مایوسیاں سمیٹ کے ہم یار مر گئے
جینے کی آرزو میں کئی بار مر گئے
صبح ازل سے خوشیاں نچھاور رہیں مگر
ہم عشق کے فریب میں بے کار مر گئے
اس کے لبوں پہ شبنمی قطرے کو دیکھ کر
افکار جاں بحق ہوئے اشعار مر گئے
دریا سے التجا کی مگر کچھ نہیں بنا
ہم تشنہ لوگ پیاس سے لاچار مر گئے
یہ زندگی بھی مجھ پہ مہربان اب ہوئی
جب سارے خواب بر سر پیکار مر گئے
دریائے غم عبور کریں بھی تو کس طرح
اس پار جو بچے تھے وہ اس پار مر گئے
بستی کے سارے لوگ ہیں کیوں سوگوار آج
لگتا ہے میرے یار طرح دار مر گئے
ممتازؔ فکر و فن کی یہ راتیں سجائے کون
اس مے کدے کے ساقی و مے خوار مر گئے
آپ کے تبصرے