ڈاکٹر ذاکر نائیک اور تقابل ادیان

محمد ضیاء الحق تیمی تنقید و تحقیق

علم اور ہنر میں جو فرق ہے وہ صرف اہل علم جانتے ہیں۔

بات جہاں سے شروع ہونی چاہیے ہنر والوں نے وہی پوائنٹ چھوڑ دیا۔ بلکہ اسی بنیاد پر ردہ چڑھانا شروع کردیا۔ ایک ہاتھ میں کرنی اور دوسرے ہاتھ میں چھینی ہتھوڑی لے کر لیپاپوتی کرنے اور ٹھونکنے ٹھٹھانے سے عمارت مضبوط نہیں ہوجاتی، اس کے لیے ضروری ہے کہ بنیاد مضبوط ہو۔

جس ‘تقابل ادیان’ کے فن کی بنیاد پر بندے کے سات خون معاف کیے جارہے ہیں یہ بھی تو ثابت ہو کہ وہ ‘تقابل’ ہے یا ‘تفاہم’۔ صاحب نے خود اپنی کتاب کا نام رکھا ہے Similarities Between Hinduism and islam اور ہنر والے اسے تقابل باور کرانے پر تلے ہیں۔

علم یہ کہتا ہے کہ سارے مسلمان تہتر فرقوں میں بٹیں گے، حدیث ہے۔ بہتر جہنم میں جائیں گے صرف ایک جماعت بچے گی۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ بہتر تہتر میں سے نہیں ہے وہ۔ تو ایسا کہنے والے کو کیا‌ سمجھا جائے، علم والا‌؟ کیونکہ جو جماعت کے ساتھ نہیں ہے وہ Obviously بہتر میں سے کسی ایک جیسا ہوجائے گا۔

حالت یہ ہے بندے کی اور اصطلاحات کے معانی بدل‌ رہا‌ ہے۔ اہل حدیث جیسی دو لفظی اصطلاح کے بیچ‌ میں ایک لفظ (صحیح یا ضعیف) کا اضافہ کرکے ایک جدید مضحکہ خیز اصطلاح‌‌ ایجاد کررہا ہے۔ پیس پیس کرتے کرتے Terrorist اور Terrorism کے اصطلاح میں خردبرد کرکے ہر مسلمان کو Terrorist ثابت کرنے کی بے ڈھنگی توضیح کررہا ہے۔

جس کی عقل ٹھکانے پر ہوگی وہ ایسی بہکی بہکی باتیں سن کر کیا کہے گا؟ آر یو آؤٹ آف یور مائنڈ؟ (Are you out of your mind)

یکسانیت وہی تلاش کرتا ہے جس کا ارادہ دو فریقوں میں مانڈولی کرانا ہو۔ Similarity اور Comparison میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

صاحب کی جس مہارت کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے پہلے اسی پر بات ہو۔ اور وہ بات بھی ایسی ہو جیسی زیر نظر مضمون میں دکتور ضیاء نے کی ہے۔ اسلوب میں متانت اور کلام میں اصالت سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی عالم دلائل کی بنیاد پر باتیں کررہا ہے۔

یہ پہلا مضمون‌ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی ان کا کوئی مضمون تھا جس کے مندرجات میں اشکال پیدا کیے جانے پر یہ شاندار تحریر وجود میں آئی۔ اللہ رب العالمین جزائے خیر عطا فرمائے انبیاء کرام کی وراثت کے امین علماء کرام کو جو مسلمانوں کی خیرخواہی میں آگے آگے رہتے ہیں اور اسلاف کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات پر اجتماعی مصالح کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے نقصان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے احقاق حق اور ابطال باطل کی ہر ممکنہ کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔

دکتور ضیاء کی یہ تحریر بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ اپنی بے جا پسند، بے بنیاد محبت اور بے سمت ارادت و عقیدت کو اگر بندہ کنٹرول میں رکھے تو اس ایک تحریر سے حقیقت تک پہنچ سکتا ہے۔ جس مہارت کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بج رہا ہے وہ بس ہنر ہے، ورنہ ویسی ہی شکل و شبیہ بناکر کئی ڈاکٹر اور ایڈوکیٹ برسوں سے زور آزمائی کررہے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ ان غریبوں کے ڈھول چھوٹے ہیں۔ ان کے پاس بھی وسائل ہوتے تو وہ بھی سمندر پر اپنا ہینگنگ اسٹیج لگاتے اور دو دو کروڑ کے چار ڈرون کیمروں سے شوٹ کرتے۔ (ایڈیٹر)


ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے متعلق میرے پچھلے مضمون پر ایک صاحب کی طرف سے ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ تقابل ادیان سے متعلق جو میری رائے ہے وہ درست نہیں ہے کیونکہ یہ تقابل کسی نہ کسی صورت میں سلف کی کتابوں میں بھی موجود ہے، اگر معترض کی اس بات کو بالفرض صحیح بھی مان لیا جائے تو اس کے لیے اہل علم نے جو بنیادی شرط رکھی ہے اور جس کا اعتراف معترض کو بھی ہے کہ تقابل کرنے والا شخص شرعی علوم میں متمکن اور راسخ ہو، کیا یہ شرط ڈاکٹر صاحب میں موجود ہے؟ نیز معترض نے تقابل ادیان کا جو تصور پیش کیا ہے اور اس کے لیے جو دلائل ذکر کیے ہیں وہ اس تصور سے مختلف ہے جو ڈاکٹر صاحب کے یہاں پایا جاتا ہے، اہل علم کے یہاں تقابل ادیان کا جو تصور ہے اس کا مقصد باطل ادیان پر رد، ان کی کتابوں میں موجود تناقضات وتحریفات کی توضیح، شبہات کا ازالہ، اتمام حجت، الزامی جوابات وغیرہ اور ان کے ذریعے اسلام کی حقانیت، صداقت اور برتری کو ثابت کرنا ہے، جبکہ ڈاکٹر صاحب کی مختلف تقریروں سے یہ بات واضح ہے کہ تقابل ادیان سے ان کی اصل مراد مختلف ادیان کے درمیان یکسانیت اور قربت دکھانا ہے، اور دیگر ادیان پر وہ اس وقت رد کرتے ہیں جب سامنے والا بھی اسلام کا رد کرے، ڈاکٹر صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں : ”اسلام اور ہندومت کے درمیان فرق ایس (S) کا ہے:

Everything is God’s (ہر چیز کا مالک خدا ہے)

)Everything is “God”ہر چیز خدا ہے)

اگر ہم اس کومے والے ایس(S)کا فرق مٹا سکیں تب ہندو اور مسلم متحد ہو سکتے ہیں۔“ (اسلام اور ہندو مت ایک تقابلی مطالعہ: ص: 11)

یعنی اگر ہندو بھی یہ تسلیم کر لیں کہ ہر چیز کا مالک خدا ہے تو ہندو اور مسلم باہم متحد ہو سکتے ہیں، جہاں یہ ایک فاسد عقیدہ ہے )کیونکہ اتنی بات تو مشرکین مکہ بھی تسلیم کرتے تھے، وہ بھی اللہ عزوجل کی ربوبیت کے قائل تھے( وہیں پر اس سے ڈاکٹر صاحب کے تقابل ادیان کے منہج کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

بہر حال معترض نے اپنے اس دعویٰ کے اثبات کے لیے من جملہ دلائل کے سعودی جامعات کے تین علمی رسائل کا بھی ذکر کیا ہے، ان میں پہلا رسالہ جس کا معترض نے ذکر کیا ہے اس کا عنوان ہے: ”المسيح عيسى بن مريم عليه السلام بين القرآن والعهدين القديم والجديد: دراسة مقارنة“

اس کے مقدمے میں باحث لکھتے ہیں:

بحث موضوع المسيح عيسى ابن مريم، والقضايا المتعلقة به، دون التعرض إلى موضوعات العقيدة النصرانية الأخرى، ودراستها دراسة تحليلية نقدية مقارنة، من خلال بيان ماورد في العهدين القديم والجديد من نصوص محرفة تتعلق بعيسى عليه السلام، وبيان ما ورد فيهما من نصوص تبين الحق، وتوافق القرآن الكريم

یعنی یہ عیسی علیہ السلام سے متعلق قرآنی نصوص اور عہد قدیم وجدید کے نصوص کے درمیان ایک تقابلی تنقیدی مطالعہ ہے، جس میں عہد قدیم وجدید میں موجود قرآن کے موافق نصوص کا جہاں ایک طرف ذکر ہے وہیں پر قرآن کے مخالف تحریف شدہ نصوص کا بھی ذکر ہے تاکہ عیسی علیہ السلام سے متعلق ان میں موجود باطل عقائد کی تردید ہو جائے۔

اسی طرح دوسرے رسالے کا عنوان ہے:

”الملائكة والجن :دراسة مقارنة في الديانات السماوية الثلاث اليهودية والنصرانية والإسلام“

باحثہ نے اس رسالے کے خلاصے کے طور پرجو بات درج کی ہے وہ یہ ہے:

أن القرآن الكريم بريء مما سطر في بعض التفاسير من القصص التي تخالف قواعد الاعتقاد و مبادى المنطق، وقواعد العقل السليم، وتمس عصمة الأنبياء الكرام، وهذا مأخوذ من كتب أهل الكتاب المحرفة، لذا يجب تنبيه المسلمين على خطورة ما دُسّ في كتبهم من الخرافات والأساطير الإسرائيلية ، حيث أن امتزاج هذه المبتدعات في بعض كتب التفسير والحديث يؤثر على أفكار وعقائد كثير من المسلمين الذين لا يفهمون حقيقة الإسلام كما أن هذه الدسائس البعيدة عن روح الإسلام وواقعه – إن بقيت متصلة بمصادره تظهره بدين يحمل كثيرا من الخرافات ، ومن هنا فإنه يفتح المجال لأعداء هذا الدين للنيل منه والطعن فيه

اس خلاصے میں باحثہ نہایت صریح، دو ٹوک اور فیصلہ کن انداز میں ان کتابوں میں واقع تحریف اور تدلیس کی طرف اشارہ کر رہی ہے، اور جو اسرائیلی من گھڑت قصے اور واقعات بعض تفسیری کتابوں میں در آئے ہیں ان کے خطرناک نتائج سے امت کو آگاہ کر رہی ہے۔

اسی طرح تیسرے رسالے کا عنوان ہے:

” نزعة التجسيم عند اليهود من خلال القرآن الكريم والمصادر اليهودية – دراسة مقارنة“

اس عنوان سے ہی واضح ہے کہ باحث کا مقصد یہود کے ایک باطل عقیدے کی تردید اور ابطال ہے نہ کہ کسی عقیدے میں اسلام اور یہود کے درمیان یکسانیت ووحدت کو دکھانا ہے۔

گویا ان رسائل میں تقابل ادیان کا وہ تصور موجود نہیں ہے جو ڈاکٹر صاحب کے یہاں پایا جاتا ہے۔

اس تعلق سے معترض نے حافظ ابن حجر کے ایک قول سے بھی استدلال کیا ہے لیکن تعجب ہے کہ حافظ ابن حجر کے اس قول میں جو جملہ ڈاکٹر صاحب پر منطبق ہوتا ہے اس کو حذف کردیا گیا اور جو جملہ ان پر کسی بھی صورت منطبق نہیں ہوتا ہے اس کو بطور استدلال ذکر کیا گیا:

حافظ ابن حجر پہلے اس مسئلے میں عدم جواز کا قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

”وَالْأَوْلَى فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ التَّفْرِقَةُ بَيْنَ مَنْ لَمْ يَتَمَكَّنْ وَيَصِرْ مِنَ الرَّاسِخِينَ فِي الْإِيمَانِ فَلَا يَجُوزُ لَهُ النَّظَرُ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ بخلاف الراسخ ؛ فيجوز له النظر في التوراة والإنجيل ، ولا سيما عند الاحتياج إلى الرد على المخالف..“ انتهى من (فتح الباري:(13/525

یعنی حافظ ابن حجر کے نزدیک بھی جواز کے لیے بنیادی شرط شرعی علوم میں رسوخ ومہارت ہے، اس کے بغیر ان کتابوں میں سے کچھ بھی پڑھنا ان کے نزدیک جائز نہیں، کیا اس کے بعد بھی حافظ ابن حجر کے اس قول سے ڈاکٹر صاحب کے لیے جواز کشید کرنا درست ہے؟ نیز حافظ ابن حجر کی اس عبارت کے آخری جملے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کتابوں کو پڑھنے کا اصل مقصد رد اور ابطال ہی ہونا چاہیے البتہ اس کے علاوہ بھی اگر کوئی شرعی مقصد ہو جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے لیے الزامی جواب وغیرہ جس کا ذکر ان کتابوں میں بکثرت موجود ہے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ آگے انھوں نے اشارہ کیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کے نزدیک محض معلومات، اطلاع اور یکسانیت دکھانے کے لیے انھیں پڑھا جائے، خود حافظ ابن حجر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انھیں تورات پڑھنے سے روکنا مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے گا۔ (فتح الباری ط السلفیہ : 13/525)

یہی بات لجنہ دائمہ کے فتویٰ میں بھی ہے:

(الكتب السماوية السابقة : وقع فيها كثير من التحريف ، والزيادة والنقص ، كما ذكر الله ذلك ، فلا يجوز للمسلم أن يقدم على قراءتها ، والاطلاع عليها ؛ إلا إذا كان من الراسخين في العلم ، ويريد بيان ما ورد فيها من التحريفات والتضارب بينها) انتهى من ( فتاوى اللجنة الدائمة – المجموعة الأولى:3/311 )

دیگر اہل علم کی بھی یہی رائے ہے۔

شیخ ابن باز فرماتے ہیں:

أن الواجب على المؤمن الإقبال على ما جاء به الرسول ﷺ من القرآن العظيم، وتدبر معانيه، والإكثار من تلاوته، وأن لا ينظر في كتب أهل الكتاب إلا أهل العلم والبصيرة إذا دعت الحاجة إلى الرد عليهم من كتبهم، أهل العلم، والبصيرة، والفهم؛ هذا لا بأس عند الحاجة، كما فعل شيخ الإسلام ابن تيمية وجماعة، وإلا فعامة الناس وعامة الطلبة لا ينبغي لهم أن ينظروا فيها، ولا يلتفتوا إليها؛ لأن ذلك قد يضرهم، قد يسبب عليهم يسبب لهم مشاكل، وفتن، وشبهات (الموقع الرسمي للشيخ)

شیخ ابن عثیمین فرماتے ہیں:

أما طالب العلم الذي لديه علم يتمكن به من معرفة الحق من الباطل : فلا مانع من معرفته لها – الأناجيل – لرد ما فيها من الباطل ، وإقامة الحجة على معتنقيها(مجموع فتاوى ورسائل ابن عثیمین:(1/33

بلکہ حافظ زرکشی نے ان محرف کتابوں کو پڑھنے کو مطلقا ناجائز کہا ہے اور اس پر اجماع تک نقل کیا ہے، فرماتے ہیں:

لا خلاف أنهم حرفوا وبدلو، والاشتغال بمنظرها وكتابتها لا بجوز بالإجماع(فتح الباری ط السلفیہ: 13/525)

امام احمد سے تورات وانجیل پڑھنے سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ غضبناک ہوگئے گویا یہ ان کے یہاں ناجائز ہے، اسی طرح مطلقا عدم جواز کے قول کو موسوعة فقهية کویتییہ (34/184) نے حنفیہ اور حنابلہ کی طرف منسوب کیا ہے، الغرض اہل علم یا تو تورات اور انجیل کے پڑھنے کو مطلقا نا جائز کہتے ہیں یا پھر شروط وقیود کے ساتھ اس کو جائز کہتے ہیں۔

ابن حزم کی کتاب الفصل فی الملل والاھواء والنحل، شہرستانی کی الملل والنحل، ابن تیمیہ کی الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح اور ابن قیم کی هداية الحياة في أجوبة اليهود والنصارى وغیرہ سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ اہل کتاب کے شبہات کی تردید، ان کے ادیان کے بطلان نیز اسلام کی برتری اورصداقت کو ثابت کرنے کی غرض سے انھیں پڑھنا ارباب علم وبصیرت اور شرعی علوم کے ماہرین کے لیے جائز ہے، بلکہ بسا اوقات فرض کفایہ میں داخل ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے اندر تو بنیادی شرط ہی مفقود ہے، وہ نہ شرعی علوم میں بصیرت رکھتے ہیں اور نہ ہی اسلامی عقائد ومبادیات پر ان کی نظر گہری ہے، تو پھر وہ دیگر ادیان کا تقابل اسلام سے کیسے کر سکتے ہیں؟ کیا اس بات کا شدید اندیشہ نہیں ہے کہ وہ جس چیز کو اسلامی عقیدہ اور نظریہ سمجھ کر دیگر ادیان سے اس کا تقابل پیش کر رہے ہیں وہ در اصل اسلامی عقیدہ و نظریہ ہی نہیں ہو؟ کیا الہیات کے ابواب اور اسماء وصفات کے مباحث میں بہت سارے اجنبی عقائد اور فاسد نظریات اسی ہندو ویونانی فلسفوں میں انہماک کا نتیجہ نہیں ہیں؟ کیا وحدت الوجود کا عقیدہ، اتحاد وحلول کا عقیدہ، تناسخ ارواح کا عقیدہ، فنا کا عقیدہ، صفات باری تعالیٰ کے انکار کا عقیدہ، تجسیم وتعطیل کا عقیدہ اسی چور دروازے سے مسلمانوں میں داخل نہیں ہوا ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے تعلق سے اس قدر خوش فہمی پال لی جائے کہ وہ شرعی علوم سے لیس ہوئے بغیر ان خطرناک اور مہلک عقائد کے اثرات سے محفوظ رہ جائیں گے اور لا شعوری طور پر ہی سہی ان باطل وفاسد عقائد کی ترویج واشاعت کا سبب نہیں بنیں گے جن باطل عقائد کے خلاف ہمارے اسلاف کے جہاد اور قربانیوں کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے؟

یقیناً ڈاکٹر صاحب سے متعلق بھی یہ خوش فہمی درست نہیں، چنانچہ ڈاکٹر صاحب کی کتاب ”اسلام اور ہندو مت ایک تقابلی مطالعہ“-جو کہ در اصل ان کی انگریزی تقریر کا اردو ترجمہ ہے- کو پڑھنے سے اندازہ ہوا کہ وہ ان غلط وباطل عقائد ونظریات سے جگہ جگہ بری طرح متاثر ہیں، بطور دلیل نیچے اس کتاب کے بعض اقتباسات نقل کیے جا رہے ہیں جن کو ڈاکٹر صاحب نے ہندوؤں کی مقدس کتابوں کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور جن کے ذریعے اسلام اور ہندو ازم کے درمیان یکسانیت دکھانے کی کوشش کی ہے:

(1) ”اس کا نہ باپ ہے۔ نہ ماں ہے۔ نہ ہی اس کا کوئی حاکم ہے۔

اسے کسی نے جنم نہیں دیا۔ وہ ہماری عبادت کا مستحق ہے۔ روشنی کے تمام تر ذرائع اس کے وجود سے پھوٹتے ہیں مثلاً سورج وغیرہ۔ میری یہ دعا ہے کہ وہ مجھے کسی بھی نقصان سے محفوظ رکھے۔ چونکہ اس نے کسی سے جنم نہیں لیا لہذا وہ ہماری عبادت کا مستحق ہے۔“

ان دونوں اقتباس میں اللہ عزوجل کے لیے والدین کی نفی تو کی گئی لیکن اولاد کی نفی نہیں، جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ مشرکین مکہ اللہ عزوجل کی طرف بیوی اور اولاد کی نسبت کرتے تھے (وقالوا اتخذ الله ولدا)، نیز فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے (ويجعلون لله البنات)، عیسائی مسیح علیہ السلام کو، یہود عزیر علیہ السلام کو اور مجوس سورج و چاند کو اللہ کا بیٹا سمجھتے تھے، گویا اللہ کی طرف اولاد اور بیوی کی نسبت یہ قدیم زمانے سے مشرکوں اور اہل کتاب کا عقیدہ رہا ہے، اور یہی باطل عقیدہ ان دونوں جملوں میں بھی مضمر ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس کو سورہ اخلاص کی طرح قرار دیا ہے۔

اسی طرح اس قول میں کہ (روشنی کے تمام تر ذرائع اس کے وجود سے پھوٹتے ہیں مثلاً سورج وغیرہ) بہت سارے اشکالات ہیں۔

(2) ”اس کو دیکھا نہیں جا سکتا کسی نے بھی اسے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا۔“

اس اقتباس میں اللہ کی رؤیت کا صاف انکار ہے، یہ ایک باطل عقیدہ ہے، اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے کہ آخرت میں اہل ایمان اپنی آنکھوں سے رب کے دیدار کی نعمت سے شرف یاب ہوں گے:

عن أبي هريرة: أن الناس قالوا: يا رسول الله، هل نرى ربنا يوم القيامة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هل تضارون في القمر ليلة البدر؟»، قالوا: لا يا رسول الله، قال: «فهل تضارون في الشمس، ليس دونها سحاب؟»، قالوا: لا يا رسول الله، قال: «فإنكم ترونه كذلك» (البخاری: 7437، مسلم: 2968)

جبکہ معتزلہ، جہمیہ، خوارج اور روافض جیسے گمراہ فرقے دیدار الٰہی کا انکار کرتے ہیں۔ دیکھیں (حادي الأرواح: 196)

(3) ”اس کی کوئی شکل نہیں ہے۔ کوئی تصویر نہیں ہے۔“

اس میں اللہ کی صورت کی نفی ہے، جبکہ کئی صحیح احادیث میں اللہ کے لیے صورت کی صفت کو ثابت کیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

خلق الله آدم على صورته(صحيح مسلم: 2612)

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

فيأتيهم الجبار في صورته التي رأوه فيها أوَّل مرة، فيقول: أنا ربكم، فيقولون: أنت ربنا …(صحيح البخاري: 7439، مسلم: 183)

اس لیے ہم اللہ کے لیے صورت کی صفت کو ثابت مانتے ہیں جیسا کہ اس کی عظمت وجلال کے شایان شان ہے۔

لیکن جہمیہ، معتزلہ اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے اشاعرہ اور ماتریدیہ صورت کی صفت کا انکار کرتے ہیں، اور شاید یہ فاسد عقیدہ اسی ہندو فلسفہ کی راہ سے ان کے اندر داخل ہوا ہے، اس باطل عقیدے کا سبب یہ ہے کہ ان کا یہ وہم ہے کہ اللہ کے لیے صورت، یا چہرہ یا ہاتھ وغیرہ ثابت کرنے سے مخلوقات کے ساتھ تشبیہ لازم آتی ہے، جب کہ یہ دلیل انتہائی بے بنیاد ہے، کیونکہ جس طرح اللہ کی ذات ثابت کرنے سے دیگر ذوات سے تشبیہ لازم نہیں آتی ہے، اسی طرح اللہ کی صفات ثابت کرنے سے دیگر صفات کے ساتھ تشبیہ لازم نہیں آتی ہے اور اللہ عزوجل کی صورت کا انکار در اصل اس کے وجود کے انکار کو مستلزم ہے۔

(4) ”وہ جسم سے پاک ہے اور پاک ذات ہے۔“

جسم ایک مجمل لفظ ہے، جس کا ذکر کتاب وسنت میں نہیں آیا ہے، اس کا ایک صحیح معنی بھی ہے اور ایک باطل معنی بھی، اس لیے نہ ہی مطلقا اس کی نفی درست ہے اور نہ ہی اثبات درست ہے، اگر جسم سے مراد ایسا جسم لیا جائے جو انسان اور حیوان میں معہود ہے جو گوشت، ہڈی اور خون کا مرکب ہے تو یقینا اس کی نفی کی جائے گی، لیکن اگر اس سے مراد ایسی ذات جو مختلف صفات سے متصف خود سے قائم ہو یا جس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہو تو پھر اس کی نفی درست نہیں ہے۔

لیکن اس سے پہلے والے شلوک سے یہ واضح ہے کہ یہاں صحیح معنی کی نفی مراد ہے۔

(5) ”رگ وید میں خدا کے کم از کم 33 صفاتی نام درج ہیں؛ ان میں سے ایک خوبصورت صفاتی نام برہما بھی ہے۔ برہما کا مطلب ہے تخلیق کرنے والا ۔ اگر آپ اس کا عربی میں ترجمہ کریں اس کا مطلب ہے، خالق۔ ہم مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں اگر آپ خدا تعالیٰ کو خالق یا تخلیق کرنے والا یا ”بر ہما“کہہ کر پکاریں لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ بر ہما وہ خدا ہے جس کے چار سر ہیں اور ہر ایک سر پر ایک تاج رکھا ہے تو ہم مسلمان سخت احتجاج کریں گے کیونکہ تم خدا کو ایک شکل سے نواز رہے ہو۔ مزید برآں تم یجر وید کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہو کیونکہ اس میں درج ہے کہ: ” اس کی کوئی شکل نہیں ہے۔“

”ایک اور خوبصورت صفاتی نام وشنو ہے، اس کا مطلب ہے پالنے والا اگر آپ اس کا عربی ترجمہ کریں تو اس کا مطلب ہے، رب۔ ہم مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہ ہوگا اگر کوئی خدا تعالیٰ کو ”رب“ کہہ کر پکارے یا پالنے والا کہہ کر پکارے یا ”وشنو“ کہہ کر پکارے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ وشنو وہ خدا ہے جس کے چار بازو ہیں …. ان میں سے ایک دائیں بازو میں اس نے چکر تھام رکھا ہے تو ہم مسلمان اس کے خلاف سخت احتجاج کریں گے۔ مزید برآں تم یجر وید کی کھلا خلاف ورزی کر رہے ہو اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ تمام تعریفیں اس کے لیے ہیں۔“

ڈاکٹر صاحب نے یہاں اللہ کے لیے برہما اور وشنو کہنے کو جائز قرار دیا گیا ہے، جبکہ یہ اللہ عزوجل کے اسماء میں الحاد ہے۔

اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں:

وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ

اللہ کے اسماء میں الحاد کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان میں سے ایک شکل یہ ہے کہ مخلوقات کو اللہ کے ساتھ تشبیہ دی جائے، یہی کام سارے مشرکین کرتے ہیں، وہ اپنے معبودان باطلہ کو خالق عز وجل کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اور ان کے لیے ان خصائص اور ناموں کو ثابت کرتے ہیں جو اللہ عزوجل کے لیے خاص ہیں، جیسے مشرکین مکہ اپنے خود ساختہ معبودوں کے نام اللات الہ سے، عزی عزیز سے اور مناة منان سے رکھے ہوئے تھے۔

چنانچہ ہندووں کے نزدیک بھی جو الہ کا تصور ہے اس میں اس کی تین عظیم صفات ہیں : پہلی صفت تخلیق، دوسری صفت پرورش، تیسری صفت موت اور ہلاکت۔ چنانچہ انھوں نے ان تینوں صفات کے لیے الگ الگ خود ساختہ معبود تراش لیے، ایک برہما یعنی کائنات کو پیدا کرنے والا، دوسرا وشنو یعنی پرورش کرنے والا، تیسرا شیو یعنی موت دینے والا۔ چنانچہ وہ ان الفاظ سے اپنے ان خود ساختہ معبودوں کو مراد لیتے ہیں اوران ہی کی پرستش کرتے ہیں، نہ کہ ان سے ان کی مراد اللہ وحدہ لا شریک کی ذات ہے۔

نیز یہاں ڈاکٹر صاحب نے بت پرستی کا رد جس دلیل کی بنیاد پر کیا ہے کہ خدا کی کوئی شکل وصورت نہیں ہوتی اور یہ وید کی تعلیم کے بھی خلاف ہے۔

یہ در اصل ایک باطل کو دوسرے باطل کے ذریعہ رد کرنا ہے جو خود کئی باطل کو مستلزم ہے، کیونکہ اگر یہ مشرکین اپنے ان معبودانِ باطلہ کی مورتیاں نہ بھی بنائیں اور ان کی عبادت کریں تب بھی یہ مشرک اور کافر ہی ٹھہریں گے، خود کئی ہندو پنڈت اور مفکرین یہ بات مانتے ہیں کہ مورتیاں بنانے کا مقصد ابتدا میں پوجا پاٹ میں توجہ کو مرکوز کرنا ہے ورنہ بذات خود یہ مورتیاں مقصود نہیں ہیں، جب ذہن شعور کی بلند سطح پر پہنچ جاتا ہے تو بتوں کی ضرورت در پیش ہی نہیں ہوتی ہے۔

چنانچہ ڈاکٹر ذاکر صاحب خود نقل کرتے ہیں:

”ہندو پنڈت اور مفکرین اس امر سے اتفاق کرتے ہیں کہ ویدوں اور دیگر مذہبی ہندو کتب میں بتوں کی پوجا کی ممانعت کی گئی ہے۔ لیکن ابتدا میں چونکہ ذہن پختہ کار نہیں ہوتا تو عبادت اور پوجا پاٹ کے دوران توجہ مرکوز کرنے کی غرض سے ایک بت درکار ہوتا ہے۔ لیکن جب ذہن شعور کی بلند سطح پر پہنچ جاتا ہے تب توجہ مرکوز کرنے کی غرض سے بت کی ضرورت در پیش نہیں ہوتی۔ “

لہذا اس باطل دلیل کے ذریعے نہ شرک وکفر پر ضرب پڑتی ہے اور نہ ہی یہ توحید کی دعوت کو مستلزم ہے، جبکہ بت پرستی کے رد میں قرآن کریم میں سیکڑوں عقلی و نقلی دلائل موجود ہیں جن کے ذریعے مشرکین پر حجت قائم کی گئی ہے اور ان کے شبہات کی تردید کی گئی ہے، بلکہ اس موضوع پر قرآن کریم میں اتنے سارے مواد موجود ہیں کہ اس پر باضابطہ ایک رسالہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں لکھا گیا جس کا عنوان ہے :

” منهج القرٱن الكريم في دعوة المشركين الى الإسلام للباحث الدكتور حموده بن أحمد بن فرج الرحيلي“

(6)ہندومت میں زندگی بعد از موت کے تحت لکھتے ہیں:

” ہندومت میں دوسرے جنم کا نظریہ از سر نو جسم نیا جسم حاصل کرنا یا روح کا تناسخ واقع ہونا ….. روح کا دوسرے قالب میں ڈھلنا۔ ہندومت پیدائش کے ایک تسلسل پر یقین رکھتا ہے موت اور نیا جنم جس کو سمسارا (Samsara) کہا جاتا ہے۔ سمسارا یا نیا جنم از سر نو نیا جسم حاصل کرنے)کا نظریہ کہلاتا ہے یا روح کے تناسخ (روح کا دوسرے قالب میں ڈھلنا) کا نظریہ کہلاتا ہے اور یہ ہندومت کا بنیادی عقیدہ ہے۔“

پھر اخیر میں فرماتے ہیں:

” دوبارہ پیدائش کا ذکر دیدوں میں نہیں ہے دوبارہ جنم کا نظریہ کسی بھی وید میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔“

یعنی اپنیشد کے مطابق تناسخ ارواح کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے جبکہ ویدوں کے مطابق آخرت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، گویا ڈاکٹر صاحب ان دونوں نظریات کو پیش کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح مسلمانوں کے یہاں موت کے بعد ایک دوسری زندگی کا تصور ہے ہندو مذہب میں بھی یہ تصور موجود ہے۔

کیا موت کے بعد سے متعلق اسلام اور ہندو ازم کے ان دونوں تصور میں کچھ بھی یکسانیت ہے؟ کیا تناسخ ارواح کے اس خبیث اور باطل عقیدے کو اسلامی عقیدے کے ساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے جس میں قبر، برزخ، بعث ونشور، حشر، میزان، پل صراط، جنت جہنم، وغیرہ جیسے بنیادی عقائد موجود ہیں؟

(7)ڈاکٹر صاحب تقدیر سے متعلق اسلامی نظریہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

” اسلام میں قدر تقدیر کا نظریہ ہے۔ انسانی زندگی کے کئی ایک پہلو ہمارے خالق اللہ تعالیٰ کی ذات پاک نے پہلے سے مقرر رکھے ہیں۔ مثلاً کوئی انسان کب اور کہاں پیدا ہوگا کب اور کہاں جنم لے گا وہ کن حالات کے تحت جنم لے گا وہ کتنی دیر تک اس دنیا میں حیات رہے گا اور کہاں پر اس کی موت واقع ہوگی۔“

اس میں ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا کہ انسانی زندگی کے کئی ایک پہلو ہمارے خالق اللہ تعالیٰ کی ذات پاک نے پہلے سے مقرر رکھے ہیں سارے پہلو نہیں، یہ تو نہایت خطرناک اور کفریہ عقیدہ ہے، اللہ عزوجل فرماتا ہے:

إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ(القمر: 49)بے شک ہم نے ہر چیز ایک مقررہ اندازے سے پیدا کیا ہے۔

سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا (الأحزاب: 38)گذشتہ لوگوں کے لیے بھی اللہ کی یہی سنت رہی ہے اور اللہ کا ہر فیصلہ طے شدہ ہے۔

گویا کہ اللہ عزوجل نے ہر چیز کا اندازہ پہلے سے مقرر کر رکھا ہے، کائنات کا کوئی ذرہ اور کوئی بھی شئی اس سے مستثنی نہیں ہے۔

اہل سنت تقدیر کے چاروں مراتب علم، کتاب، مشییت اور خلق پر ایمان رکھتے ہیں جبکہ قدریہ وغیرہ گمراہ فرقے یا تو تقدیر کا بالکلیہ یا پھر بعض مراتب کا انکار کرتے ہیں۔

یہ چند مثالیں بطور نمونہ ہیں ورنہ ان کے علاوہ بھی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جنھیں ڈاکٹر صاحب نے ہندوؤں کی مختلف کتابوں سے نقل کیا ہے تاکہ ان کے درمیان اور اسلامی عقائد کے درمیان یکسانیت دکھا سکیں۔ جبکہ وہ سارے کفریہ، باطل اور فاسد عقائد ہیں جو کہ جہمیہ ، قدریہ، ماتریدیہ، اشاعرہ اور صوفیاء وغیرہ گمراہ فرقوں کے یہاں پائے جاتے ہیں، جن کا اصل مصدر در حقیقت یہی ہندو ویونانی فلسفے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ شرعی علوم میں رسوخ اور اتقان کے بغیر ان کتابوں کو پڑھنا کسی بھی شخص کے ایمان وعقیدے کے لیے حد درجہ خطرناک ہے، انسان شعوری ولاشعوی طور پر بہت سارے باطل عقائد کا حامل ہو جاتا ہے، اور اگر وہ داعی ہو تو یہ عقائد دوسرے مسلمانوں میں بھی پھیلنے کا سبب بن جاتا ہے، مسلمانوں کے اندر بہت سارے باطل عقائد ہندو ویونانی وغیرہ فلسفے کے راستے سے ہی داخل ہوئے، ڈاکٹر صاحب کا حال بھی اس سے یکسر مختلف نہیں ہے، انھوں نے بھی اس تقابل میں بہت سارے باطل عقائد کی تائید کی ہے، اس لیے اس تعلق سے کسی بھی طرح کی لچک اور تساہل بہت زیادہ نقصان دہ ہے، نیز ڈاکٹر صاحب جس انداز سے ادیان باطلہ کے ساتھ اسلام کا تقابل پیش کرتے ہیں اس سے دیگر مذاہب کی کتابوں کا تقدس اور احترام بڑھ رہا ہے، عوام میں ان کے مطالعے کا رجحان عام ہورہا ہے، ڈاکٹر صاحب نے انھیں اپنے اسکول میں داخل نصاب تک کر رکھا ہے، جو کہ ان میں موجود کفر، الحاد اور شبہات عام مسلمانوں میں پھیلنے کا موجب ہے۔ جبکہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب ہے اور اس نے تورات، زبور، انجیل اور دیگر کتب کو منسوخ کر دیا ہے، مزید یہ کہ ان میں تحریف بھی کی گئی ہے لہذا ان کتابوں کو عمومی طور پڑھنے کی دعوت دینا یا انھیں غیروں کو اسلام کی دعوت کے لیے بطور اساس استعمال کرنا سخت فتنے کا باعث ہے، اس کا اندازہ آپ روی روی شنکر کے جواب سے لگائیں جو انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو ہی ان کے ساتھ مناظرے کے درمیان دیا تھا:

” اس کا اظہار بہت خوب !!! یہ اچھا ہے : پہلا اب آپ سب ویدوں کے لیے احترام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے خود بھی کہا ہے کہ ویدوں کا احترام کریں اور انھیں کافروں کی کتابیں نہ سمجھیں۔ لہذا ہر مسلم کو ہندو کا اور اس کے مذہب کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ ان ویدوں کا پیغام بھی دیگر مذہبی کتابوں کی طرح انسانیت اور اخلاق پر مبنی ہے میں اس کے لیے بے حد شکر گزار ہوں۔“

اسی طرح کی خوشی کا اظہار ایک ہندو پنڈت نے بھی اس وقت کیا تھا جب مولانا ارشد مدنی نے اوم اور اللہ کو ایک قرار دیا تھا، اگر غور کیا جائے تو در اصل تقابل کا یہ انداز وحدت ادیان کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں راہ حق کی سمجھ دے، اس پر ثابت قدم رکھے اور ہر طرح کے ظاہری وباطنی فتنوں سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین یارب العالمین

6
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
2 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
6 Comment authors
newest oldest most voted
Waseem Almohammadi

حسب توقع شاندار مضمون

بہت ہی مدلل اور وقیع مقالہ

جزاکم اللہ خیرا
وبارک فیکم
ووفقکم للمزید

محمد ضياء الحق

وفيكم دكتور
بہت بہت شکریہ

Junaid

انتہائی عالمانہ فاضلانہ تحقیقانہ تنقیدانہ اور ناصحانہ و خیرخواہانہ تحریر ہے
بھت سارے شبہات پڑھنے کے بعد از خود رفع ہو جائیں گے

صفت اللہ بخاری کشن گنج

ما شاء اللہ بارک اللہ فیکم

عتیق الرحمن متعلم جامعہ سلفیہ بنارس

جزاکم اللہ خیرا جزیلا
بارک اللہ فیکم یا شیخنا
اس وقت اور اس ماحول میں امت کو آپ جیسوں کی بڑی اشد ضرورت ہے
اللہ سلامت رکھے آپ لوگوں کے دلوں کوکسی لومۃ و لائم کی وجہ سے تکلیف نہ پہنچے
آمین

محمد سهيل

جزاکم اللہ خیرا شیخنا الفاضل وبارک اللہ فیکم