کچھ تصور، کچھ حقیقت، کچھ فسانے ہو گئے
اک ترے آنے سے موسم بھی سہانے ہو گئے
کون اپنا ہے، پرایا کون ہے، دشمن ہے کون؟
سب اسیر شوق، دولت کے دیوانے ہو گئے
دل کی بستی میں کہیں وہ آج بھی ہے خیمہ زن
گر چہ اس ظالم سے بچھڑے بھی زمانے ہو گئے
ایسی تحریریں لکھی تھیں وقت نے رخ پر مرے
پڑھتے پڑھتے میرے بچے بھی سیانے ہو گئے
ساقیا! اب زہر دے دے، جام میں کچھ دم نہیں
روز جینے کے بہت حیلے بہانے ہو گئے
سارے غم بکھرے پڑے تھے دل کے کھنڈر میں مگر
شعر کی صورت میں جب نکلے خزانے ہوگئے
مفلسی تو نے جو اک گھر سے نکالا بھی تو کیا
شہر میں اب تو کئی اپنے ٹھکانے ہو گئے
آو پھر سے شہر میں طوفان کچھ برپا کریں
بوڑھی آنکھوں کے سبھی منظر پرانے ہو گئے
مجھ کو دیوانہ سمجھتی رہ گئی دنیا سراجؔ
اور مرنے پر سبھی میرے دیوانے ہو گئے
آپ کے تبصرے