کرونا وائرس اور اسلامسٹوں کا غصہ

ذیشان وڑائچ

کرونا وائرس کے بارے میں روز اول سے کافی کنفیوژن رہی ہے۔ اس بارے میں میڈیکل اور شماریات کے ماہرین نے کافی تضاد بیانیاں کی ہیں۔ معروف اور قابل بھروسہ میڈیکل جرنلوں تک نے جلد بازی میں غیر معیاری تحقیقات شائع کی ہیں۔ کئی جگہ سے خبریں آئیں کہ اس کی ویکسین یا علاج دریافت ہوچکا ہے پر آگے کچھ نہیں ہوا۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اس پر جی بھر کے بین الاقوامی اور مقامی سیاست بھی کھیلی گئی۔ چین پر الزام لگا کہ اس نے دنیا کو اس خطرے سے آگاہ کرنے میں دیری کی بلکہ اوائل میں خبروں کو چھپانے کی بھی کوشش کی۔
ان سب کے نتیجے میں ہمارے کچھ اسلامسٹوں کو اس بارے میں خوب مذاق اُڑانے کا موقعہ مل گیا۔ ان اسلامسٹ بھائی بہنوں کے نکتہ نظر پر میں آگے تبصرہ کروں گا۔ پہلے سمجھا جائے کہ کرونا کے معاملے میں اس قسم کی بے قاعدگی کیوں ہوئی۔

یہ وائرس کی نئی میوٹیشن تھی۔ اس کے اثرات کے بارے میں پوری طرح سے معلوم نہیں تھا۔ جب کوئی نئی چیز سامنے آتی ہے تو اس کی تحقیق میں وقت لگتا ہے۔ اور پھر ۱۹۱۸ کے سپینش فلو کے بعد پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ ایک نئی وبا در آئی تھی جو اتنی تیزی سے پھیلتی ہے۔ لیکن ۲۰۲۰ کی دنیا بالکل ہی مختلف ہے۔ اب بین الاقوامی سفر بہت زیادہ اور بہت تیزی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ دنیا کی آبادی کافی زیادہ ہے۔ آبادی کی کثافت بہت زیادہ ہے۔ اب اپارٹمنٹ ہوتے ہیں جس میں ایک بلڈنگ میں ہزاروں کے حساب سے فلیٹس اور آفس ہوتے ہیں۔ بند اور ٹمپریچر کنٹرولڈ ماحول ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ کار، ٹرین اور طیاروں میں اے سی کے ذریعہ ہوا سرکیلیوٹ کی جاتی ہے۔ اب یہ ایک گلوبل ولیج ہے۔ یہاں پر کوئی بھی چیز مقامی نہیں ہے۔ یعنی بے احتیاطی کی صورت میں متعدی بیماری پھیلنے کے لئے زرخیز میدان موجود تھا۔
دوسری طرف یہ بیماری کچھ لوگوں پر شدت سے اثر کرتی ہے اور کچھ پر اس کی علامات تک ظاہر نہیں ہوتی۔ اور پھر جن پر یہ وائرس اثر کرتا ہے ان کو پہلے کچھ دنوں تک معلوم ہی نہیں پڑتا۔ ان وجوہات کی بنا پر وہ بغیر جانے بوجھے یہ وائرس کئی جگہ پھیلاچکے ہوتے ہیں۔ اربوں انسانوں کے اس قسم کے تعامل کے ساتھ ایک نئے اور نامعوم اور قدرے خطرناک وائرس سے نمٹنے کا کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا۔ ایسے میں جو سب سے زیادہ واضح تھی وہ غیر یقینیت تھے۔ بہت سارے بیانات اور فیصلے اندازوں سے کئے گئے۔ ابھی ہمارے پاس مناسب اور قابل بھروسہ ڈیٹا نہیں تھا۔ زیادہ ٹیسٹنگ نہیں ہوئی تھی۔ ابھی اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ بیماری کس حد تک پھیلی ہوئی ہے۔ ابھی بھی بے یقینی ہے کہ درجہ حرارت اور ہومیڈٹی کا اس وائرس پر کتنا اثر ہوسکتا ہے۔ ابھی اشیاء کے چھونے سے مجموعی اثرات کا بھی پتہ نہیں ہے۔ ماسک کتنا پر اثر ہے اس کے بارے میں بھی بے یقینی ہے۔ ایسی صورت حال میں نتائج اخذ کرنے کے لئے صرف میڈیکل معلومات کافی نہیں ہیں۔ شماریات، کاروبار کرنے کے طریقے، سماجیات یہاں تک کہ عبادات کرنے کے طریقے کی بھی سمجھ ضروری ہے۔
دوسری طرف چونکہ پریشانی اور خوف کا بھی عالم تھا تو سائنسی حلقے پر جلدی ریسرچ کرنے اور جلد از جلد ان کی اشاعت کا بھی دباؤ تھا۔ پھر سائنسی جرنلوں میں بھی مسابقت ہوتی ہے۔ ان سب کے نتیجے کے طور پر کچھ ریسرچ جلد بازی میں ٹھیک سے تحقیق کئے بغیر شائع ہوگئی۔
اس پر مزید یہ کہ بین الاقوامی سیاست کی وجہ سے چین اور امریکہ کے درمیان الزام تراشی کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔ بعض ممالک میں کرپشن اور انتظامی امور کے مسائل کی وجہ سے بے قاعدگیاں بھی ہوئی ہیں۔ بعض سیاست دانوں نے اس موقعے کو سیاسی قوت حاصل کرنے کے لئے بھی استعمال کیا ہے۔ اور پھر نیم حکیموں کو بھی اپنے ٹوٹکوں کے ذریعہ پیسہ کمانے کا موقعہ مل گیا۔ ان سب سے بہت زیادہ غلط فہمیاں پھیلی ہیں۔
الغرض یہ ایک اچھی صورت حال نہیں ہے۔ ایسے میں غلط فہمیاں اور سازشی تھیوریاں پھیلانے کے لیے بہت بڑا میدان خالی ہے۔
یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اس خاص صورت حال میں بے یقینی، تضاد بیانیاں، تنازعات ہوئے ہیں لیکن ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں ان کا ہونا بھی فطری ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں کچھ سوالات ہوں اور ان کا جواب ابھی تک نہ ملا ہو۔ یا پہلے ایک جواب دیا گیا ہو بعد میں اسی بات کو غط قرار دیا گیا ہو۔ اس قسم کی بے ثباتی، تلون اور غیر یقینی اس بات کو لازم نہیں کرتی کہ اس کے پیچھے جھوٹ یا سازش چھپی ہوئی ہے۔

اب آتے ہیں کچھ اسلامسٹوں کے رویے پر۔ پہلے تو واضح ہو کہ میرے لئے اسلامسٹ کوئی فریق یا دشمن نہیں ہیں۔ ہم ایک ہی ہیں۔
اس تحریر کو لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ میرے کچھ دیرینہ اسلامی دوستوں نے ایسی پوسٹیں کی ہیں جس سے لگتا ہے کہ وہ اس صورت حال سے شدید ناراض ہیں۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ کیوں ناراض ہیں، بس ناراض ہیں۔ کچھ اس صورت حال پر طنزیہ اور استہزائیہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں لیکن کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کر رہے ہیں کہ غلط کیا ہوا۔ بس اپنے فرسٹریشن کا اظہار کر رہے ہیں۔
اگر ملحدانہ یا اندھے لبرل نظریات سے بھڑنا ہے اور اس کے لئے کوئی موقعہ ہو تو میں آپ کے ساتھ ہوں۔ لیکن کیا واقعی میں یہ ایسا موقعہ ہے؟
مانا کہ سائنسی علوم میں ہم پیچھے ہیں۔ عصری علوم کی دنیا میں مسلمانوں کا نام کہیں دور دور نظر آتا ہے۔ مانا کہ عالمی اور مقامی سیاست کی لگام ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ عالمی سیاست میں مسلم ملکوں پر زیادتی ہوتی ہے۔
تو پھر کیا جب کہ پوری دنیا ایک خطرناک صورت حال کا سامنا کر رہی ہے کیا ہم اس کو ایک نظریاتی جنگ چھیڑنے کا موقعہ سمجھ کر فائدہ اُٹھائیں؟ چلئے اگر فائدہ اٹھانا ہی ہے تو پھر آپ کوئی واضح مؤقف کیوں اختیار نہیں کر رہے ہیں؟ بس خواہ مخواہ شکوک و شبہات پھیلا کر کیا فائدہ؟ آپ کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات اور سازشی تھیوریوں سے متاثر ہو کر کوئی بے احتیاطی کرے تو قاتل کون ہوگا؟ اور مزید چھ مہینے بعد جب غبار چھٹ جائے گا تب کیا نتیجہ نکلے گا؟ اسلامسٹوں کی ساکھ کا کیا ہوگا؟ آگے آپ کی بات کا کون اعتبار کرے گا؟ کیا آپ کے نزدیک ہر موقعہ نظریاتی سکور کرنے کے لئے ہی رہ گیا ہے؟ کیا اخلاقی ذمہ داری اور اخلاقی سکور بھی آپ کے نزدیک کوئی حیثیت رکھتے ہیں؟ کیا آپ کو اس بات کا خطرہ نہیں محسوس ہوتا ہے کہ کل کو کرونا کی تاریخ لکھی جائے گی تو مسلم نظریات کے حاملین کو افواہ باز ٹولے کے طور پر پیش کیا جائے گا؟ کیا اس بات کا خدشہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو علم دشمن اور انسانیت دشمن گروہ کے طور پر پیش کیا جائے گا؟

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
RIYAZUDDIN SHAHID

TAHREER ACHHI HAI