پسند کرتا ہے، یا وہ کریں جو اسے ناپسند ہو۔ تو (اللہ نے حکم دیا کہ) جب لوگ اس کے ساتھ وہ کریں جو اسے پسند ہے، تو وہ اسی پر قناعت کرے اور ان سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے۔ اور اگر وہ اس کے ساتھ کوئی ناپسندیدہ بات کریں تو ان سے اعراض کرے۔ اور خود انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ دوسروں کو بھلائی کا حکم دے۔

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے حلم و بردباری سے اتصاف اور جاہلوں سے اعراض کرنے پر اپنے نیک بندوں کی مدح سرائی کرتے ہوئے فرمایا:

وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا(الفرقان: 63)

اور رحمن کے(سچے ) بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔

یعنی جب بے وقوف لوگ رحمٰن کے بندوں سے ایسی بات کریں جو انھیں ناگوار گزرے، تو وہ ان کو ٹھیک اور درست جواب دیتے ہیں، انھیں معاف کر دیتے ہیں اور درگزر سے کام لیتے ہیں۔ اس طرح وہ گناہ سے بھی محفوظ رہتے ہیں، جاہلوں کی بدتمیزی کا جواب بدتمیزی سے دینے سے بھی بچتے ہیں اور ان کی ایذا رسانی کو برداشت کرتے ہیں۔(التفسير المحرر – الدرر السنية، ص: 20/316)

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ (:القصص: 55)

اور جب بےہودہ بات کان میں پڑتی ہے تو اس سے کنارہ کرلیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے عمل ہمارے لیے اور تمھارے اعمال تمھارے لیے، تم پر سلام ہو، ہم جاہلوں سے (الجھنا )نہیں چاہتے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اخلاق و کردار اختیار کرنے پر ابھارتے ہوئے فرمایا: اتَّقِ اللهَ حيثما كُنتَ، وأتبِعِ السَّيِّئةَ الحَسَنةَ تَمْحُها، وخالِقِ النَّاسَ بخُلُقٍ حَسَنٍ( صحیح الترمذی: 1987)

جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، برائی کے بعد بھلائی کرو جو برائی کو مٹادے اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔

ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (بخُلُقٍ حَسَنٍ): وهو بَسطُ المحَيَّا، وبَذلُ النَّدى، وتحمُّلُ الأذى(مرقاة المفاتيح: 8/ 3178)

اچھے اخلاق کا مطلب ہے خوش اخلاقی سے پیش آنا، سخاوت سے مال خرچ کرنا اور دوسروں کی ایذاؤں کو برداشت کرنا۔

یعنی حسنِ اخلاق صرف اچھے الفاظ تک محدود نہیں، بلکہ اس میں خوش روی، فیاضی اور صبر و برداشت جیسے اوصاف شامل ہیں۔

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ مِن أحبِّكم إليَّ وأقربِكُم منِّي مجلسًا يومَ القيامةِ أحاسنَكُم أخلاقًا . ( صحیح الترمذی: 2018)

میرے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں۔

ابن دقيقِ العيد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (حُسنُ الخُلُقِ مِن صفاتِ النَّبيِّين والمُرسَلين وخيارِ المُؤمِنين؛ لا يَجزُون بالسَّيِّئةِ، بل يَعفون ويَصفَحون، ويُحسِنون مع الإساءةِ إليهم(شرح الأربعين النووية،ص: 74)

اچھا اخلاق انبیا، رسولوں اور نیک مؤمنوں کی صفات میں سے ہے۔ وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے، بلکہ معاف کر دیتے ہیں، درگزر کرتے ہیں اور جو ان کے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں، ان کے ساتھ بھی بھلائی سے پیش آتے ہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يا عائِشَةُ إنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ، ويُعْطِي علَى الرِّفْقِ ما لا يُعْطِي علَى العُنْفِ، وما لا يُعْطِي علَى ما سِواهُ( مسلم: 2593)

اے عائشہ ! اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی کی بنا پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو درشت مزاجی کی بنا پر عطا نہیں فرماتا ، وہ اس کے علاوہ کسی بھی اور بات پر اتنا عطا نہیں فرماتا ۔

علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نرمی اللہ عز و جل کو محبوب ہے۔ نرمی جس چیز میں شامل ہوتی ہے، اسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے نکال لی جائے اسے بدنما بنا دیتی ہے۔ اس میں اس بات کی ترغیب ہے کہ انسان کو اپنے تمام معاملات میں نرمی اختیار کرنی چاہیے۔ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، بھائیوں کے ساتھ، دوستوں کے ساتھ اور عام لوگوں کے ساتھ ۔ سب کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود بھی رفیق ہے اوررفق و نرمی کو پسند فرماتا ہے۔اسی لیے جب انسان دوسروں سے نرمی سے پیش آتا ہے تو اُسے دل کا سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہےاور اگر سختی اور تندخوئی سے پیش آئے تو بعد میں نادم ہوتا ہے اور کہتا ہے: کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔مگر اُس وقت وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ نرمی، بردباری اور تحمل سے کام لے تو اُس کا دل کھل جاتا ہے اور وہ اپنے کیے پر کبھی نادم نہیں ہوتا۔ (شرح رياض الصالحين :3/ 578)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

المؤمِنُ الذي يخالِطُ النَّاسَ ويَصبِرُ على أذاهم أعظَمُ أجرًا من المؤمنِ الذي لا يخالِطُ النَّاسَ ولا يَصبِرُ على أذاهم(صحیح ابن ماجہ: 4032)

جو مومن لوگوں سے ملتا جلتا ہے اور ان سے ملنے والی تکلیف پر صبر کرتا ہے ، وہ اس مومن سے زیادہ ثواب حاصل کر لیتا ہے جو لوگوں سے ملتا جلتا نہیں اور ان کی طرف سے آنے والی تکلیف پر صبر نہیں کرتا۔

جاہلوں سے اعراض کرنے کے فوائد:

جاہلوں سے بلا وجہ بحث و مباحثہ سے بچنا اور ان سے الجھنے کے بجائے باعزت طریقے سے کنارہ کشی کرنا نہ صرف عقل مندی ہے، بلکہ دینی و اخلاقی اعتبار سے بھی پسندیدہ اور فائدہ مند عمل ہے:

(۱) جاہلوں سے اعراض کرنا اور ان کے ناشائستہ طرزِ کلام کو برداشت کرتے ہوئے اپنے نفس پر کنٹرول کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے۔

(۲) ایسے لوگوں سے دور رہنے والا لوگوں کی نظر میں پسندیدہ بنتا ہے اور ان کی عزت و تعریف حاصل کرتا ہے۔

(۳)۔ جاہلوں کی ہرزہ سرائیوں سے منہ موڑنا انبیائے کرام اور نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور ان کی سنت پر عمل کرنا ہے۔

(۴) ایسا کرنے سے انسان اپنے غصے کو قابو میں رکھتا ہے اور انتقام لینے کی خواہش کو دباتا ہے۔

(۵) یہ طرزِ عمل انسان کو جاہلوں کی مسلسل بدتمیزی اور زیادتی سے محفوظ رکھتا ہے۔

(۶) جاہل سے الجھنے کے بجائے نرمی و اعراض برتنا، اس کے شر کو روک سکتا ہے، حتیٰ کہ وہ دشمنی چھوڑ کر دوستی اختیار کر سکتا ہے۔

(۷) ایسا طرزِ عمل دل کو سکون اور ذہن کو راحت بخشتا ہے۔

(۸) یہ انسان کی شخصیت کو بلند رکھتا ہے اور اسے فضول بحث و تکرار میں الجھنے سے بچاتا ہے۔

(۹) اعراض و بردباری دلوں کو جوڑتی ہے اور نفرت و اختلاف سے بچاتی ہے۔

یاد رہے کہ جاہلوں سے اعراض کرنا محض کمزوری یا خاموشی نہیں، بلکہ یہ عقل، بردباری اور اخلاقی بلندی کی علامت ہے۔ جو شخص ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا، وہ درحقیقت اپنی زبان کو وقار عطا کرتا ہے اور اپنے نفس کو بلند رکھتا ہے۔ انبیائے کرام، اولیائے عظام اور نیک لوگوں کی سیرت ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ جواب ہمیشہ زبان سے نہیں، بلکہ کردار سے بھی دیا جاتا ہے۔

ایسے وقت میں جب معاشرہ تلخی، سختی اور بدزبانی کی لپیٹ میں ہے، جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا نہ صرف حکمت ہے بلکہ ایک عبادت بھی ہو سکتی ہے اگر وہ اللہ کی رضا اور باطن کی پاکیزگی کے لیے ہو۔اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم خود کو بے وقوفوں کی باتوں سے بلند رکھیں،ان کی حماقتوں کا جواب نہ دیں، دلوں میں وسعت پیدا کریں اور اپنی زندگی کو صبر، حلم اور وقار سے مزین کریں۔ کیونکہ جو خاموش رہ کر آگ بجھا دے وہی دراصل دانا کہلاتا ہے۔

آپ کے تبصرے

3000