کیسے کہوں

عبدالکریم شاد شعروسخن

دل میں آشوب قیامت ہے مگر کیسے کہوں

“مری جاں تم سے محبت ہے مگر کیسے کہوں”


یہ جو چہرے پہ کئی رنگ نظر آتے ہیں

ہے پتا کس کی شرارت ہے مگر کیسے کہوں


تیری جانب میں کھنچا جاتا ہوں رفتہ رفتہ

ضبط سے تنگ طبیعت ہے مگر کیسے کہوں


اس نے پوچھا ہے مرا حال بڑی مدت بعد

یوں تو دیوانوں سی حالت ہے مگر کیسے کہوں


دل کی دنیا پہ مری جان ہمیشہ کی طرح

آج بھی تیری حکومت ہے مگر کیسے کہوں


سامنے تو ہے مگر پھر بھی کمی ہے تیری

تیری نظروں سے شکایت ہے مگر کیسے کہوں


میرے پہلو میں مرے دل میں مری آنکھوں میں

ایک معصوم سی حسرت ہے مگر کیسے کہوں


کیسے کہہ دوں کہ چلے آؤ مری دنیا میں

خامشی وجہِ اذیت ہے مگر کیسے کہوں


ان کی رسوائی مرے شوق کو منظور نہیں

شاد، اقرارِ حقیقت ہے مگر کیسے کہوں

آپ کے تبصرے

3000