پلکوں پہ سب بٹھائیں، گودی میں سب کھلائیں
ہنستا ہوا جو دیکھیں تو وہ بھی مسکرائیں
شام و سحر کسی پل گر سن لیں میری آہیں
میری خوشی کی خاطر گھوڑا بھی بن دکھائیں
بن جاؤں میں دوبارہ آنکھوں کی سب کا تارا
اے کاش لوٹ آئے بچپن مرا دوبارہ
ہر شب پری کے قصے، امی مجھے سنائیں
’میرے جگر کا ٹکڑا‘ کہہ کر مجھے بلائیں
اَبّا کی چھٹیوں کے جب دن کبھی بھی آئیں
تو سائیکل سے مجھ کو تڑکے گھما کے لائیں
بہنے لگے زمانے کی کاش الٹی دھارا
اے کاش لوٹ آئے بچپن مرا دوبارہ
نے فکر زندگی تھی، نے اس پے جاں نثاری
درد و الم کے سارے احساس سے تھا عاری
سارا جہان میرا،بس تھی وہ ایک ناری
آواز جس کی مجھ کو لگتی تھی سب سے پیاری
وہ دن گزر گئے، اب ہوں مشکلوں کا مارا
اے کاش لوٹ آئے بچپن مرا دوبارہ
یاروں کے ساتھ مل کر بارش میں وہ نہانا
ساحل پہ بیٹھ کر وہ بالو کے گھر بنانا
کتنے حسین پل تھے، کتنا حسیں زمانہ
سب کچھ بدل گیا اب، سب ہو گیا فسانہ
آخر ہوا کیوں ایسا، کیا جرم تھا ہمارا
اے کاش لوٹ آئے بچپن مرا دوبارہ
بچپن کے سارے ساتھی روپوش ہو گئے ہیں
موجود ہیں جو وہ بھی خاموش ہو گئے ہیں
لگتا ہے جیسے گویا بے ہوش ہو گئے ہیں
دنیا کے پیچھے ایسے مدہوش ہو گئے ہیں
اس سے تو اچھا اسعد بچپن ہی تھا ہمارا
اے کاش لوٹ آئے بچپن مرا دوبارہ
ما شاءالله،بہت خوب