اصول اور مفادات کے تصادم میں عموما پہلے مفادات کی جیت ہوتی ہے، اسی لیے انسان اکثر مفادات کی طرف بھاگتا ہے: (وکان الانسان عجولا)
مفادات حالات کے تابع ہوتے ہیں، حالات بدلتے رہتے ہیں اس لیے مفادات عارضی ہوتے ہیں۔
اصولوں پر قائم رہنے کے لیے ایمان و یقین کے ساتھ جس صبر وشکر کی ضرورت پڑتی ہے، اس کا بنیادی تعلق تصور آخرت سے ہے۔ خیر کے نتائج اور شر کے مفاسد دنیا میں بھی نظر آتے ہیں مگر اس بینائی کے لیے تقوی ضروری ہے۔
ابناء قدیم یا ابناء جامعہ کے نام پر جو سرگرمیاں ہوتی ہیں وہ اکثر انارکی پیدا کرتی ہیں، وجہ سبب تشکیل نہیں بلکہ طریقۂ کار ہوتا ہے۔ تشکیل جب اصولی بنیادوں پر نہیں ہوتی تو طریقۂ کار پر مفادات کا اثر پڑنے لگتا ہے۔ اس کا ازالہ ایک ہی طریقے سے ممکن ہے، ابناء کی تنظیم متعلقہ ادارے کا ایک شعبہ ہو، ادارے سے ٹوٹی ہوئی کوئی علاحدہ شناخت نہیں۔
یہ شناخت رفتہ رفتہ مفادات کی اسیر ہوجاتی ہے، پھر وہ ادارے سے منسوب ہونے کے باوجود ایک مستقل وجود کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس سے نہ صرف وسائل تقسیم ہونے لگتے ہیں بلکہ مسائل کو ایڈریس کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔ منافع کو مد نظر رکھتے ہوئے تشکیل دیا جانے والا آرگنائزیشن دھیرے دھیرے اپنے مدار سے بہت دور چلا جاتا ہے۔
اس انتشار سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ابناء جامعہ ایک شعبہ ہو جامعہ میں، اس تجویز کی ایک تقدیم زیر نظر تحریر ہے۔
ڈاکٹر وسیم المحمدی صاحب نے جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں کے پہلے ملتقی خریجین کی مناسبت سے یہ جو ابناء و ذمہ داران جامعہ کے نام چند گزارشات لکھی ہیں وہ اس ملاقات کو مفید سے مفید تر بنانے کی ایک اچھی کوشش ہے۔
یوں تو یہ گزارشات جامعہ محمدیہ کے لیے ہیں مگر دوسرے جامعات بھی ان خطوط پر عمل پیرا ہوکر اپنے ابناء سے ایک خالص علمی نسبت کو نہ صرف زندہ کرسکتے ہیں بلکہ باہمی تعلقات کو انتہائی نفع بخش بھی بنا سکتے ہیں۔ (ایڈیٹر)
کسی بھی جامعہ کے ابناء اس کا اصل اثاثہ ہوتے ہیں۔ اس کے فارغین اس کا حقیقی ثمرہ ہوتے ہیں۔ ادارہ کے اہداف ومقاصد کس حد تک پورے ہو رہے ہیں یہ وہی فارغین طے کرتے ہیں۔ سچے اور اچھےفارغین در اصل اپنے اداروں کے لیے وہ شفاف آئینہ ہوتے ہیں جس میں ادارہ کے خد وخال بالکل صاف اور واضح نظر آتے ہیں۔ یہ اپنے اپنے اداروں کے حقیقی سفراء اور سچےپیامبر ہوتے ہیں۔ سلیم فطرت اور وفا شعار ابناء کی اپنے جامعہ سے محبت اور اس محبت کے تقاضوں کو پورا کرنے کا جذبہ ضرب المثل ہوتاہے۔ اپنے اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لیے جو محبت ان کے دلوں میں ہوتی ہےعموماً وہ دوسروں کے دلوں میں نہیں ہوتی۔اپنے اداروں کے وہ سچے خیر خواہ اورمخلص بہی خواہ ہوتے ہیں۔ ایک ادارہ کا باشعور، باضمیر ، باذوق اورحساس دل فارغ التحصیل جس جوش، جذبہ، شعور، احساس اور دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے ادارہ کی مٹی سے جڑا ہوتا ہے وہ کسی اور کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ شاذ حالتوں میں ہوتا بھی ہے تو نہ آسانی سے ہوتا ہے نہ اس مستوى اور معیار کا ہوتا ہے جو ایک اصیل فارغ التحصیل کے اندر موجود ہوتا ہے۔
انہی امور کے پیش نظر اب جامعات اس جانب بھرپور توجہ دے رہی ہیں۔ ان فارغین سے روابط مضبوط رکھنے کے لیے مستقل شعبے قائم کر رہی ہیں۔
یہ خبر سن کر انتہائی خوشى ہوئی، مسرت کا ایک انوکھا احساس ہوا کہ فارغین جامعہ محمدیہ ان شاء اللہ آنے والے 26-27 اکتوبر کو منصورہ کی سرزمین پر جمع ہوکر اسے نہ صرف رونق بخشیں گے، بلکہ سعادت کے ایک الگ ہی احساس سے سرشار ہوں گے۔ اس مٹی سے جڑے اپنے احباب نیز سابقین ولاحقین سے ملاقات کریں گے۔ اپنے تجربات ومشاہدات شیئر کریں گے۔ مادر علمی کی گود میں بیٹھ کر اپنے گلے شکوے دور کریں گے، اس کی مبارک عمر دراز کے لیے دعائیں کریں گے، اس کی صحت وعافیت اور کامیابی وکامرانی کے لیے پیہم کوشش کا عزم کریں گے۔ جامعہ کے جس مشن کا وہ کلیدی حصہ ہیں اس کی تکمیل میں اپنے مثبت کردار کو جلا بخشیں گے۔ علم کی جس مٹی سے انھوں نے اپنے وجود کو اٹھایا ہے، اپنی شخصیت کو سنوارا ہے، اپنے کردار کی تعمیر کی ہے؛ اس مٹی سے اپنے تعلقات کو مزید پائدار اور نفع بخش بنائیں گے۔
واقعی یہ انتہائی مسرت کی بات ہے۔ بے حد خوشی کا موقع ہے۔ سعادت کا ایک احساس ہے جس کے لمس سے وجود ابھی سے لرزاں ہے۔ اللہ تعالى سے یہی دعا ہے کہ یہ پروگرام وقت مقررہ پر ہو۔ نہایت کامیاب ہو۔ نہایت مبارک ثابت ہو۔
اس طرح کے پروگرام سے دو قسم کے فوائد حاصل ہوتے ہیں: متوقع و غیر متوقع۔ یقیناً بہت سارے فوائد ایسے بھی ہوتے ہیں جو غیر متوقع طور پر ظہور میں آتے ہیں اور پہلے سے ہمارے ذہن میں نہیں ہوتے۔ بلکہ بسا اوقات وہ بہت ہی اہم اور فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ ایسے کئی مثبت فوائد اورایجابی نتائج اس پروگرام سے حاصل ہوں گے جن کی ابھی ہمیں توقع بھی نہیں ہے ۔
تاہم جہاں تک متوقع فوائد کی بات ہے تو کم از کم تین اہم فوائد اس پروگرام سے حاصل ہونے کی قوی امید ہے:
1- فارغین جامعہ کا جمع ہونا اور آپس میں ملاقات کرنا: یہ بذات خود بہت بڑا فائدہ ہے کہ قدیم وجدید فارغین جمع ہوں، ایک دوسرے سے ملاقات کریں اور اس سرزمین پر ملاقات کریں جو ان کے آپسی اخوت ومحبت کا ایک اہم نقطہ انطلاق اور باہمی تعلق کا ایک مضبوط محور ہے۔ جس کی مٹی سے اُن کے اُس تعلق کی جڑیں وابستہ ہیں جس کی اساس علم ہے۔ آگہی ہے۔ عبادت کا سب سے عظیم مرتبہ ہے۔
2- فارغین کا ایک دوسرے کے تجربات ومشاہدات سے فائدہ اٹھانا: خاص طور سے وہ فارغین جو تعلیمی، دعوتی یا رفاہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جو اِن میدانوں میں کسی کلیدی پلیٹ فارم سے جڑے ہوئے ہیں۔ اُن کے تجربات ومشاہدات دوسروں کے لیے مشعل راہ بنیں گے۔ اسی طرح اُن رکاوٹوں اور پریشانیوں کا ذکر بہت ہی مفید ہوگا جو مختلف تعلیمی، دعوتی یا رفاہی مجالات میں کام کرنے والوں کو پیش آتی ہیں۔ فارغین کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی میں مناسب حل تک رہنمائی بھی -ان شاء اللہ- آسان ہوگی۔
فارغین کے اجتماع کا سب سے بڑا متوقع فائدہ غالباً یہی ہے کہ ان کے جہود کا تعارف ہو، یہ پتہ چلے کہ جامعہ کے ہدف اساسی اور اس کے کلیدی مشن سے ہمارے فارغین کس قدر جڑے ہوئے ہیں اور جامعہ اپنے اہداف میں کس حد تک کامیاب ہے۔
اسی طرح ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے، ان کے مشاہدات ایک دوسرے کے لیے مشعل راہ بنیں۔ ان کے راستے میں حائل کٹھنائیوں کا مناسب حل تلاشا جائے۔
چونکہ یہ پہلو بہت ہی اہم بلکہ کلیدی ہے اس لیے ذمہ داران جامعہ سے لے کر شریک ہونے والے فارغین تک، سب کو اس پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور کما حقہ اس پر ترکیز کرنی چاہیے۔
3- تجدید تعلق: یہ تجدیدِ تعلق دو طرح کا ہے۔ ایک فارغین کے آپسی تعلق کی تجدید، دوسرا جامعہ سے ان کے تعلقات کی تجدید۔ عہد رفتہ کی یہ تجدید بہت ہی اہم ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر اس طرح کے پروگرام ہر تین سے پانچ سال میں ایک بار ضرور ہونے چاہئیں۔ تاکہ طلبہ جمع ہوں۔ ملاقات کریں۔ مادر علمی سے مضبوطی سے جڑے رہیں۔ ان کی اہم معلومات جامعہ کے پاس رہے۔ جامعہ میں فارغین کا باقاعدہ ایک شعبہ قائم ہو جو مسلسل فارغین سے رابطہ میں رہے۔ ان کے بنیادی معلومات کو ریکارڈ میں رکھے اور انھیں اپڈیٹ کرتا رہے۔ یقین کریں -ان شاء اللہ- یہ تعلق انتہائی مفید اور کارگر ہوگا۔ اس کے گوناگوں فوائد حاصل ہوں گے۔
اس مناسبت سے فارغین کو سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ وہ اس پروگرام میں بھرپور شرکت کریں اور اپنى موجودگی کو یقینی بنائیں۔ ممکنہ حد تک وقت نکالیں اور اپنی حاضرى سے اس پروگرام کو رونق بخشیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ وہ مکمل تیاری سے جائیں تاکہ اس پروگرام کی کامیابی کا کلیدی حصہ بنیں۔ خاص طور سے وہ احباب جو باقاعدہ تعلیمی، دعوتی یا رفاہی کاموں سے جڑے ہوئے ہیں وہ اپنے انجازات، تجربات، مشاہدات اور عوائق ومشکلات لکھ کر لے جائیں تاکہ حاضرین ان سے اور وہ حاضرین سے کما حقہ مستفید ہوسکیں۔
اسی طرح جس کے پاس جو کچھ بھی پیش کرنے کے لیے ہو وہ اسے باقاعدہ نوٹ کرکے لے جائے اور مناسب موقعوں پر انھیں شیئر کرے۔ کوئی بھی تجربہ، کوئی بھی مشاہدہ، جامعہ سے جڑا کوئی واقعہ، کوئی قصہ، حتى کہ کوئی بھی اشکال، کوئی بھی مشورہ، یہاں تک کہ کوئی شکایت ہی کیوں نہ ہو۔
اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ فارغین کی بھر پور مشارکت ہوگی اور نہ صرف کھل کر بہت ساری باتیں ہوں گی بلکہ منظم انداز میں سب کے سامنے آئیں گی، جن سے فارغین بلا شبہ مستفید ہوں گے۔
بنا تیاری کے گفتگو یا ارتجالی مشارکت اس طرح کے پروگراموں کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اور بسا اوقات 50% فائدہ کم ہوجاتا ہے۔ وقت کا نقصان اضافی ہوتا ہے۔ لہذا اس طرف فارغین جامعہ کے ساتھ ساتھ ذمہ داران جامعہ کو بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایک تیسری چیزیہ ہے کہ فارغین جامعہ جائیں تو یہ ذہن میں رہے کہ وہ ان کا مادر علمی ہے۔ ان کا گھر ہے۔ ان کی علمی دانش گاہ ہے۔ مہمان سے زیادہ خود کو گھر کا فرد اور میزبان سمجھیں۔ ایک دوسرے کی خدمت کریں۔ ایک دوسرے سے محبت سے پیش آئیں۔ جامعہ، اس کے ذمہ داران، خدمت پر مامور طلبہ اور خدمت گزار افراد کو میزبان اور اپوزیشن کی طرح نہ لیں۔انھیں اپنا ہی جزء سمجھیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کریں۔ سوء ظن سے بچیں۔ الفت و محبت کا ماحول بنائے رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ پروگرام کو کامیاب بنانے میں مثالی یوگدان دیں۔
یقین کریں ان شاء اللہ العزیز اس سے ماحول پر نہ صرف محبت کی بارش ہوگی بلکہ اس ملاقات کی لذت بھی کئی گنا بڑھ جائے گی اور ان شاء اللہ یہ پروگرام ایک یادگار پروگرام بن کر فارغین کے دل ودماغ پر نقش ہو جائے گا۔
بلا شبہ ذمہ داران جامعہ اس پروگرام کے لیے بہت ہی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ سب سے پہلے میں انھیں اس کی دلی مبارکباد دیتا ہوں، اپنے فارغین احباب کی طرف سے عموماً، اور اپنی طرف سے خصوصاً اس حسن اقدام پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہم فارغین کے لیے یہ شاندار پروگرام سجایا جا رہا ہے۔ فجزاھم اللہ خیرا، وبارک فیھم۔
بالخصوص رئیس الجامعہ ارشد مختار محمدی حفظہ اللہ بہت ہی مبارکباد کے مستحق ہیں جن کی سربراہی وسرکردگی میں یہ پروگرام ان شاء اللہ اسی ماہِ اکتوبر میں منعقد ہونے جا رہا ہے۔
منصورہ کی سرزمین پر یہ پروگرام آپ کے اُن اعمال میں سے ہے جن میں وہ غیر مسبوق ہیں۔ الحمد للہ، اللہ کے خصوصی توفیق اور فضل وکرم سے انھوں نے منصورہ کی سرزمین پر کئی ایسے عمدہ کارنامے انجام دیے ہیں جن میں وہ السابق الھادی ہیں۔ تقبّل اللہ منہ ہذہ الجہود، وجعلہا فی میزان حسناتہ، وحفظہ والجامعۃمن کل سوء ومکروہ شر، وغفر لہ تقصیرَہ وتجاوزَہ ، ووفقہ لتدارکہ وتفادیہ، وتغمدہ بحسن توفیقہ، وعفوہ وعافیتہ وشآبیب رحمتہ۔ آمین!
موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اس مناسبت سے ذمہ داران جامعہ سے میں دو گزارشات کرنا چاہتا ہوں جو درحقیقت (وذکّر فإن الذکرى تنفع المؤمنین ) کی قبیل سے ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ یہ باتیں ذمہ داران کے ذہنوں میں پہلے سے موجود ہوں گی اور وہ ان پر کام بھی کر رہے ہوں گے۔ یہاں بس تذکیر مقصود ہے۔
پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ فارغین کو دعوت دی جائے۔ خاص طور سے وہ معروف اور بارز فارغین جو علمی، تعلیمی، دعوتی اور رفاہی مجال سے جڑے ہوئے ہیں نیز میدان عمل میں پوری قوت سے موجود ہیں؛ تاکہ ان سے دیگر فارغین بھی بخوبی مستفید ہوں۔
اس سلسلے میں ایک اہم چیز جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ ہمارے وہ فارغین جو تجارتی میدان میں موجود ہیں اور کامیاب بزنس مین ہیں انھیں بھی خصوصی دعوت دی جائے تاکہ ان کے تجارب سے بھی ان کے دیگر احباب مستفید ہوں۔
اسی طرح کوئی بھی ایسا بہترین مجال جو بھلے ہی علمی تعلیمی دعوتی یا رفاہی نہ ہو، مگر کوئی فارغ اس میں ممتاز اور قابل ذکر حیثیت رکھتا ہو تو اسے ضرور بلایا جائے۔ ان شاء اللہ فائدہ سے خالی نہیں ہوگا۔
دوسری چیز ہے حسن انتظام جس کا دائرہ دعوت دینے سے لے کر استقبال تک اور استقبال سے لے کر قیام وطعام تک وسیع اور پروگرام کی ترتیب تک پھیلا ہوا ہے۔ حسن انتظام کا نکھار ہر جگہ نظر آنا چاہیے۔ فارغین بھلے ہی مہمان نہیں ہیں مگر ٹریٹمنٹ وی آئی پی مہمانوں کی طرح ہونا چاہیے۔ مکمل رسپانس اور تکریم۔
یہ جامعہ کے ابناء اور اس کے فرزندہیں۔ جب بیٹا مدت کے بعد ماں سے ملنے آتا ہے تو وہ نہال ہوجاتی ہے۔ اس کا رواں رواں محبت سے جھوم اٹھتا ہے، بالکل یہی کیفیت ہونی چاہیے۔ یا کم از کم اس کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ ابناء ہیں۔ یہ جامعہ کا ثمرہ ہیں۔ اُن کا وجود جامعہ کے وجود سے لازم وملزوم کی طرح جڑا ہوا ہے۔ لہذا ان کے لیے انتظام بھی اسی طرح ہونا چاہیے۔
جامعہ کو اس مناسبت سے سجانا سنوارنا بھی چاہیے۔ جس طرح ماں اپنے بیٹے کے استقبال میں گھر سجاتی ہے۔ بلاشبہ یہ رسپانس یہ آو بھگت یہ تکریم نہ صرف طرفین کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنے میں بھرپور کردار ادا کرے گی بلکہ ان کے درمیان محبت کو سیراب کر دے گی۔
اس سلسلے میں ایک آخرى اور سب سے اہم بات ہے پروگرام کی ترتیب وتنظیم۔ دو دن کے اِس پروگرام پر غور کریں تو کل دس سے بارہ گھنٹے پروگرام کے لیے ملیں گے۔ ان اوقات کو ایسا سیٹ کیا جائے کہ ہر ہر لمحہ کشید کیا جا سکے۔ ہر ہر پل کو یادگار بنایا جا سکے۔ ہر ہر گھڑی کو قلوب واذہان میں نقش کیا جاسکے۔ کس کو کہاں موقع دینا ہے؟ کس کے تجربات سے کہاں فائدہ اٹھانا ہے؟ کس کے مشاہدات کب شیئر کرنے ہیں؟ کس کے مشورہ کو کہاں سننا ہے؟ کس سے کہاں ادب وثقافت کی مجلس سجانی ہے؟ یہاں تک کہ کس سے کب شکوہ شکایت سننی ہے؟ ایسی منظم ومحکم ترتیب ہو کہ پورا پروگرام ایک پروئے ہوئے ہار کی طرح لگے۔ ایک بار شروع ہو تو خاتمہ تک مشارکین وحاضرین اس کے سحر سے نکل نہ سکیں۔
یہ کوئی ناممکن یا بہت مشکل چیز نہیں ہے۔ جامعہ کو اِس سے بڑے بڑے پروگراموں کا تجربہ ہے۔ اس کے پاس کوادر کی کمی نہیں ہے۔ مختلف کالجوں میں ایسے ایسے افراد موجود ہیں جنھیں عالمی پروگراموں میں شرکت کرنے کا شرف اور انھیں بہت قریب سے دیکھنے کا تجربہ حاصل ہے۔ ان کے تجربات سے بخوبی فائدہ اٹھا یا جاسکتا ہے۔
خود رئیس الجامعہ ارشد مختار محمدی -حفظہ اللہ- ایک ماہر اور منجھے ہوئے انسان ہیں۔ کریم النفس اور باذوق ہیں۔ انسان کے اندر فیاضی اور حسن ذوق جمع ہوجائیں، امکانیات بھی موجود ہوں؛ تو بس اسے حسن توفیق کا انتظار رہتا ہے جسے اخلاص کھینچ کر لے آتی ہے۔
مجھے اللہ تعالى کی ذات پھر رئیس الجامعہ -حفظہ اللہ- کی بصیرت، ان کے حسن ذوق اور پر عزم طبیعت سے قوی امید ہے کہ یہ پروگرام امید سے زیادہ کامیاب ہوگا۔ چونکہ وہ خود محمدی ہیں اس لیے یہ پروگرام نہ صرف ان کے احساس وشعور سے گہرائی سے جڑا ہوا ہوگا بلکہ اس کو کامیاب بنانے میں یہی احساس وشعور -ان شاء اللہ- بڑا ہی فعال کردار ادا کرے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس پروگرام کو ہر طرح سے کامیاب کرے، ذمہ داران جامعہ کو جزائے خیر دے، جامعہ، اس کے ذمہ داران، اس کے اساتذہ، اس کے منسوبین، اس کے فارغین سب کو، ہر سوء ومکروہ اور شر سے محفوظ رکھے، جامعہ کی پل پل حفاظت فرمائے، اسے اسوہ رسول -صلى اللہ علیہ وسلم- کا پابند اور منہج سلف کا پاسبان بنائے۔ رئیس الجامعہ ارشد مختار محمدی -حفظہ اللہ- کو صحت وعافیت دے، ان کی عمر، ان کے علم وعمل، ان کی ذریت، سب میں برکت دے۔ انھیں حسن توفیق سے نوازے، ایسے مخلصین کی صحبت سے ان كو سرفراز کرے جواخلاص وللہیت، حکمت وبصيرت، فراست ودور اندیشی کے ساتھ ان کے نیک مشن میں ان کا ساتھ دے سکیں۔
خدا کرے یہ جامعہ مدینۃ السلف بنے
یہ قصر علم ایک دن منارہ شرف بنے
آمين
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين



آپ کے تبصرے