علماء وعوام میں پھیلے باطل افکار وخیالات سے تحفظ کے لیے علمی رسوخ کی ضرورت

آصف تنویر تیمی عقائد و نظریات

چاروں طرف سے دین، عقیدہ، منہج اور علماء حق پر یلغار ہے۔ دین اور عقیدہ کی اصلاح اور خدمت کے نام پرکچھ ایسے لوگ میدان دعوت میں کود پڑے ہیں کہ اصلاح کم اور فساد زیادہ پھیل رہا ہے۔ سادہ لوح لوگ شکوک وشبہات میں مبتلا ہورہے ہیں۔ متشابہات ہی نہیں بلکہ محکمات میں بھی لوگ الجھن میں پڑ رہے ہیں۔ گاؤں سے لے کر شہر تک اور ملک سے لے کر بیرون ملک تک علماء او رعوام دونوں پریشان حال ہیں۔ بہت سارے لوگ علماء ومصلحین امت سے بد ظن ہورہے ہیں۔ علماء کے مابین بھی دوریاں پیدا ہورہی ہیں۔ فقہاء کے گروہ کے علاوہ اب خطبا، واعظین اور مبلغین کا گروہ پیدا ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا کچے پکے دعاۃ کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ نیم ملاؤں سے ہمیشہ دین وایمان کو خطرہ لاحق رہا ہے۔

رہ رہ کر دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار امت اس ناگفتہ حالت سے دوچار کیوں ہے؟علماء ومبلغین کی کثرت کے باوجود اصلاح عقیدہ وعمل کا کام بہتر ڈھنگ سے انجام کیوں نہیں پارہا ہے؟فکری اور منہجی انحراف سے ہمارے نوجوان دوچار کیوں ہیں؟آخر امت کو عقائد واعمال کی خرابیوں سے کیسے باہر نکالا جاسکتا ہے؟

قبل اس کے کہ عقائد واعمال اور افکار وخیالات کی گمراہی کے اسباب وحل پر گفتگو کی جائے اور اصل بیماری کو واضح کیا جائے، ہم سب کو اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ قیامت کے قریب اس طرح کے فتنے رونما ہونے کی پیشین گوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔ سب سے بڑا جو فتنہ رونما ہوگا وہ ایمان وعمل کا فتنہ ہوگا۔ایمان اتنا ارزاں اور سستا ہوجائے گاکہ صبح وشام بکے گا۔ باوقار اور علمی رسوخ رکھنے والے علماء وفضلاء اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے۔ دینی اور دنیاوی ہر معاملے میں جاہلوں کے نام کا سکہ چلے گا اور آج یہی ہورہا ہے۔ دعوت جیسے اہم فریضہ پر گنواروں کی اجارہ داری ہے۔ سوشل میڈیا سے پیدا ہوئے لوگ امت کی رہنمائی اور فتوی وقضا کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرہ میں ہر طرح کا انحراف پیدا ہورہا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ علماء حق اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور گوشہ عافیت سے نکل کر میدان دعوت وعمل میں آئیں۔ قحط الرجال کے اس زمانے میں مدارس وجامعات سے راسخین علماء پیدا ہوں تاکہ کتاب وسنت کے طریقہ پر دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام پائے۔ جب تک ٹھوس علم وعمل کے حامل علماء ودعاۃ میدان علم ودعوت میں نہیں آئیں گے ہم بہتر بدلاؤ کی توقع نہیں کرسکتے ہیں۔

آج سے سو سال قبل ہندوستان کے کونے کونے میں ذی علم علماء کرام موجود تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا خاندان اور ان کے شاگردوں کی بڑی جماعت موجود تھی۔ ان کے بعد شاہ اسحاق اور میاں نذیر حسین محدث دہلوی کا دور آیا، ان دونوں کے تلامذہ عرب وعجم میں چھائے ہوئے تھے۔ متحدہ ہندوستان کی کوئی ایسی ریاست نہیں جہاں میاں صاحب کے شاگرد نہ پائے جاتے ہوں۔ ہندوستان کی آزادی سے قبل میاں صاحب کے شاگردوں کی تحریک سے بے شمار مدارس وجامعات کھولے گئے جہاں سے علماء راسخین پیدا ہوئے۔ انھی جامعات میں سے ایک دار الحدیث رحمانیہ تھا جہاں کا ہر ایک فارغ التحصیل علم وعمل کا امام ہوا کرتا تھا۔ جملہ علوم وفنون میں انھیں کامل عبور ہوتا تھا۔ علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ اور ادبیات میں غیر معمولی صلاحیت حاصل ہوتی تھی۔ وہ جہاں مفسر، محدث، فقیہ اور ادیب ہوتے تھے وہیں مؤثر واعظ اور خطیب بھی ہوتے تھے۔ مسلک اور منہج کی وہی غیرت ان کے اندر پائی جاتی تھی جو صحابہ اور تابعین میں پائی جاتی تھی۔

گذشتہ ایک صدی میں سیکڑوں علمائے راسخین داغ مفارقت دے گئے اور اموات کا یہ سلسلہ جاری ہے اور آگے بھی جاری رہے گا۔ جیسے جیسے ہم قیامت کے قریب ہوتے جائیں گے علماء راسخین ہم سے بچھڑتے رہیں گے۔ قیامت کی نشانیوں میں سے علماء راسخین کی اموات ہیں۔ ایسی صورت میں علماء اور طلبہ کو چاہیے کہ اپنے اندر علمی رسوخ حاصل کریں تاکہ اچھے اور قابل علماء ودعاۃ سے ہمارا معاشرہ خالی نہ ہو۔

عبد اللہ بن عمرو العاص سے مروی ہے:

”بے شک اللہ یکبارگی لوگوں سے علم نہیں اٹھالے گا بلکہ اس طرح اٹھائے گا کہ علماء مر جائیں گے۔یہاں تک کہ جب اللہ کسی عالم(ربانی) کو نہیں چھوڑے گا تو لوگ اپنا پیشوا جہلا کو بنا لیں گے،ان سے(دین کے مسائل) دریافت کیے جائیں گے،جہالت پر مبنی فتوی دیں گے، اس طرح وہ خود کے ساتھ اوروں کو بھی گمراہی کا سبب بنیں گے“۔ (صحیح مسلم: 2673)

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

انھوں نے کہا ضرور میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں گا جس کو میرے علاوہ تم سب نہیں سن سکو گے۔ پھر انھوں نے کہا کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا:”قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ علم گھٹ جائے گا۔ جہالت پھیل جائے گی۔ زنا عام ہوجائے گا۔ عورتوں کی تعداد زیادہ ہوگی یہاں تک کہ ایک مرد پچاس عورتوں کی نگرانی کرے گا۔“(صحیح البخاری:80 )

اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ دین وشریعت کی حفاظت وصیانت کے لیے علم اور علماء کی حفاظت ضروری ہے۔ عقل وخرد بلفظ دیگر افکار سلیمہ کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب ہم شراب نوشی سے بچیں۔ ہماری نسل تباہ وبرباد ہونے سے اسی وقت بچ سکتی ہے جب ہمارا معاشرہ زنا کاری سے پاک ہو۔

مشہور صحابی ابو درداء رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے:

”دنیا سے علم اٹھنے سے قبل علم حاصل کر لو اور علم ایسے اٹھے گا کہ اصحاب علم اس دنیا سے چلے جائیں گے۔ علماء اور طلبہ دونوں خیر وبھلائی میں شریک ہیں۔ ان کے علاوہ لوگوں میں کسی طرح کا خیر نہیں۔ لوگوں میں سب سے بے نیاز اور مالدار عالم دین ہے جس کے پاس لوگ طلب علم کے لیے آتے ہیں۔ اگر لوگوں کو عالم کے علم کی ضرورت نہیں ہوتی تو علم سے خود وہ عالم ہمیشہ مسفتید ہوتا رہتا ہے۔

ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے:

میں محسوس کررہا ہوں کہ علماء کی وفات ہورہی ہے اور جاہلوں کو حصول علم کی فکر نہیں ہے۔ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ پہلے والے لوگ مر جائیں اور بعد والے علم حاصل کریں۔ اگر عالم علم حاصل کرتا رہے تو علم میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اگر جاہل علم سیکھے تو پھر علم ہمیشہ باقی رہے گا۔ میں تمھیں بطن پرور تو پاتا ہوں مگر علم پرور نہیں۔ کھانے پینے کے بڑے شوقین ہو اور علمی اعتبار سے بھوکے ہو۔ (جامع بیان العلم وفضلہ:ص 221)

لقمان حکیم سے پوچھنے والے نے پوچھا:

”أی الناس أغنی؟ قال: من رضی بما أوتی قالوا: فأیہم أعلم؟ قال: من ازداد من علم الناس الی علمہ۔“ (جامع بیان العلم: ص318) لوگوں میں زیادہ مالدار کون ہے؟ آپ نے کہا: وہ جو دیے گئے پر قناعت کرلے۔ پھر لوگوں نے پوچھا: بڑا عالم کون ہے؟ آپ نے کہا: جو لوگوں کے علم سے فائدہ اٹھائے۔

قتادہ بن دعامۃ سے مروی ہے:

”من لم یعرف الاختلاف لم یشم رائحۃ الفقہ بأنفہ“ (جامع بیان العلم: ص319) جو (علماء کے) اختلاف کی معرفت نہ رکھتا ہو وہ فقہ کی خوشبو نہیں پاسکتا۔

افسوس اس زمانے میں اردو اور عربی کی چند معمولی کتابوں کے مطالعے کے بعد عالم اور فقیہ بنے پھرتے ہیں۔ جن سے امت کا بڑا خسارہ ہورہا ہے۔ جب تک آدمی فقہی احکام ومسائل سے آگاہی حاصل نہ کرلے اس وقت تک فقہ وفتاوے کے میدان میں قدم نہیں رکھنا چاہیے۔اسی معنی کا قول سعید بن ابی عروبہ، ایوب السختیانی اور ابن عیینہ رحمہم اللہ سے مروی ہے۔ (ملاحظہ ہو جامع بیان العلم وفضلہ،قول نمبر: 1045-1046)

علی بن الحسن بن رشیق کہتے ہیں:

”سمعت عبد اللہ بن المبارک سئل: متی یسع الرجل أن یفتی؟قال:”اذ کان عالما بالأثر، بصیرا بالرأی“۔(جامع بیان العلم: ص320) میں نے سنا، عبداللہ بن مبارک سے پوچھا گیا: آدمی فتوی دینے کا اہل کب قرار پاتا ہے؟ تو آپ نے کہا:”جب وہ آثار کا جانکار اور بہتر فکر وخیال کاحامل ہو۔“ امت کا بیڑا آج ایسے لوگوں کی وجہ سے غرق ہورہا ہے جو حدیث کا علم رکھتے ہیں نہ فکر سلیم کے حامل ہیں۔ بلکہ ان کے فکر وخیال میں کجی اور انحراف پایا جاتا ہے۔

عبدالرحمن بن مہدی سے مروی ہے:

”لا یکون اماما فی الحدیث من تتبع شواذ الحدیث، أو حدث بکل ما یسمع، أو حدث عن کل أحد۔“ (جامع بیان العلم: ص321) شاذ حدیث کو تلاش کرنے والے، ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرنے والے اور ہر ایک سے روایت والے حدیث کے امام نہیں ہوسکتے۔“

افسوس آج بہت سارے سوشل میڈیائی علماء سو اور دعاۃ دنیا کا پورا کا پورا کاروبار صرف سنی سنائی باتوں اور شاذ وموضوع احادیث پر منحصر ہے۔ پھر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ نہیں پھیلے گا تو کیا اتحاد واتفاق پیدا ہوگا؟

خلیل بن احمد سے مروی ہے:

”الرجال أربعۃ: رجل یدری ویدری أنہ یدری فذلک عالم فاتبعوہ وسلوہ، ورجل لا یدری ویدری أنہ لا یدری فذلک جاہل فعلموہ، ورجل یدری ولا یدری أنہ یدری فذلک عاقل فنبہوہ، ورجل لا یدری ولا یدری أنہ لا یدری فذلک مائق فاحذروہ۔“(جامع بیان العلم: ص 322) لوگ چار طرح کے ہیں؛ ایک وہ آدمی جو جانکار ہے اور وہ جانتا ہے کہ وہ جانکار ہے، ایسا شخص عالم ہے، اس کی پیروی اور اس سے جانکاری حاصل کرنی چاہیے۔ دوسرا وہ آدمی جو جانکاری نہیں رکھتاہے ا ور اسے پتہ ہے کہ اس کے پاس جانکاری نہیں ہے، ایسا شخص ان پڑھ ہے،اس کو سکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیسرا وہ آدمی جس کے پاس علم ہے مگر اس کو معلوم نہیں کہ اس کے پاس علم ہے، ایسا شخص عقلمند ہے اس کو متنبہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چوتھا وہ آدمی جس کے پاس علم ومعرفت نہیں ہوتی اور اس کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ اس کے پاس علم نہیں ہے، ایسا شخص بیوقوف ہے، اس سے بچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔“

اس زمانے میں لوگوں کے حالات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دوسرے اور چوتھے طرح کے لوگ بہت زیادہ ہیں۔اور یہی دونوں ہر میدان میں نظر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے امت میں ابتری پھیل رہی ہے۔

اس زمانے میں جاہل ناقدین کی کثرت بھی بڑھ رہی ہے۔ بیشتر ایسے ناقدین ہیں جنھیں حق اور سچ کا علم ہی نہیں۔ محض تعصب او رتنگ نظری کی بنیادپر نقد کرتے ہیں۔ نقد کیا کرتے ہیں بلکہ اپنی دشمنی اور نفرت کو ظاہر کرتے ہیں۔ علمی اور اصلاحی نقد کی انھیں خبر ہی نہیں ہوتی۔ ایک لمحہ میں ان کے نقد کا خمار اس طرح اتر جاتا ہے کہ ذاتیات پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ دلائل وبراہین سے کٹ کر سب وشتم پر اتر آتے ہیں۔ ان کی تحریر میں علمیت کم او رجہالت زیادہ نظر آتی ہے۔ بعض لوگ تو صرف الفاظ کی جادوگری دکھلاتے اور منظرنامے سے غائب ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ کسی کا علمی مواخذہ کرنے والے کو عدل وانصاف کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس کے نقص اور فضل کا موازنہ کرنا چاہیے۔ اگر ایسے ہی بے لگام نقد وجرح کیا جاتارہے تو پھر کوئی نہیں بچے گا، سبھوں کی پگڑی سربازار گر جائے گی۔ وہ شخصیات بھی اس کی زد میں آئیں گی جن سے بسااوقات علمی اور عقدی کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں۔ امام نووی، حافظ ابن حجر، امام شوکانی اور امام سیوطی رحمہم اللہ جیسے اکابرین کے اوپر بھی انگشت نمائی کی جائے گی اور احمق لوگ ایسا کرتے بھی ہیں۔

سعید بن مسیب سے مروی ہے:

” لیس من عالم، ولا شریف، ولا ذی فضل الا وفیہ عیب، ولکن من کان فضلہ أکثر من نقصہ ذہب نقصہ لفضلہ، کما أن من غلب علیہ نقصانہ ذہب فضلہ۔“ (جامع بیان العلم:ص 322)

کوئی عالم، کوئی شریف انسان اور کوئی صاحب فضل وکمال ایسا نہیں جس کے اندر کوئی عیب نہ ہو، لیکن جس کی اچھائی اس کی کمی سے زیادہ ہو،اس کی کمی کا شمار نہیں ہوتا۔ ایسے ہی جس کی اچھائی پر اس کی کمی غالب آجائے اس کی اچھائی کا اعتبار نہیں ہوتا۔

میرے خیال میں علمی رد ونقد کا اس سے بہتر معیار اور میزان نہیں ہوسکتا۔ آج ہمارے درمیان یہ معیار مفقود ہے جس کو رائج کرنے کی ضرورت ہے۔ اور کسی پر رد سے پہلے سوچنا چاہیے کہ رد کا مقصد کیا ہے؟ اللہ کی خوشنودی ہے یاکچھ اور؟اگر مقصد اللہ کی رضا ہے تو رد کرے ورنہ اپنے موقف کوترک کردے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

”والکلام فی الناس یجب أن یکون بعلم وعدل، ولا بجہل وظلم، کحال أہل البدع“۔(منہاج السنۃ النبویہ: 4\3347) لوگوں سے متعلق گفتگو(رد ونقد) علم اور انصاف کے ساتھ ہونی چاہیے۔ جہالت اور زیادتی کے ساتھ نہیں جیسا کہ اہل بدعت کا شیوہ ہے۔“

آہ! کتنے ایسے لوگ ہیں جو اس رد ونقد میں اس علمی اصول کو اختیار کرتے ہیں؟ اکثر لوگ اہل بدعت کے طریقہ پر گامزن ہیں۔ ان کے پاس علم ہوتا ہے نہ انصاف۔سوائے جہالت اور ظلم کے کچھ نظر نہیں آتا۔

امام ذہبی رحمہ اللہ سے مروی ہے:

”من الذی یسلم من ألسنۃ الناس، لکن اذا ثبتت امامۃ الرجل وفضلہ، لم یضرہ ما قیل فیہ، وانما الکلام فی العلماء مفتقر الی وزن بالعدل والورع۔“ (سیر أعلام النبلاء: 8\448) لوگوں کی موشگافیوں سے کون محفوظ رہ سکتا ہے؟ لیکن کسی شخص کی امامت وفضیلت مسلم ہو تو اس کے بارے میں کہی گئی(بے سود) باتوں سے اس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ علماء کرام سے متعلق کلام کا عدل ورع کے ساتھ وزنی ہونا ضروری ہے۔

اللہ!اللہ! سوشل میڈیا کے اس زمانے میں ناکارہ سے ناکارہ اور جاہل سے جاہل شخص بڑے بڑے علماء وفضلاء پر اپنی زبان دراز کرتا ہے۔ اس کی شخصیت کو مجروح کرنے کی پوری کوشش کرتاہے۔ گویا جاہل ناقد آسمان پر تھوک رہا ہوتا ہے جوتھوک واپس اسی کے چہرے پر گرتا ہے۔

سابقہ تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ فتنے کے اس زمانے میں ہم اپنے اندر علمی رسوخ اور پختگی پیدا کریں۔ علماء وعوام میں پھیلے باطل وافکار وخیالات کے خاتمے کے لیے علمی پختگی نہایت ضروری ہے۔ ورنہ ایسے ہی ہمارے معاشرے میں علم وانصاف کا خون ہوتا رہے گا۔ لوگ آپس میں الجھتے رہیں گے۔ گروہ بندیاں اور جماعتیں ہماری طاقت کو کمزور کرتی رہیں گی۔ جب علماء اور دعاۃ ہی باہم الجھیں گے تو پھر عوام کا کیا حال ہوگا؟ علماء برادری کو سوچنا چاہیے نیز عدل وانصاف اور اخلاص وللہیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔اللہ پاک ہماری اس تحریر کو میرے لیے اوردیگر قارئین کے لیے مفید بنائے۔آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Abdul Rehman Siddiqui

آخری پیراگراف میں بہترین بات اور رہنمای ہے