حاملہ ہتھنی کے ساتھ حیوانیت اور اسلامی تعلیمات

مسنون مظہر اعظمی

کچھ دنوں پہلے ایک حاملہ ہتھنی کے ساتھ ایسا دردناک سلوک کیا گیا کہ سن کر دل رنجیدہ و آزردہ ہو گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حادثے کے بارے میں سن اور پڑھ کر ہر انسانیت نواز کو قلبی اور روحانی تکلیف ضرور ہوئی ہوگی۔
مذہب اسلام میں انسانوں کے ساتھ جانوروں کے بھی حقوق اور ان کے ساتھ احسان کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ ممکن ہو تو ہندی اور انگلش میں بھی لکھ کر اسلام کے تئیں بدظن ہم وطن ہندوستانی بھائیوں کو اسلامی تعلیمات کے بارے میں بتایا جائے اور اسلام کی صاف شفاف تعلیمات سے انھیں روشناس کرایا جائے۔

جانوروں کے ساتھ رفق و مہربانی امت محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے۔ مختلف احادیث میں بے زبان جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تعلیمات موجود ہیں:
صحیح بخاری (٢٢٦٦) کی روایت کے مطابق ابو ہریرەؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک شخص کو راستہ چلتے ہوئے سخت پیاس لگی، راستے میں کنواں ملا تو اس نے اپنی پیاس بجھائی، جیسے ہی کنویں سے باہر نکلا ایک کتے کو دیکھا جو پیاس کی شدت کے سبب اپنی زبان باہر نکال رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ کچھ دیر پہلے مجھے بھی ایسی ہی پیاس لگی تھی جیسی اس کتے کو لگی ہے، کنویں میں واپس اترا اور اپنے موزے میں پانی بھر کر اس کتے کو پلایا۔ اللہ تعالی نے اس کے اس عمل کو قبول کیا اور اسے بخش دیا۔
صحابہ کرام نے پوچھا: کیا ان جانوروں میں بھی ہمارے لیے اجر اور بدلہ ہے؟
رسول ﷺ نے جواب دیا: نمی رکھنے والے ہر جگر (ہر جاندار کے ساتھ احسان کرنے میں) اجر اور نیکی ہے۔
ایسا ہی واقعہ ایک فاحشہ عورت کے ساتھ بھی پیش آیا اس نے سخت گرمی کے دن میں ایک شدید پیاسے کتے کو پانی پلایا تو اللہ نے اسے بخش دیا۔ (صحیح مسلم:۵۸٦٠)
حضرت سہل بن حنظلہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ ایک ایسے اونٹ کے پاس سے گزرے جس کا پیٹ بھوک کی وجہ سے اس کی پیٹھ سے مل گیا تھا تو رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ان بے زبان جانوروں کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو، انھیں کھاؤ اس حال میں کہ یہ صالح ہوں۔ اسی طرح ان پر سواری بھی کرو اس حال میں کہ وہ صالح ہوں۔ (سنن ابو داؤد: ٢٥٤٨، علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے)
حدیث میں صالحۃً کا لفظ ہے جس کی شرح میں صاحب عون المعبود عظیم آبادی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ “اس حال میں کہ یہ کھانے لائق موٹے تازے ہوں” یعنی انھیں کھلا پلا کر تر و تازہ اور صحت مند بناؤ اور انھیں بھوکا رکھ کر یا ان کی قدرت سے زیادہ ان پر سامان لاد کر ان کو تکلیف نہ پہنچاؤ۔
سنن دارمی اور مسند احمد کی ایک حسن روایت میں ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ان جانوروں کو کرسی نہ بنا لو یعنی بلا وجہ ان پر بیٹھے نہ رہو کہ یونہی بیٹھ کر باتیں کرتے رہو بلکہ جتنی ضرورت ہو اتنی دیر ہی بیٹھو۔
سنن ابو داؤد (۲۵٦۷) کی ایک صحیح حدیث میں رسولﷺ نے فرمایا: “اپنے جانوروں کی پیٹھوں کو منبر بنانے سے بچو۔ بلاشبہ اللہ عزوجل نے ان کو تمھارے تابع کیا ہے تاکہ تمھیں ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچا دیں جہاں تم نفسوں کی مشقت کے بغیر پہنچ ہی نہیں سکتے تھے اور اس نے تمھارے لیے زمین بنائی ہے تو اپنی ضرورتیں اس پر پوری کیا کرو”۔
(جانوروں کی پیٹھ کو منبر بنانا) اس جملے کی شرح میں عظیم آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ان کی پیٹھوں پر سوار نہ ہوجاؤ اور پھر رک کر خرید و فروخت وغیرہ کی باتیں کرو، بلکہ اتر کر ضرورتیں پوری کرو پھر سوار ہوجاؤ
(ضمناً ایک بات عرض کردوں کہ رسول الله ﷺ نے اونٹ پر بیٹھ کر جو خطبہ دیا تھا وہ ضرورت تھی جسے زمین پر کھڑے ہو کر پوری کرنا مشکل تھا۔ (یہ امام خطابی کے قول کا اختصار ہے))
سنن ابو داؤد (۲۵۵۱) میں حضرت انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دوران سفر جب ہم کہیں رکتے تو نماز سے پہلے اپنے اونٹوں کے کجاوے اتار دیتے تھے۔
عون المعبود میں شارح لکھتے ہیں: بعض علماء کے نزدیک مستحب ہے کہ جب کوئی اپنے سواری سے اترے تو خود کھانے سے پہلے اپنی سواری کے لیے چارہ ڈال دے۔
عبدالرحمٰن بن عبداللہ اپنے والد (عبداللہ بن مسعود ؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ قضائے حاجت کے لیے گئے تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی، اس کے ساتھ دو بچے بھی تھے، ہم نے اس کے دونوں بچوں کو پکڑ لیا، چڑیا آئی اور (بچوں کے اوپر اردگرد) منڈلانے لگی۔ نبی کریمﷺ تشریف لائے اور فرمایا ” کس نے اس کو اس کے بچوں سے پریشان کیا ہے؟ اس کے بچوں کو چھوڑ دو۔“ (ایک دوسرے موقع پر) آپﷺ نے دیکھا کہ چیونٹیوں کے بڑے بل کو ہم نے جلا ڈالا ہے۔ آپﷺ نے پوچھا ”اس کو کس نے جلایا ہے؟“ ہم نے کہا: ہم نے جلایا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ”آگ کے رب کے سوا کسی اور کے لیے روا اور جائز نہیں کہ آگ سے عذاب دے۔“ (ابوداؤد)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اونٹوں، گایوں اور بکریوں کا جو بھی مالک ان کا حق ادا نہیں کرتا اسے قیامت کے دن ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بٹھایا جائے گا، سموں (کُھر) والا جانور اسے اپنے سموں سے روندے گا اور سینگوں والا اسے اپنے سینگوں سے مارے گا، ان میں سے اس دن نہ کوئی(گائے یا بکری) بغیر سینگ کے ہوگی اور نہ ہی کوئی ٹوٹے ہوئے سینگوں والی ہوگی۔” ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: “ان میں سے نر کو جفتی کے لیے دینا، ان کا ڈول ادھار دینا، ان کو دودھ پینے کے لیے دینا، ان کو پانی کے گھاٹ پر دوہنا (اور لوگوں کو پلانا) اور اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دینا۔ (صحیح مسلم: ٢٢٩٧)

حدیث کی بعض کتابوں سے بعض ان حدیثوں کا ذکر کیا گیا جس میں رسول الله ﷺ نے جانوروں کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان احکامات سے اسلامی تعلیمات کی شفافیت اور مبنی بر انسانیت ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ان واضح تعلیمات کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ پٹاخے کے ذریعہ ہتھنی کا قتل کرنا اللہ، اس کے رسول اور اسلام کی نگاہ میں حد درجہ مبغوض اور ناپسندیدہ عمل ہے۔
جن دشمنان اسلام کو اسلامی تعلیمات کی انسانیت نوازی پر شک ہے انھیں غور و خوض کی دعوت دی جائے کہ جس اللہ نے ایک فاحشہ کو ایک کتے کے ساتھ احسان کرنے کے عوض میں معاف کردیا ہو کیا وہ اپنے عبادت کرنے والوں کو سفاکیت کی تعلیم دے سکتا ہے؟
جس اسلام نے جانور پر اس کی قدرت سے زیادہ بوجھ لادنے سے منع کیا ہو کیا وہ کسی جانور پر ظلم کرنے اور اسے قتل کرنے کی اجازت دے سکتا ہے؟
جس رسول ﷺ نے پرندے کے بچوں کو لوٹانے کا حکم دیا ہو اس کی تعلیمات میں دہشت گردی کہاں سے آ سکتی ہے؟
جس مذہب کی تعلیمات میں کسی جانور کے تھن میں اس کے بچوں کے لیے دودھ چھوڑنے کا حکم ہو، کیا اس کے احکامات میں بربریت کا عنصر پایا جا سکتا ہے؟
جس دین میں جانور پر بلا وجہ بیٹھے رہنے سے منع کیا گیا ہو کیا وہ سب سے زیادہ انسانیت نواز مذہب نہیں ہوگا؟
جس شریعت میں جانوروں کے حقوق بتائے گئے ہوں کیا وہ انسانوں کے ساتھ بد سلوکی کرنے کی اجازت دے سکتی ہے؟

اسلام کی یہ صاف و شفاف، انسانیت نواز اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ تعلیمات ہیں، اسی میں انسانوں سمیت تمام مخلوقات کے لیے خیر اور بھلائی ہے، ان سے دوری ہلاکت و بربادی اور فتنہ و فساد کا سبب ہے۔

ان اسلامی تعلیمات کو ان اغیار تک پہنچانے کی سخت ضرورت ہے جن کے ذہن و دماغ میں دشمنان اسلام نے میڈیا کا سہارا لے کر اسلام کے تئیں غلط فہمیاں کوٹ کوٹ کر بھر دی ہیں جس کے نتیجے میں سادہ لوح اور بھولے بھالے انسان مسلمانوں کو دہشت گرد، قاتل و ظالم، لوٹ مار اور فساد برپا کرنے والا سمجھنے لگے ہیں۔

اللہ سے دعا ہے کہ انسانوں کو حقیقی انسان بنانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اس بات کی توفیق دے کہ غیروں تک دین اسلام کی صاف و شفاف تعلیمات پہنچا کر ان کے ذہن سے کم از کم غلط فہمیوں کو دور کرسکیں۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000