کہیں چشم نم میں جو اشک تھے سر شام غم وہ چھلک گئے
کہیں آرزو کے ہجوم میں کئی اہل دل بھی بہک گئے
کہیں زندگی کی ہیں رونقیں، کہیں روز روز ہلاکتیں
کوئی دام غم سے بھی بچ گیا، کئی آفتوں میں لڑھک گئے
کبھی نیند میں، کبھی ہوش میں، جو سجا سجا کے بڑے ہوئے
وہ جو خواب تھے مرے عشق کے، در غار ہجراں دبک گئے
مرا شوق تھا جو وصال کا، تری زلف کی وہ پکار تھا
کہ مسافتیں نہیں کم ہوئیں، کئی قافلے بھی بھٹک گئے
مری چشم نم مرا درد و غم، مرا سوز دل مرا زخم جاں
وہ حرارتیں تھیں کہ ہجر میں میرے غم کدے بھی دہک گئے
یہ جو فارسے کا کلام ہے یہ درون دل کا پیام ہے
مرے ہم سفر تمھیں کیا ہوا میرے ساتھ تم بھی اٹک گئے
اس دور میں ایسے اشعار نا پید کی طرح ہے۔ بحور سے جہالت کی وجہ سے لوگوں نے آزاذ اشعار کا بوکس ٹرینڈ چلایا۔ جو نہ نظم رہا نہ نثر۔ کفایت اللہ بھائی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
Masha Allah bht hi shandar