استاذِ گرامی مولانا ابو عبیدہ عبدالمعید بنارسی رحمہ اللہ
(۱۹۱۱-۱۹۸۰ء)
آگئی ہے یاد ان کی، یاد کو ’’خوش آمدید‘‘
ہے ردیف و قافیہ بھی طالبِ ’’ہل من مزید‘‘
خدمتِ استاد سے بندہ ہوا ہے مستفید
آہ! استادِ گرامی حضرتِ عبدالمعیدؔ
تذکرہ ان کا تو علم و فضل کا احقاق ہے
ان کا جو بھی کام ہے وہ شہرۂ آفاق ہے
تھا عروضؔ و نحوؔ و صرفؔ و فقہؔ میں اعلی مقام
فلسفہؔ، منطقؔ، فلکؔ، جغرافیہؔ ان کے غلام
علم و فن کا پی لیا تھا شوق سے جامِ دوام
خیمۂ افلاک میں ہوتے ہیں کم ایسے امام
حنفیت کے کچھ مسائل میں وہ ژولیدہ رہے
زندگی بھر ان پہ وہ رنجیدہ، خندیدہ رہے
ان کی شخصیت میں ہر اک وصف تھا تکریم کا
کون خوشہ چیں نہیں تھا ان کے، اس اقلیم کا
خاص ملکہ تھا انھیں تدریس کا، تعلیم کا
اور اندازِ عجب تھا درس کی تفہیم کا
خوب واضح کر دیا کرتے مصنف کا خطاب
ان کے حصّے میں ہوا کرتی تھی جو درسی کتاب
وہ فنونِ نادرہ کے ماہر و نقّاد تھے
ان کی خاموشی میں ہنگامے کئی آباد تھے
ان کے رعب و دبدبہ کے سب کو قصے یاد تھے
سابقؔ و لاحقؔ کئی نسلوں کے وہ استاد تھے
شہرۂ آفاق ان کا نامِ نامی ہوگیا
تذکرہ ان کا مدارس میں دوامی ہوگیا
فارسیؔ میں اب قواعد کے نہیں ہیں ہمہمے
آج اردوئے معلّی میں ہیں ان کے ترجمے
یہ کتابیں درس میں ہیں علم و فن کے قمقمے
اور مدارس میں أمین النحوؔ کے ہیں زمزمے
ان کی تقویمِ صلاۃِ پنج وقتہ کو دوام
ہے مساجد کی وہ زینت، وہ مفیدِ خاص و عام
ان کی دارو گیر سے شاگرد گھبراتے رہے
اور لطف و لین سے بھی ان کے، شرماتے رہے
طالبانہ خو سے بھی اپنی وہ باز آتے رہے
محوِ خاموشی رہے جب درس فرماتے رہے
ذہن میں بیٹھا تھا پہلے سے ہی رعب و دبدبہ
ہو گیا تھا ان کی علمی شان کا بھی تجربہ
’’سلفیہ‘‘ میں جلوہ گر تھے آرویؔ عبدالوہاب
تھے عبیداللہؔ رحمانی جو شاگردِ جنابؔ
بوعبیدہؔ میں تھی رحمانی کی شاگردی کی تاب
عمر کی منزل میں آتے تھے نظر سب ہم رکاب
شخصیت سب کی رہی مجلس میں یوں باغ و بہار
پر رہا استاد و شاگردی کا جلوہ برقرار
ہم ترستے ہیں انھی جیسے جیالوں کے لیے
علم و فن کے ہم پیالوں ہم نوالوں کے لیے
ذکر و فکر و آگہی کے شاہ بالوں کے لیے
یعنی مصلحؔ باوفا، اللہ والوں کے لیے
’’آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے‘‘
مصلحؔ نوشہروی (۱۷؍۱۰؍۲۰۱۵ء، نئی دہلی)
آپ کے تبصرے