ڈاکٹر حافظ مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ

صلاح الدین مقبول احمد مدنی شعروسخن

استاذ گرامی ڈاکٹر حافظ مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ
(۱۹۳۹- ۲۰۰۹ء)


پرورش ان کی کمال فرد کی تمہید تھی

ان سے عہد کہنہ کی ہونی کوئی تجدید تھی

نعمت قرآن و سنت، نعمت توحید تھی

خانوادے کو بھی وابستہ بڑی امید تھی

رخت باندھا سوئے ازہرؔ، گھر سے دوری ہوگئی

خانوادے کی جو تھی امید، پوری ہو گئی


کم سنی میں اس نے کھائی ہے مدارسؔ کی ہوا

اور لیا ازہرؔ سے اس نے علم و فن مہرو وفا

آشناے بزم نو یعنی علیؔ گڑھ کی فضا

مقتدیؔ یہ تب کہیں جاکر بنا ہے مقتدا

زندگی گذری ہے برسوں علم کی تحصیل میں

یہ عناصر جلوہ گر ہیں فردؔ کی تشکیل میں


کم سنی سے پی رہا تھا حب عربیت کا جام

اس کو تاریخؔ و ادبؔ میں مل گیا اعلی مقام

عربیؔ و اردوؔ جرائد میں مقالوں کا دوام

عصر نو میں تھے وہ ’’تعریب‘‘ و ’’تراجم‘‘ کے امام

’’صوت امہ‘‘ کو ملا ان سا مدیر ہونہار

اس ادارت نے اسے بخشا ہے صدہا اعتبار


جامعہ سلفیہؔ یعنی مرکزی دارالعلومؔ

ملک اور بیرون میں اس کے بہی خواہوں کی دھوم

ماہرین علم و فضل و فن کا تھا کافی ہجوم

اپنی زرخیزی میں تھا بالکل نہیں وہ شورہ بوم

ناظمؔ اعلی و شیخؔ الجامعہ کا اہتمام

اس میں شامل ازہریؔ کا انتظام و انصرام


عرف میں سرور نہ ہو ، حاصل ہو اس کو سروری

اس کے تو مصداق اول تھے جناب ازہریؔ

ہے قیادت اور سیادت، ہے یہی تو رہبری

’’قدر جوہر شاہ داند یا بہ داند جوہری‘‘

جامعہؔ میں ناظمؔ اعلی کا حسن انتخاب

شعلۂ علم و ہنر تھا اس کا ریعان شباب


شرع اسلامی میں تو اخلاق کی تلقین ہے

شکر محسن کا بجا لانا ہمارا دین ہے

بندۂ عاجز بھی اس خرمنؔ کا خوشہ چین ہے

معترف ہے ان کے احسانات کا، غمگین ہے

ہم نے دیکھا ہے انھیں جب حال اضمحلال میں

کچھ کمی آئی نہیں تھی عزم و استقلال میں


وہ بہت ممتاز تھے اخلاق میں عادات میں

وہ نہ بھولے اپنا منصب سختی حالات میں

تھا ہدف ملحوظ خاطر ان کو ہر اک بات میں

تھا نہیں ثانی کوئی پابندی اوقات میں

جذبۂ علم و ہنر ان کا جواں تھا شام تک

شغل تحریر و کتابت آخری ایام تک


تھے جماعت کے مفکرؔ اور جمعیّت شناس

زینت محفل گئی اور جامعہؔ بھی ہے اداس

علم سے رشتہ رہا جب تک تھے باہوش و حواس

ہے دعائے مغفرت مصلحؔ کی اور شکر وسپاس

زندگانی کے لیے بس وقت ہی شمشیر ہے

موت ہستی کے لیے قانون عالمگیر ہے

مصلحؔ نوشہروی( ۱۳؍۱۰؍۲۰۱۵ء، نئی دہلی)

آپ کے تبصرے

3000