مجرمانہ خاموشی

ابوالمیزان منظرنما

آگ لگی ہو تو جس کے ہاتھ میں جو آتا ہے وہی دے مارتا ہے۔ آگ صرف پانی سے نہیں بجھائی جاتی، جن چیزوں کو آگ جلا دیتی ہے وہ بھی بسااوقات آگ کو بجھانے میں کام آتی ہیں جیسے کپڑے اور لکڑی وغیرہ۔
کہیں آگ لگی ہو اور کوئی صحت مند آدمی خاموش کھڑا ہو ایسا کیسے ممکن ہے؟
آنکھیں سلامت ہوں، سنائی دے، ہاتھ پاؤں میں طاقت ہو اور عقل بھی کام کرتی ہو تو بندہ صرف خاموش تماشائی بن کر کیسے رہ سکتا ہے؟
جس آگ میں اسباب جل جاتے ہیں، بستیاں راکھ ہوجاتی ہیں اور تیار فصلیں ہوا میں جھلائی بن کر اڑ جاتی ہیں وہ اس آگ کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (سورہ تحریم:٦)
جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو بچانے کا ایک ہی راستہ ہے جس پر ہمارے نبی ﷺ اور صحابہ چلے۔
اس راستے پر چلنے کے لیے اللہ رب العالمین نے قرآن مجید کے اندر جو ہدایات دی ہیں ان کا وہی مطلب ہے جو ہمارے نبی ﷺ نے بتایا، جس کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نقل کیا پھر آگے منتقل کیا جاتا رہا۔
منتقل کرنے کے اس پورے سفر میں جن لوگوں نے صحابہ کرام کی مرویات کو پڑھا سمجھا اور سمجھایا انھیں تابعین، تبع تابعین، ائمہ، فقہاء اور محدثین وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنھوں نے دین کی تشریح میں من مانی کی، کچھ لوگوں نے تو ایسی من مانی کی کہ ان کے نام سے فرقے وجود میں آگئے۔ کسی شخص یا شخصیت کے دفاع میں نصوص کتاب و سنت کے خلاف جانے والے رفتہ رفتہ الگ الگ فرقوں اور مسالک میں بٹ جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین میں نئی نئی چیزیں داخل کرتے ہیں۔ انھیں ہی بدعتی کہا جاتا ہے۔
اگر بدعتی سرگرم ہوں اور ان کا دائرہ اثر بھی بڑا ہو تو جیسے آگ میں اسباب زندگی جلتے ہیں ویسے ہی دین پر کاربند کم علم اور کم زور ایمان والے بہکتے ہیں۔ یہ بہکاوا دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے آگ لگی ہوئی ہو اور لوگ اس میں جل رہے ہوں۔
ایسی ہی کسی صورت حال میں امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا:
الرَّجُلُ يَصُومُ وَيُصَلِّي وَيَعْتَكِفُ أَحَبُّ إلَيْك أَوْ يَتَكَلَّمُ فِي أَهْلِ الْبِدَعِ؟
تو امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا:
إذَا قَامَ وَصَلَّى وَاعْتَكَفَ فَإِنَّمَا هُوَ لِنَفْسِهِ وَإِذَا تَكَلَّمَ فِي أَهْلِ الْبِدَعِ فَإِنَّمَا هُوَ لِلْمُسْلِمِينَ هَذَا أَفْضَلُ (مجموع الفتاوی: ج٢٨/ص٢٣١)
بدعتیوں کو بے نقاب کرنا آسان کام نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہ نے کہا یہ جہاد کے قبیل سے ہے۔ امر بالمعروف کا فریضہ انجام دینے والے بہت سارے پلپلے لوگ نہی عن المنکر سے ڈرتے ہیں۔ دو بڑے ڈر ہوتے ہیں۔ دونوں بے بنیاد ہیں۔ نہ موت قریب آجائے گی نہ ہی روزی دور چلی جائے گی۔ موت کا ایک وقت متعین ہے، وہ کسی کے چاہنے یا کوشش کرنے سے وقت سے پہلے نہیں آئے گی۔
ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا:
أَلَا لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ رَهْبَةُ النَّاسِ، أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا رَآهُ أَوْ شَهِدَهُ، فَإِنَّهُ لَا يُقَرِّبُ مِنْ أَجَلٍ، وَلَا يُبَاعِدُ مِنْ رِزْقٍ، أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ أَوْ يُذَكِّرَ بِعَظِيمٍ (مسند احمد: ج١٨/ص٥٤/ح١١٤٧٤)
ہر چھوٹے بڑے نفع نقصان کا مالک اللہ ہے، پیدائش کی طرح موت کا وقت، جگہ، حالات اور اسباب سب متعین ہیں، عزت بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ ایمان کے راستے پر سربلندی ہے۔ وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ۔ جیسے اللہ کے راستے میں لڑتے ہوئے بندے کی جان چلی جاتی ہے یا زخم لگ جاتے ہیں اسی طرح نہی عن المنکر کی ڈگر پر چلنے والے کی پگڑیاں اچھا لی جاتی ہیں، عزتیں نیلام کی جاتی ہیں، قلم اور زبان سے زخم دیے جاتے ہیں، الزام لگائے جاتے ہیں، طنز و تعریض کے نشتر چلائے جاتے ہیں۔
گمراہوں اور گمراہ گروں کی ایک طویل تاریخ ہے، بدعتوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ فتنے بڑھتے جارہے ہیں۔ چرب زبانی کا سکہ چلتا ہے۔ کرتب دکھانے والوں کو اب کروڑوں خرچ کرکے اسٹیج بھی نہیں سجانے پڑتے۔ سوشل میڈیا نے پوری دنیا‌ کو ایک بڑے سے میدان میں تبدیل کرکے جادوگروں کو سونپ دیا ہے۔ دنیا بھر کے الم غلم سوال ہیں اور ہر بدعتی کے ٹیڑھے میڑھے جواب۔ کسی کی تقریروں میں جنس ہی جنس، کسی کے خطابات میں عورت ہی عورت، کسی کے اقوال میں سائنس ہی سائنس تو کسی کے فرمودات میں بیک ٹو بیک لطیفے۔
جنھیں دنیا بدعتی جانتی اور سمجھتی ہے ان کے لچکدار مواعظ سے کسی حد تک محفوظ بھی ہے مگر جو بہروپیے کتاب و سنت کا نام لے کر اپنی جہالتیں اور نصوص کی من مانی تاویلیں پروس رہے ہیں ان کا پرہار (प्रहार) زیادہ ہے۔ دنیا بھویہ پردرشنوں (भव्य प्रदर्शनों) کے پیچھے بھاگ رہی ہے اور مجرم ٹھہرا رہی ہے علماء کو، چکاچوند کا‌ چسکا ہے اور کہا جارہا ہے علماء کا‌ پرزنٹیشن دقیانوسی ہے۔
یہ تو تضاد ہے، علماء کار سے چلیں بنگلے میں رہیں تو قوم کا پیسہ کھاتے ہیں۔ سادگی پسند ہوں، سادہ لباس پہنیں، سادہ زندگی جئیں تو دقیانوس، حالات سے بے خبر، دین سکھانے کا طریقہ پرانا۔ وہیں ایک غیر عالم کروڑوں کے کیمرے سے اپنے کرتب ریکارڈ کرے تو اپٹو ڈیٹ۔
خرابی علماء‌ میں نہیں ہے، نہ ان کے علم میں ہے نہ ان کی رہنمائی میں۔ خرابی ان نظروں میں ہے جنھیں جادو کی لت لگی ہے۔ نظربند ہونے کی عادت جلوہ چاہتی ہے، چمتکار پسند کرتی ہے، مافوق الفطرت ہیولا کو امام سمجھتی ہے۔
یہ جادو پسندی، یہ شخصیت پرستی کسی بت پرستی سے کم نہیں لگتی۔ کیونکہ جب کسی شخص‌ یا شخصیت کی غلط بات پر نکیر کی جاتی ہے تو کچھ لوگ واویلا مچانے لگتے ہیں۔
غلط بات پر نکیر سے، نہی عن المنکر سے اگر کسی کی ناک نیچی ہوتی ہے تو وہ اپنا‌ ایمان ٹٹولے۔ کیونکہ امر بالمعروف سے اگر مومن کی پیٹھ مضبوط ہوتی ہے تو نہی عن المنکر سے منافق کی ناک رگڑی جاتی ہے۔
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا:
إِذَا أَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ شَدَدْتَ ظَهْرَ الْمُؤْمِنِ، وَإِذَا نَهَيْتَ عَنِ الْمُنْكَرِ أَرْغَمْتَ أَنْفَ الْمُنَافِقِ (الامر بالمعروف والنھی عن المنکر للخلال: ص ٣٦)
جب بدعتوں کا بازار گرم ہو، کتاب و سنت کا‌ نام لے کر من مانیاں اور من مرضیاں انڈیلی جارہی ہوں، رنگ و نور کے دم پر دین اور دین داری کا درشن بڑھایا‌ جارہا‌ ہو اور علماء کی اکثریت کو بھی بھلائی سے زیادہ بڑائی میں پیشوائی نظر آرہی ہو تو وہ دن دور نہیں جب دجال کا پرسونا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
اس سے پہلے کہ دجال آئے، ہمیں ہوش میں آجانا چاہیے۔ اگر دنیا میں کہیں حق و باطل کو مکس کیا جارہا ہو، چپ رہنے پر ایسا‌ گمان کیا جاتا ہو کہ بندہ باطل کے سپورٹ میں ہے تو کامیابی صرف انھیں ہی ملے گی جنھوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دونوں کیا ہوگا۔
جو خاموش ہیں، وہ جرم کر رہے ہیں۔ ان سے عذاب کا وعدہ کیا‌ گیا ہے:
فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (سورہ اعراف:١٦٥)

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
مقصود علاءالدین سین

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ