پیکرِ اخلاق “بدرِ” کامل

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی تذکرہ

دلوں کی رقت اور آنکھوں کی کیفیت جانچنے کا کوئی  پیمانہ اگرچہ یہ تحریر نہیں ہے مگر موجودہ زمانے میں اچھے اخلاق کی اتنی اعلیٰ مثال جاننے کے بعد بھی اگر کسی کا دل چھلک کر آنکھوں میں نہیں آجاتا تو اسے اپنے روز و شب کے معمولات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

حافظ صاحب زیر نظر مضمون کے لیے شکریہ کے مستحق ہیں کہ وہ دنیا کو اتنی اچھی اور سچی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پھر یہ احسان بھی کرتے ہیں کہ اپنے خصوصی مشاہدات میں ہمیں شامل کرلیتے ہیں۔

اللہ رب العالمین حافظ صاحب کو ایسی تمام کوششوں پر جزائے خیر عطا فرمائے اور ہم سب کو نیک نیتی اور حسن عمل کی توفیق دے۔ آمین (ایڈیٹر)



انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ جب کوئی بات اس کے علم میں آتی ہے تو وہ فورا اس کا مصداق اپنے آس پاس ڈھونڈنے لگتا ہے، بھلی یا بری جو بھی سنے اور سمجھے وہ چاہتا ہے کہ اس حقیقت کو بچشمِ سر مجسم دیکھے۔ اور جب وہ حقائق کو اس طرح مجسم دیکھ لیتا ہے تو پھر اس کے یقین و تصدیق میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کے جذبہ تأثر و اقتدا کو مہمیز لگ جاتی ہے، فن تربیت میں اسے تربیت کی ایک اہم ضرورت “قدوہ” سے تعبیر کرتے ہیں۔

محدث مدینہ شیخ عبدالمحسن العباد کے خلف رشید دکتور عبدالرزاق البدر ایسی ہی پرکشش شخصیت کے مالک ہیں، بحر علم کے شناور اور حسنِ اخلاق کے پیکر، واقف حال احباب جانتے ہیں کہ علم و عمل کے باب میں ان کے امتیاز کی بابت کوئی بھی دعوی بڑا نہیں لگتا-والكمال لله وحده- تاہم ان کے اندر دو خصوصیات بہت نمایاں نظر آتی ہیں۔

پہلی خصوصیت درس و تدریس میں نصوص کے الفاظ پر رک کر بندگی اور عبودیت کے مختلف پہلوؤں کو کچھ اس قدر سلیقہ سے اجاگر کرتے ہیں کہ دل بے اختیار بندگی کے سمندر میں غوطے لگانے لگتا ہے، نفس کے تزکیہ و تربیت،بندگی کے شعور اور عبودیت کے عملی تجربہ سے گزرنے کے لیے علماء ربانیین کی جس صحبت کو ضروری سمجھا جاتا ہے شیخ عبدالرزاق البدر کے درس میں آدمی بارہا اس کا تجربہ کرتا ہے۔ آج بھی نماز فجر کے بعد مسجد نبوی کے پرسکون اور روح پرور ماحول میں شیخ عبدالرزاق البدر کی اطمینان و سکون سے بھری عالمانہ و عارفانہ گونجتی آواز شرکاء مجلس کو علم و حکمت اور ذوق و معرفت کی جن منزلوں کی سیر کرواتی ہے بلا مبالغہ وہ ایک عجب عالم ہوتا ہے ۔ علماء و طلبہ ہی نہیں عوام و خواص سبھی کے سیکھنے کے لیے ان کی مجلسوں میں بہت کچھ ہے ۔

اور دوسری خصوصیت ان کا شخصی اخلاق و کردار ہے جس کی گواہی ہر خاص و عام دیتا ہے ۔ اذکار وادعیہ اور تربیت و اخلاق سے متعلق احادیث کا درس آپ کی خاص دلچسپی کا موضوع ہیں اور ان کو عملی جامہ پہنانا آپ کا محبوب مشغلہ ۔

دکتور عبدالرزاق البدر بن عبدالمحسن العباد البدر عصر حاضر کا ایک بڑا نام ہے، محدث مدینہ شیخ عباد کے خلف رشید ہیں، مدینہ یونیورسٹی کے سینئر اسکالر رہے ہیں،مسجد نبوی کے مدرس ہیں،بین الأقوامی شہرت کے حامل عالم دین ہیں، ان کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند سال قبل ایک دورہ علمیہ میں لیکچر دینے کے لیے وہ انڈونیشیا پہنچے تو ان کی مجلس میں شریک ہونے والے طلبہ و طالبات اور عوام الناس کی تعدادایک اندازہ کے مطابق سوا لاکھ سے متجاوز تھی۔(خیال رہے یہ کوئی کانفرنس نہیں بلکہ شیخ کا خصوصی درس تھا)

؁١٤٢٧ھ کے رمضان کا واقعہ ہےکہ ایک دن آپ کلاس روم میں داخل ہوئے ، بات مدینہ یونیورسٹی کے کلیۃ الحديث کی ہے، یونیورسٹی میں ماہ رمضان میں بھی ابتدائی دوعشروں تک اکثر تعلیم جاری رہتی تھی، حسب معمول شیخ نے طلبہ کی حاضری لگانی شروع کی، باری باری ایک ایک کا نام لیتے اور حاضری درج کرتے جارہے تھے۔ ایک سریلنکن طالب علم محمد صیام اس دن غائب تھا، شیخ نے اس کا نام لیا اور اسے غائب پایا، شیخ کی زبان سے بے ساختہ یہ کلمات نکلے (محمد صیام، صام فنام) یعنی محمد صیام نے روزہ رکھا اور سوگیا۔ شیخ نے اتنا کہا اور آگے بڑھ گئے۔ طلبہ نے بھی اس کا کچھ نوٹس نہیں لیا۔ تھوڑی دیر بعد شیخ کو اچانک احساس ہوا کہ طالب علم کی غیر حاضری میں اور خاص طور پر روزہ کے حوالے سے یہ نامناسب تبصرہ تھا – حالانکہ بظاہر کوئی بڑی بات نہ تھی مگر شیخ نے بلند آواز سے استغفار پڑھنا شروع کردیا اور دیرتک یہی کرتے رہے۔ دوسرے دن طالب علم حاضر ہوا اور شیخ حسب معمول حاضری لگاتے ہوئے اس طالب علم کے نام تک پہنچے تو رک گئے۔ اس طالب علم کو گزشتہ کل کا سارا ماجرا بزبان خود سنایا اورتمام طلبہ کے سامنے اس طالب علم سے معافی مانگی اوربار بار اس سے پوچھتے رہے: کیاتم نے معاف کیا؟ کیاتم نے مجھے معاف کردیا؟یہاں تک کہ طالب علم کو چار وناچار زور دے کر کہنا پڑا کہ شیخ میں نے آپ کو معاف کردیا تب جاکر درس کی ابتدا کی۔ بات یہاں تک ختم نہ ہوئی۔ ایک ہفتہ گزر جانے کے بعدایک دن شیخ کلاس روم میں داخل ہوئے تو کتابوں کا ایک مجموعہ ساتھ میں تھا، حسب معمول طلبہ کے سامنے درس دیا اور جب درس سے فارغ ہوئے تو اس طالب علم کو بلایا اور یہ کتابیں اس کے حوالے کیں اور کہا: میں نے تمھارے متعلق جو بات کہہ دی تھی اس کے بدلے میں یہ تحفہ دے رہا ہوں، امید کرتاہوں تم مجھے معاف کردوگے!!! کردار کی یہ کیسی بلندی ہے اور اخلاق کا یہ کونسا مقام ہے، ایک طرف شخصیت کا یہ قد اور دوسری طرف ان کے تواضع و انکسار اور اخلاق و کردارکا یہ عالم ! یہ ان کے کردار کی عظمت ہے۔ سبحان من خلق وعلم

دراصل اب تک کی یہ گفتگو تمہید ہی ہے جو بذات خود ایک مستقل تحریر بن گئی، یہ ان کی شخصیت کا سحر ہے کہ قلم سرپٹ دوڑ رہا ہے

لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم

آمدم بر سر مطلب، بتانا یہ ہے کہ ان کے اخلاق و کردار کے ایسےنمونے وقتا فوقتا دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ ابھی چند دن قبل ایسا ہی ایک واقعہ سننے کو ملا جس نے آپ کی شخصیت کے اس رنگ کو اور گہرا کردیا اور مناسب معلوم ہوا کہ آپ قارئین تک اسے پہنچادیا جائے، کیا پتہ چراغ سے چراغ جل اٹھیں۔

پتہ چلا کہ شیخ عبدالرزاق البدر ابھی جولائی کے مہینہ میں ہندوستان آکر واپس لوٹے ہیں جس میں آپ کی پوری کوشش تھی کہ آپ کی آمد کی کسی کو اطلاع نہ ملے،ان کے اس سفر کا واحد مقصد اپنے ایک سابق ہندوستانی “عامل” یا “خادم” کی عیادت کرنا تھا ، بڑے لوگ بڑوں کی عیادت کرتے ہیں ان سے ملاقات کے لیے سفر بھی کرتے ہیں، چھوٹوں کے لیے بہت ہوا تو حال چال پوچھ لیتے ہیں،لیکن اپنے ایک خدمتگار کی بیمار پرسی کے لیے کوئی مدینہ سے اڑ کر ہندوستان پہنچ جائے یہ بات ہمارے تصور سے پرے ہے خاص طور پر تب جب مسجد نبوی میں آپ کے یومیہ دروس کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔

سعودی عرب میں بحیثیت عامل یا سائق خاص جانے والے بعض حضرات کے تجربات بسا اوقات بہت تلخ ہوتے ہیں، حتی کہ بعض اہل علم و فضل کے پاس کام کرنے والے افراد بھی نالاں رہتے ہیں۔ اس صورت حال کو بعض بدخواہ لوگ بدنامی کی حد تک لے جاتے ہیں اور سعودی عرب یا مسلم ممالک اور بسا اوقات اسلام کی بدنامی کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال بھی کرتے ہیں، جیسا کہ ماضی قریب میں ایک فلم(دی گوٹ لائف-The Goat Life)میں دکھلایا گیا ۔شیخ عبدالرزاق البدر کے اس واقعہ کو اس تناظر میں بھی دیکھیں تو ایک طرف شیخ کے کردار کی عظمت جھلکتی ہے تو دوسری طرف سعودی عرب کی تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھائی دیتا ہے۔

واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ صوبہ آندھرا پردیش،ضلع وجے واڑہ کے مضافات میں ایک قصبہ ہے پڈنہ، اس قصبہ کے ایک صاحب شیخ عبدالرزاق کے فیملی ڈرائیور کی حیثیت سے بیس سال تک خدمت انجام دیتے رہے ہیں ، ابھی تقریبا تین سال قبل اپنی درازی عمر اور گرتی صحت کی وجہ سے ہندوستان واپس لوٹ آئے اور یہیں رہنے لگے ۔ ان کے فرزند کا کہنا ہے کہ تب سے مہینہ میں دو یا تین بار اپنے اس “خادم” کو کال کرنا اور حال چال پوچھتے رہنا شیخ عبدالرزاق البدر کا معمول رہا ہے ۔

اللہ کی مرضی کہ اسی سال مئی کے مہینہ میں یہ خدمتگار برین ہیمبرج کا شکار ہوگئے، ان کے فرزند نے کچھ لوگوں کے ذریعے دعا کی درخواست شیخ عبدالرزاق البدر تک پہنچائی، شیخ نے فرزند کو فون کیا دعائیں اور تسلی دی۔

یہ حادثہ 8 مئی 2024ء کو پیش آیا تھا، اس کے بعد شیخ اور ان کے معاون ساتھی فرزند کے مسلسل رابطہ میں رہے، ایک دن اس معاون ساتھی نے اطلاع دی کہ 23 مئی کو شیخ کی طرف سے عیادت کے لیے کوئی وجے واڑہ پہنچ رہے ہیں ان کو لینے ایئرپورٹ پہنچ جائیں، حسب وعدہ وہ ایئرپورٹ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس نمائندہ کے ساتھ شیخ بذات خود چلے آئے ہیں ۔

خوشگوار حیرت سے دوچار فرزند نے شیخ کا استقبال کیا تو شیخ نے کہا اگر والد محترم کو تکلیف نہ ہو تو ان کی عیادت کے لیے جانا چاہتا ہوں، فرزند کے لیے یہ صورت حال غیر متوقع تھی،شیخ کی آمد کی پیشگی کوئی اطلاع نہیں، مدینہ سے وجے واڑہ بھی پہنچ چکے ہیں اور صرف عیادت کے لیے آئے ہیں اور اب اجازت بھی طلب کررہے ہیں،وہ فورا تیار ہوگئے اور قافلہ ہسپتال پہنچا، شیخ نے بیمار کے کمرے میں پہنچ کر بیمار کے سر کا بوسہ لیا پھر تنہائی کی درخواست کی اور دیرتک دعائیں پڑھ کر دم کرتے رہےاور وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے والد محترم شیخ عبدالمحسن العباد سے بذریعہ فون بات کروائی اور دعائیں دلائیں اور اپنے خاندان کے دیگر افراد سے بھی بات کروائی، یہ سلسلہ کافی دیرتک چلا، یہ سارا منظر کچھ ایسا تھا جیسے مریض یہاں سے اڑ کر وہاں خود اپنے حقیقی گھر والوں کے درمیان جا پہنچا ہو۔

کافی دیر بعد شیخ وہاں سے سے رخصت ہوئے، یہ سارا ماجرا دیکھ کر اس خدمتگار کے فرزند نے جذبات تشکر سے مغلوب خود کو اور اپنے والد کو ممنون کرم دیکھتے ہوئے اس غیر متوقع عنایت پر شیخ عبدالرزاق البدر کا شکریہ ادا کیا تو جواب میں کہنے لگے:”آپ کے والد محترم نے جس قدر ہماری خدمت کی ہے ہم اس کا دس فیصد حق بھی ادا نہیں کرسکے۔”

شیخ واپس لوٹ گئے اور فرزند کے مطابق ابھی بھی مسلسل رابطہ میں ہیں اور خبرگیری کرتے رہتے ہیں۔

آدمی ایسی مجسم اخلاق شخصیات کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ لے تب بھی اکثر یقین نہیں کرپاتا اور اگر کسی طالب علم کو ایسے کردار کے حامل علماء و اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقعہ مل جائے تو یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔

5
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
ارشادالحق روشاد

سبحان اللہ۔۔
نہایت ہی رقت آمیز تحریر۔۔
مصروفیات بھری زندگی میں اس سے اعلی اخلاق کی۔مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔ روح کانپ گئی پڑھ کر۔۔۔
اللہ شیخ عبدالحسیب مدنی کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔۔

Imran

واقعی رقت آمیز تحریر

ایسی اعلی کردار کے حامل شخصیت، میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی مثال بڑی بمشکل سے ملے گی اللہ شیخ محترم صحت تندرستی عطا فرمائے اور امت پر تادیر ان کا سایہ رہے

Qamrul Haque

ماشاءالله
هؤلاء علماء الرباني الذين ورثوا الدين النبي الامي صل الله عليه وسلم
بارك الله في حياتهم

صفی الرحمن سلفی

سبحان اللہ
واقعی تحریر رقت آمیز ہے، پڑھتے ہوئے پتا نہیں کب آنکھیں ڈبڈبا گئیں، دل فرط عقیدت واحترام سے کانپ گیا اور جسم کے روم روم کھڑے ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ حافظ صاحب کو جزائے خیر دے اور شیخ محترم عبد الرزاق البدر کی زندگی اور علم میں عافیت وبرکت عطا فرمائے ۔

محمد ثوبان بیگ عمري

أحب الصالحين و لست منهم
لعل الله يرزقني صلاحا