یاد سلف میں

شمیم عرفانی شعروسخن

پوچھے ہو ہم سے کیا دل مضطر کا حال زار

ٹوٹے ہیں کوہِ غم کئی اس دل پہ بار بار


سال رواں نے دی ہمیں کیسی یہ یادگار

بحر الم کی موج ہے، ناپید ہے کنار


لو دیکھو گر یقیں نہیں دل کی جراحتیں

اب تو لباسِ زخم بھی اپنا ہے تار تار


دنیائے دوں سے رشتۂ الفت رکھیں تو کیا؟

ہے کون لازوال یہاں کیا ہے پائیدار


اس کارگاہ زیست كو اے دل یہ کیا ہوا

اپنے وجود کا بھی رہا کچھ نہ اعتبار


موت و حیات پر کہاں بندوں کا زور ہے

انسان چاہے کر بھی لے سامان صد ہزار


لڑتی ہے زندگی یہاں ہر گام موت سے

ہر آن صبح و شام پہ ہے موت کا حصار


گلہائے رنگارنگ سے شاداب تھا چمن

اس کے رخ حیات پہ کیا خوب تھا نکھار


ناگاہ، آکے دست اجل نے یہ کیا کیا؟

ہر چشم اشکبار ہے ہر دل ہے سوگوار


پوچھے ہے دل وہ گوہر نایاب کیا ہوئے

مردان حق شناس وہ جنت کے خواستگار


دیدہ وران قوم ہمارے کدھر گئے؟

وہ مخزنِ علوم نبوت کے پاسدار


روشن تھی جن کے دم سے ہر اک بزم آگہی

تھے جان ودل سے ملت بیضا پہ جو نثار


سلک گہر کے وہ سبھی دانے بکھر گئے

ڈھونڈھے ہے ہر نظر وہی لولوئے آبدار


کیسے بھلائے جائیں گے وہ رہروان شوق

دنیائے علم و فضل کے بے مثل تاجدار


کس کس کا ذکر کیجیے کس کس کو روئیے

ہر ایک علم وفن میں تھا قدرت کا شاہکار


اے دل! ہجوم غم میں ہے پنہاں حیات نو

ہر چند، دل خراش ہیں غم ہائے روزگار


اے مرغ نالہ کوش! تو آہ وفغاں نہ کر

آئے گی دیکھنا ترے گلشن میں پھر بہار


دشت وفا کے صحرانوردو! تمھیں سلام

تم پر خدائے پاک کی رحمت ہو بے شمار


حور و قصور، اطلس وجام طہور سے

خلد بریں سے شاد کرے رب کردگار

آپ کے تبصرے

3000