مذہب اسلام کی ایک بہترین تعلیم اپنی زبان کو قابو میں رکھ کر اس کا صحیح استعمال کرنا ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا النَّجَاةُ؟ قَالَ: ” أَمْسِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ ” ((, قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَن))ٌ.
میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! نجات کی کیا صورت ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھر کی وسعت میں مقید رہو اور اپنی خطاؤں پر روتے رہو۔“(صحيح الترمذي: 2406)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی بہترین تعلیم دی کہ کوئی بندہ جنت میں جانے کا خواہش مند ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان سے کسی مسلمان بھائی یا بہن کو تکلیف نہ پہنچائے۔
دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ , فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ، فَتَقُولُ: اتَّقِ اللَّهَ فِينَا فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ فَإِنِ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا
”انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء زبان کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: تو ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں۔ اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔(صحيح الترمذي: 2407)
عام طور پر دو مسلمانوں کے درمیان دشمنی کی شروعات زبان سے ہوتی ہے۔ مذہب اسلام نے فتنہ و فساد کی جڑ ہی کو ختم کر دیا، فرمایا کہ تم اپنی زبانوں کو قابو میں رکھا کرو۔
دیکھا جائے تو یہ بات سننے میں بڑی عام سی بات معلوم ہوتی ہے کہ زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے حالانکہ غور کریں تو پتہ چلے گا کہ اس پر عمل کرنا بہت دشوار اور کٹھن ہے۔ نادان ان پڑھ سے لے کر پڑھے لکھے سورما بھی زبان کی حفاظت کرنے میں چوک جاتے ہیں اور اپنی زبان کا بے جا اور غلط استعمال کر کے اپنے خویش و اقارب اور تمام مسلمانوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ اسی لیے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جنت کی ضمانت دی جو اپنی زبان، ہاتھ اور پیر سے اپنے کسی مسلمان بھائی کو تکلیف نہ پہنچائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ، وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّةَ
میرے لیے جو شخص دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) کی ضمانت دے دے میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔(صحيح البخاري:6474)
اور ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ
مسلمان وہ ہے جو مسلمانوں کو اپنی زبان اور ہاتھ سے (تکلیف پہنچنے سے) محفوظ رکھے اور مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں سے رک جائے جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔(صحيح البخاري: 6484)
احترام مسلم کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے کو اسی طرح قرار دیا جس طرح مسلمان خانہ کعبہ یعنی بیت اللہ کا احترام کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، وَأَبْشَارَكُمْ، عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا
پھر تمھارا خون، تمھارے مال، تمھاری عزت اور تمھاری کھال تم پر اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔(صحيح البخاري: 7078)
اللہ اکبر! احترام مسلم کو اتنی بڑی اہمیت اور فضیلت دی گئی مگر افسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر آپس میں اتحاد اور یک جہتی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے آج ہم اپنے عمل میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات کے بالکل برعکس نظر آتے ہیں۔
کہنے کو ہم نمازی ہیں، روزے دار ہیں، زکوۃ اور صدقہ خیرات کرنے والے ہیں، حاجی بھی ہیں مگر افسوس ہے کہ حقوق العباد میں ہم بہت کوتاہ ہیں بالخصوص اپنے مسلمان بھائیوں کے تئیں اپنی زبان کا ہم بہت غلط استعمال کرتے ہیں، زبان کا غلط استعمال کرنا تو کجا ہم میں سے بہت سے پڑھے لکھے جاہل بھی ہیں جو امت مسلمہ کو زک پہنچا رہے ہیں جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم مسلمانوں کا ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنا، ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا، ایک دوسرے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا، ہمارا شیوہ بن گیا ہے۔ ہم لاکھوں روپے اپنی ذاتی دشمنیوں پر خرچ کر رہے ہیں، پولیس کو رشوت دی جا رہی ہے وکیلوں کی فیس ادا کی جا رہی ہے، جب کہ امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی اور روزہ دار ہونے کے باوجود اس انسان کو بے ایمان قرار دیا جو اپنے پڑوسی یا کسی مسلمان کو تکلیف پہنچائے ،فرمایا:
وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ” قِيلَ: وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:” الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَهُ
واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کیا گیا کون: یا رسول اللہ؟ فرمایا وہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔(صحيح البخاري: 6016)
ایک بے زبان اور معصوم جانور کو تکلیف پہنچانے پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کی سخت وعید سنائی فرمایا :
يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فُلَانَةَ يُذْكَرُ مِنْ كَثْرَةِ صَلَاتِهَا، وَصِيَامِهَا، وَصَدَقَتِهَا، غَيْرَ أَنَّهَا تُؤْذِي جِيرَانَهَا بِلِسَانِهَا، قَالَ: ” هِيَ فِي النَّارِ”، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّ فُلَانَةَ يُذْكَرُ مِنْ قِلَّةِ صِيَامِهَا، وَصَدَقَتِهَا، وَصَلَاتِهَا، وَإِنَّهَا تَصَدَّقُ بِالْأَثْوَارِ مِنَ الْأَقِطِ، وَلَا تُؤْذِي جِيرَانَهَا بِلِسَانِهَا، قَالَ:” هِيَ فِي الْجَنَّةِ”
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! فلاں عورت کثرت سے نماز، روزہ اور صدقہ کرنے میں مشہور ہے لیکن وہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو ستاتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جہنمی ہے۔ پھر اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! فلاں عورت نماز، روزہ اور صدقہ کی کمی میں مشہور ہے وہ صرف پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کرتی ہے لیکن اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو نہیں ستاتی؟ فرمایا :وہ جنتی ہے۔ (احمد:9675 ، ابن حبان:5764)
آدمی اپنی زبان سے خیر یا بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے، اسی میں اس کی نجات ہے۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ
جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے، جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ چپ رہے۔(صحیح بخاری: 6138)
یعنی جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو اذیت پہنچائے تو وہ مومنوں کی صف میں شامل نہیں ہو سکتا حتی کہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو تکلیف پہنچانے پریا برا بھلا کہنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ناراض ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشہور صحابی رسول حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو بھی سخت تنبیہ فرمائی :
رَأَيْتُ أَبَا ذَرٍّ الْغِفَارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ وَعَلَى غُلَامِهِ حُلَّةٌ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنِّي سَابَبْتُ رَجُلًا فَشَكَانِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعَيَّرْتَهُ بِأُمِّهِ، ثُمَّ قَالَ:” إِنَّ إِخْوَانَكُمْ خَوَلُكُمْ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَأَعِينُوهُمْ
میں نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کے بدن پر بھی ایک جوڑا تھا اور ان کے غلام کے بدن پر بھی اسی قسم کا ایک جوڑا تھا۔ ہم نے اس کا سبب پوچھا تو انھوں نے بتلایا کہ ایک دفعہ میری ایک صاحب (یعنی بلال رضی اللہ عنہ) سے کچھ گالی گلوچ ہو گئی تھی۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے انھیں ان کی ماں کی طرف سے عار دلائی ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارے غلام بھی تمھارے بھائی ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تمھاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالو تو پھر ان کی خود مدد بھی کر دیا کرو۔(صحیح بخاری: 2545)
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زبان کو قابو میں رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
آپ کے تبصرے