امیر جماعت مولانا مختار احمد ندویؔ رحمہ اللہ
(۱۹۳۰-۲۰۰۷ء)
لذّت آگیں ہے زمانے میں کہانی ان کی
خدمت ملّت بیضا میں روانی ان کی
بزم آرا تھی سدا شعلہ بیانی ان کی
کتنے شہروں میں ہے موجود نشانی ان کی
شاد میسورؔ ہے اور عالیہؔ معمورہ ہے
آرزوؤں کا محل وادی منصورہؔ ہے
ان کی صورت میں جماعت کو وہ شہباز ملا
قوّت کار ملی جذبۂ پرواز ملا
عالم نشرو اشاعت کو نیا راز ملا
فن تعمیر مساجد کو بھی انداز ملا
یاد، ’’اصلاح مساجدؔ‘‘ کی، جواں ہوتی ہے
جب مساجد کے مناروں سے اذاں ہوتی ہے
ان کا ہر کار جہاں بھی رہا شہہ کار رہا
قابل گفت رہا قابل دیدار رہا
ملک و ملت کا بہر طور وفادار رہا
جیسے مختارؔ تھا وہ ویسے ہی مختارؔ رہا
اہل توحید کو ہے یاد فسانہ ان کا
مدتوں گائے گا عالم بھی ترانہ ان کا
قوّت فکر مقیّد تھی وہ آزاد ہوئی
اپنی تعداد تھی محدود لاتعداد ہوئی
روح بیدار جماعت کی ہوئی شاد ہوئی
ان کی تشریف سے جب بمبئیؔ آباد ہوئی
شہر یہ کام کا انجام تو البتہ تھا
ان کے جذبات کا آغاز تو کلکتہؔ تھا
منہج و طرز سلفؔ کا جسے حارس کہیے
علم میں قاہرہؔ اور دلّیؔ و فارسؔ کہیے
نہ کہیں کچھ اسے تزئین بنارسؔ کہیے
’’سلفیہؔ‘‘ یعنی جسے امّ مدارس کہیے
نکہت گل میں بھی مختارؔ کی بو شامل ہے
اس کی تعمیر و ترقی میں لہو شامل ہے
تھی انھیں اہل حدیثوں کی قیادت حاصل
پرسنل لاءؔ میں بھی تھی ان کو سیادت حاصل
ان کی آمد سے مجالس کو ضمانت حاصل
ملک و بیرون میں تھی ان کو ثقاہت حاصل
ہے یہی عزو کرامت، یہی والا جاہی
عظمت شاں ہے یہی اور یہی ہے شاہی
کب سے دلّیؔ میں جماعت کا قیام مسعود
دفتر اہلؔ حدیثان وطن تھا مفقود
کون کہتا ہے نہیں تھے وہاں مخلص موجود
پر مقدّر تھا انھی کے لیے کار محمود
منزل اہل حدیثان وطن ہے باقی
گو خزاں دیدہ ہے پر اپنا چمن ہے باقی
میں نے دیکھا نہ کبھی ان کو سپر ڈالا ہے
کار انبوہ جو تھا، تنہا ہی کر ڈالا ہے
کشت تعلیم میں وہ لعل و گہر ڈالا ہے
بار مشکل ہے جو اخلاف کے سر ڈالا ہے
یہ سبھی کار فراواں ہوئے خاموشی میں
اور ہر وقت ترقی رہی پاپوشی میں
ہے دعا مصلحؔ خستہ کی: توانائی دے
جانشینوں کا الٰہا تو مسیحائی دے
جذبۂ و جوش و ہنر، ہمت و دانائی دے
وقت نازک میں دم معرکہ آرائی دے
علم و تعلیم کا پیغام دیں معمورہ کو
بھول پائے نہ کوئی وادیٔ منصورہ کو
مصلحؔ نوشہروی(۱۲؍۶؍۲۰۱۵ء کویت)
آپ کے تبصرے